ColumnNasir Sherazi

آنسوئوں سے تر چہرہ .. آنسوئوں سے تر چہرہ

ناصر شیرازی

مٹھائیوں کے شوقین اور گلاب جامن سے محبت و عقیدت رکھنے والے اس کے برس ہا برس استعمال سے یہ تو جان چکے ہوں گے کہ اس میں گلاب ہے نہ جامن۔ اب تو مٹھائیوں میں مٹھاس بھی واجبی سی رہ گئی ہے۔ بنانے والے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ عوام کی محبت میں کیا جاتا ہے تاکہ وہ مٹھائی کھانے کا شوق بھی پورا کرتے رہیں اور شوگر جیسی بیماری سے بھی محفوظ رہیں۔ وہ یہ کبھی تسلیم نہ کریں گے کہ اس طرح ان کی لاگت کم اور منافع بڑھ جاتا ہے۔ شوگر فری مٹھائیوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے،اس میں شوگر استعمال نہیں کی جاتی تو اس کی قیمت نسبتاً کم ہونی چاہیے کوئی اس کا جواب نہیں دیتا۔ ہر برس بجٹ نہایت دھوم دھام سے تیار ہوتا ہے۔ پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی تیاری اور پیشکاری بھی گلاب جامن فارمولے کے عین مطابق ہوتی ہے کئی دہائیوں سے پیش کیے جانے والے بجٹ اعدادوشمار کی گل کار ضرور تھے مگر اخلاص سے عاری نکلے۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔ بجٹ سازوں کے مطابق یہ بھوکی ننگی حکومت کا بجٹ ہے، جانے والے اس کے تن ڈھانپنے کے لیے تین کپڑے تک نہ چھوڑ کر گئے۔

