Editorial

پنجاب کا ٹیکس فری بجٹ

پنجاب کا 3 ہزار 226 ارب کا ٹیکس فری بجٹ پیش کر دیا گیاہے۔ آمدن کا تخمینہ 2 ہزار 329 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ وزیر خزانہ اویس لغاری نے پنجاب کا بجٹ پیش کیا۔ آئندہ مالی سال کے لیے صوبے کی آمدن کا تخمینہ 25 کھرب 21 ارب 29 کروڑ روپے لگایا گیا ہے، صوبائی محصولات میں 5 کھرب 53 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ مقامی حکومتوں کے لیے 5 کھرب 28 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ اسٹیمپ ڈیوٹی کی شرح کو ایک سے بڑھا کر 2 فیصد کرنے کی تجویز ہے، مراعات یافتہ طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ مزدورکی کم سے کم اجرت 20 سے بڑھا کر 25 ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے۔
گورنر پنجاب کی جانب سے بلایا گیا پنجاب اسمبلی کا اجلاس ایوان اقبال میں ہوا اور ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے اجلاس کی صدارت کی۔ گورنر اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، بجٹ پیش ہونے کے بعد ایوان اقبال کا اجلاس 18 جون تک ملتوی کر دیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نے مشکل حالات کے باوجود ٹیکس فری اور عوام دوست پیش کیا ہے۔
بجٹ میں صوبے کے عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف دیا گیا ہے۔200ارب روپے کے تاریخی امدادی پیکیج کے تحت10کلو آٹے کا تھیلا اب 490روپے میں دستیاب ہے اور اس امدادی پیکیج کے ساتھ غریب عوام کی سہولت کے لیے 134ارب روپے کے رعایتی پیکیج بھی دیا گیا ہے۔ جنوبی پنجاب، تعلیم، صحت اور سماجی شعبوں کی پائیدار ترقی کے لئے وسائل میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کو ریلیف ملے گا۔ کم از کم اجرت 20,000روپے سے بڑھا کر 25,000روپے ماہانہ کرکے مزدوروں کو ان کا حق دیا ہے۔ یکم جولائی سے پنجاب کے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں اور مراکز صحت پر مفت ادویات دی جائیں گی۔
کینسر کے مریضوں کو بھی مفت ادویات ملیں گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ آئین اور قانون کے رکھوالوں کو غنڈوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ سب جانتے ہیں کہ ایوان میں غنڈے کس طرح ڈپٹی سپیکر کی طرف لپکے تھے۔ کرپشن کا راگ الاپنے والے 4سال سے مجھ پر ایک پائی کی کرپشن یا منی لانڈرنگ ثابت نہیں کرسکے۔ غیر یقینی صورتحال میں صوبے نہیں چل سکتے۔تین ماہ سے چند انا پرست لوگوں کے پیدا کردہ بحران سے گذر رہے ہیں مگرغیر یقینی صورتحال میں صوبے نہیں چل سکتے، تین دن سے بجٹ نہیں پیش کرسکے۔ اپوزیشن اور سپیکر پنجاب اسمبلی نے صوبے میں تماشا لگایا ہوا ہے اور یہ لوگ عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ صوبائی بجٹ میں مہنگائی اورآمدن کی شرح میں بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے کے لیے سرکاری ملازمین کو خصوصی الاؤنس تجویز کیاگیا ہے جس کے تحت گریڈایک سے 19تک کے ایسے ملازمین جو اپنے الاؤنسز کی
انتہائی حدسے کم الاؤنسز وصول کررہے ہیں،انہیں اضافی 15فیصد سپیشل الاؤنس دیا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے دیہاڑی داری طبقہ اور مزدوروں کی کم ازکم اجرت 20ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر 25ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے لیکن اِس پر عمل درآمد کیسے ہوگا اور آجر اور اجیر کے لیے کیا ان احکامات پر عمل کرنا ممکن ہوگا یا نہیں یا کیسے عمل درآمد کرایا جائے گا
یہ چند سوالات جواب طلب ہیں اور اِن کا جواب یقیناً عمل درآمد کی صورت میں ملنا چاہیے کیونکہ سرکار کے بیشتر احکامات کسی موقعے پر عمل درآمد سے رہ جاتے ہیں اور اِن کے بارے میں بالآخر یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی گئی ۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں پٹرول کی نئی قیمت 233 روپے 89 پیسے فی لٹر،ڈیزل کی نئی قیمت 263 روپے 31 پیسے، مٹی کا تیل211 روپے 43 پیسے اور لائٹ ڈیزل 29 روپے 16 پیسے مہنگا ہو کر نئی قیمت 207 روپے 47 پیسے فی لٹر مقرر کی گئی ہے۔ وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد حکومت کو اس مد میں کوئی نقصان نہیں ہو گا اور حکومت نے غریبوں پر نہیں امیروں پر ٹیکس لگایا ہے مگر امیروں سے لیا ہوا ٹیکس غریبوں پر خرچ کریں گے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پٹرول اور ڈیزل پر سبسڈی صفر ہو گئی ہے تاہم حکومت حکومت کا موقف ہے کہ یہ اقدامات اُٹھانا ضروری تھا۔پنجاب کے ٹیکس فری بجٹ سے بات شروع کرکے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نئے اضافے کو اِس کا حصہ بنانے کا مقصد ارباب اختیار سے عام پاکستانی کے لیے موزوں اور قابل رہن سہن حالات کی استدعا کرنا ہے تاکہ عوام مہنگائی کی حالیہ لہرکے نتیجے میں جس کرب سے گذر رہے ہیں اِس سے باہر نکل سکیں اور اُن کا سیاسی و جمہوری عمل سمیت سیاسی قیادت پر اعتماد میں اضافہ ہوسکے۔ اگرچہ پنجاب حکومت نے ٹیکس فری بجٹ پیش کیا ہے لیکن اِس میں عام پاکستانی جو نجی شعبے سے منسلک ہے اُس پاکستانی کے لیے بظاہر کچھ نہیں ہے، ماضی میں بھی متمول طبقے نوازے گئے اور ہر گنجائش میں ان کا نمایاں حصہ رکھاگیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہبازاگرچہ اپنی پہچان خود ہیں لیکن اُن کی پہچان اُن کے والد اور وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف بھی ہیں جو خود کو وزیراعلیٰ کی بجائے خادم اعلیٰ کہلوانا زیادہ پسند کرتے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہتے، اِس لیے حمزہ شہباز کے لیے ضروری ہے کہ وہ خادم اعلیٰ کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اُن پاکستانیوں کو ریلیف دینے کے لیے ایسی راہ نکالیں جو اپنی عزت نفس کی خاطر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاسکتے ہیں اور نہ ہی دو ہزار روپے کے حصول کے لیے ایس ایم ایس کرسکتے ہیں۔
اول تو عامۃ الناس میں اِس رقم کو موجودہ صورتحال میں انتہائی کم قرار دیا جارہا ہے دوسرا ابھی تک اِس کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہوا مگر تنقید شروع ہوچکی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں انتہائی مختصر عرصے میں تین بار تاریخ ساز اضافے کے نتیجے میں ملک بھر میں مہنگائی کا طوفان بپا ہے اور لوگ ابھی تک اسی سوچ میں گم ہیں کہ وہ اِس صورتحال میں کیسے گذر بسر کرسکیں گے۔ اٹھارہ بیس ہزار روپے نوکری والے کا نصف خرچ مہنگے پٹرول کی مد میں خرچ ہورہا ہے، اِس کے پاس اپنے اہل خانہ کے لیے باقی کیا رہ جائے گا اِس کا اندازہ کیا جانا ضروری ہے۔ بلاشبہ اِن حالات میں پوری قوم کو آزمائش پر پورا اُترنا ہے لیکن عامۃ الناس جو نسل در نسل آزمائش سے گذرتے آرہے ہیں بظاہر حالیہ آزمائش میں بھی وہی ہیں ۔ ارباب اختیار نے ہی فرمایا تھا کہ حکومت غریب کی سواری موٹر سائیکل سواروں کو سستا پٹرول فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن وہ بات بھی ماضی کی طرح ہوا ہوگئی اب مساوات اور بلاتمیز سلوک کی مثال عام نظر آرہی ہے، کروڑ اور ارب پتی ، کروڑوں کی گاڑی اور موٹر سائیکل والا سبھی ایک بھائو پٹرول، گندم، بجلی اور گیس خرید رہے ہیں، نجانے کیوں اشرافیہ اورعام پاکستان میں فرق ڈالنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کونسی مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں جن کی وجہ سے یا تو غریب پاکستانیوں کو اشرافیہ والی فہرست میں شامل کرکے آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے یا پھر اشرافیہ کو سستے آٹے کی فہرست میں شامل کرکے انہیں ریلیف دیدیا جاتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو عام پاکستانی اور اُن پاکستانیوں میں نمایاں فرق رکھنا چاہیے اور ’’مساوات‘‘ کی یہ مثال بالکل ترک کردینی چاہیے جس کے تحت امیر اور غریب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جارہا ہے۔ موٹر سائیکل سوار بھی اُسی بھائو پٹرول خرید رہا ہے جس بھائو لگژری گاڑی والا، دونوں کو بجلی ایک بھائو پر دی جارہی ہے، ایسی اور کتنی مثالیں دی جائیں جن میں غریبوں کو اشرافیہ یا اشرافیہ کو غریبوں کے ساتھ رکھاگیا ہے ۔ یہ گذارشات بیان کرنے کا مقصد ارباب اختیار کو یہ باور کرانا ہے کہ مالی مشکلات میں گھری عوام یہ باتیں سوچنے پر مجبور ہے کہ حکومت اشرافیہ کے سامنے مجبور ہے اِسی لیے امیر اور غریب پاکستانی میں فرق رکھنے کا فیصلہ نہیں کرپاتی۔ موجودہ معاشی بحران کا سارا بوجھ حسب سابق عام پاکستانیوں پر لاد دیاگیا ہے حالانکہ وطن عزیز کو قرضوں کے سمندر میں غوطے دلانے میں کسی عام پاکستانی کے کوئی کردار نہیں،
وفاقی حکومت نے مجموعی بجٹ کا قریباً چالیس فیصد غیر ملکی قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیا ہے اور آئندہ بجٹ میں صدفیصد امکان ہے کہ سود کی رقم مزید بڑھ جائے گی، معاشی حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمارے بجٹ کا چالیس فیصد صرف سود کی ادائیگی میں جارہا ہے تو تصور کیا جانا چاہیے کہ اصل رقم تو وہیں کی وہیں ہے ، وہ کس نے اور کیسے ادا کرنی ہے؟ یقیناً اِس کے لیے بھی عوام کو آزمائش سے گزارا جائے گا۔ عامۃ الناس معاشی لحاظ سے شدید کرب میں مبتلا ہیں اور بظاہر اُن کی مشکلات کا ادراک زبانی جمع خرچ سے زیادہ محسوس نہیں ہورہا اور معیشت کی بہتری کے نام پر ہر مشکل فیصلہ اُن پاکستانیوں پرلاگو کیا جارہا ہے جو پہلے ہی قابل ترس اور ریلیف کے لیے متقاضی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button