حکومت کو اس بات پر جانے والی حکومت اور آج کی اپوزیشن کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ وہ اس کے لیے تین کپڑے چھوڑ کر نہیں گئے۔ ایسا ہوتا تو کوئی خدا ترس آجاتا اور اسے تین کپڑوں میں بیاہ کر چلتا بنتا۔ عمران خان کا شادیوں کا شوق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اُس نے رضاکارانہ طور پر پیش کش بھی کی لیکن گھر کے بزرگ نہ مانے۔ ان کا خیال ہے کہ شادی کے بعد جو کچھ کرنا ہے وہ ہم شادی کے بغیر بھی کرسکتے ہیں۔ آپ بات کو کسی اور طرف نہ لے جائیں، بات بجٹ بنانے کی ہورہی ہے۔
کئی ہزار ارب روپے کے ٹیکس تجویز کرنے کے بعد اس کا نام ٹیکس فری بجٹ رکھاگیا۔ حیرت ہے ہر برس بجٹ نیا آتا ہے، نام وہی پرانا چلارہے ہیں، بجٹ پیش کرنے کا مقام تو نہیں بدلا جاسکتا نام تو بدلا جاسکتا ہے۔ ہرسالانہ بجٹ میں قوم کو موت کا منظر دکھادیا جاتا ہے تاکہ بعد ازاں اُسے بخار پر راضی کیا جاسکے۔ اس مرتبہ بھی طریقہ کار یہی ہے،
اس مرتبہ تو ہنسی خوشی بخار قبول کرنے پر راضی ہوجانے کے لیے ملک کے ڈیفالٹ کرجانے کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔ پچانوے کھرب روپے کا بجٹ پیش کیاگیا،پرانے ٹیکس اپنی جگہ پر ہیں، 440 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے جبکہ ٹیکس در ٹیکس کا نظام رہے گا۔ کرنسی کی قدر نصف رہ گئی، مہنگائی دوگنا ہوگئی، تنخواہوں میں اضافہ ایک قطرہ آب برابر جبکہ پنشن میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ای او بی آئی کا محکمہ بنایاگیا تھا کہ وہ اولڈ ایج بینفٹ دے گا، اب یوں لگتا ہے جیسے اُسے کہاگیا ہے خبردار جو تم نے کسی کو کوئی بینفٹ دیا۔ بزرگوں، پنشنر حضرات، بیوائوں اور شہدا کے اہل خانہ نے بینکوںکی لوٹ مار سے تنگ آکر چھوٹے چھوٹے گھر بناکر انہیں کرائے پر چڑھادیا تاکہ اس آمدن سے ان کا چولہا جلتا رہے۔ اب اس آمدن پر بھی ٹیکس لیا جائے گا،بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوچکا ، مفتاح اسماعیل نے خبر دی کہ چاچو آئی ایم ایف اب بھی خوش نہیں، کون نہیں جانتا اس کی خوشی کے لیے پٹرول 300روپے لٹر اوریہی قیمت ڈالر کی کردی جائے گی۔ حکومت مخالفین کہتے ہیں یہ بجٹ وفاقی نہیں مفتاحی بھی نہیں اسحاقی ہے۔
معاملہ سال بعد ایک بخارکا ہو تو قوم اسے قبول کرلے، منی بجٹ بخار سال میں چار بار آسکتا ہے۔ اس بجٹ میں جمہوریت کے نین نقش سدھارنے کے لیے ان 47ارب کا کوئی ذکر نہیں جو الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے مانگے ہیں۔ اس رقم کے علاوہ قریباً 25ارب روپے اور درکار ہوں گے، جو انتخابات میں نظم و ضبط قائم رکھنے اور قانون کا رعب داب قائم رکھنے کے لیے دیگر اداروں کی ضرورت ہوگی، بارہ لاکھ روپے سالانہ آمدن رکھنے والے انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے لیکن یاد رہے ہمارا ایک روپیہ اب چونی کی قوت خرید رکھتا ہے، گھر بسانا اور تنخواہ میں گھر چلانا ہمیشہ سے غریب آدمی اور شریف آدمی کے لیے کڑی آزمائش رہا ہے۔ اب گھر بنانا خواب ہوا، ایک اینٹ کی قیمت پندرہ روپے، ہزار اینٹ کی قیمت پندرہ ہزار ہوگئی، سیمنٹ کی بوری بارہ سوروپے میں ملے گی جس میں سیمنٹ پورا نہ ہوگا۔ ایک دور تھا جب مزدور پندرہ روپے میں ایک وقت کاکھانا کھالیتا تھا، اب اسی قیمت میںایک روٹی ہاتھ پے رکھ کر دال کی راہ دیکھے گا۔
وفاقی بجٹ میں ایک آدمی کی صحت کے لیے 27روپے مختص کیے گئے ہیں اور کچھ اتنے پیسے میں ملے نہ ملے، گندم میں رکھنے والی چوہے مار گولی مل جائے گی، قوم کو اس طرف مائل کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے، اس حوالے سے میڈیا میں بڑے بڑے اشتہارات دیئے جائیں تو دوہرا فائدہ ہوسکتا ہے۔آبادی پر کنٹرول ہوجائے گا اور خاندانی منصوبہ بندی پر اٹھنے والے اخراجات بھی بچ جائیں گے۔ جن سے کوئلے پر چلنے والے پاور پلانٹ خرید کر مزید دو فائدے حاصل ہوں گے، بجلی بھی پیدا ہوگی اور مفت میں منہ بھی کالا ہوسکے گا۔ عندیہ دیا جارہا ہے بس ایک ماہ کی مزید مشکل ہے، پھر حالات ٹھیک ہونا شروع ہوجائیں گے، شاید نظر زکوۃ، خیرات، صدقات، قربانی اور قربانی کے جانوروں پر ہے، کاش کوئی بجٹ بنانے والوں کو بتاسکے کہ عید قربان پر جانوروں کی کھال اترنے سے قبل ہر عام پاکستانی کی کھال اتر چکی ہوگی۔
پے درپے صدمات سے نڈھال قوم کا سانس بحال رکھنے کے لیے دو ہزار روپے فی کس دینے کا بھی اعلان کیاگیا ہے۔ جناب وزیراعظم نے ان دو ہزار روپے کا مصرف بتاتے ہوئے کہا ہے کہ آپ ان سے بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرسکتے ہیں، پٹرول خرید سکتے ہیں،میٹرو پر سفر کرسکتے ہیں، وقت کی کمی کے پیش نظر وہ مزید فائدے نہ بتاسکے۔ ا ور دو ہزارروپے کا بہترین مصرف زخموں پر لگانے والا مرحم ہے، جو، اب ہر گھر میں ہر فرد کی ضرورت ہوگا، منہ زور مہنگائی کے سبب تشریف کے چیتھڑے اڑ جائیں تووہاں لگالیں، بے روزگاری کے تھپڑو سے رخساروں سے خون جاری ہوجائے تو اسے منہ پر مل لیں۔
فلمی ہیروئن غمزدہ لہجے میں المیہ گیت پکچرائز کروارہی تھی، اس کا چہرہ گلیسرین آنسوئوں سے ترتھا، وہ سسکیاں بھرتے ہوئے لب کشا تھی۔
یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے
محبت کرکے بھی دیکھا محبت میں بھی دھوکا ہے
بجٹ اور محبت ایک جیسا دھوکہ ہیں، دونوں میں کھانے کے دانت اور دکھانے کے دانت اور ہوتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب عوام کی محبت میںسرشار سیاست دان بجٹ بناتے تھے۔ آئی ایم ایف کو سرپرنہ چڑھارکھا تھا، اب تو لگتا ہے سیاست دانوں نے محبت سے منہ موڑ لیا ہے۔ عین ممکن ہے انہوں نے دو سیاست دانوں کے انجام سے کچھ سبق حاصل کیا ہو۔ ان میں ایک ممبر قومی اسمبلی عامر لیاقت ہوسکتے ہیں، دوسرے کا کیا نام لینا، وہ تو اس معاملے میں گینز ورلڈ ریکارڈکے حامل ہیں۔
شادی کے معاملے میں نیا فلسفہ سامنے آیا ہے، عورت سے مرد کی پہلی شادی صرف شادی ہوتی ہے، دوسری شادی محبت کہلاتی ہے جبکہ تیسری شادی دھوکہ ہوتا ہے، کسی ایک طرف سے یادونوں طرف سے، پاکستانی قومی کے نصیب دیکھئے،اسے ستر سال سے بجٹ کے نام پر دھوکہ ہی ملا، سب سچی محبت کو ترس رہے ہیں، جس کا وجود عنقا ہوچکا، ہر شخص کا چہرہ حقیقی آنسوئوں سے تر ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button