Columnمحمد مبشر انوار

سنگین معاشی بحران .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

ماہرین معیشت کی اکثریت مسلسل یہ کہتی نظر آرہی ہے کہ پاکستان اس وقت جن شدید معاشی مسائل کا شکارہے،اس کی بنیاد 1993میں بے نظیر بھٹو کے نجی بجلی گھروں کے ساتھ کئے گئے معاہدے یا ان بجلی گھروں کا قیام ہے ،کہ جس کی وجہ سے آج پاکستانی معیشت کی شہ رگ اس شکنجے میں بری طرح پھنس چکی ہے اور بظاہر اس سے نکلنے کے امکانات بھی بہت کم نظر آتے ہیں۔لمحہ موجود میں واقعتاًملکی دم توڑتی معیشت کی بنیادی وجہ یہی نجی بجلی گھراور ان کے ساتھ کئے گئے معاہدے ہیں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ اس بحران کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سارا الزام بے نظیر بھٹو پر لگایا جارہا ہے،جبکہ بے نظیر کے بعد والے حکمرانوں کی نااہلی و ہوس پرستی و زرپرستی کو زیربحث لانے کو تیار نہیں ۔

بے نظیر کے دوسرے دور حکومت میں ملک کو بجلی کی شدید کمی کا سامنا تھا اور اس سے قبل حکمرانوں نے اس بنیادی ضرورت کی کمی کو پورا کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا،جس سے ہنگامی طور پر نپٹنے کے لیے بے نظیر بھٹو نے نجی بجلی گھروں سے معاہدے کرکے ،بجلی کی اس کمی کو پورا کیا اور ملک کو اندھیروں میں ڈوبنے سے بچایا۔ تاہم اس ہنگامی انتظام میں کئے گئے ظالمانہ معاہدوں سے بے نظیر کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کہ حقائق یہ بتاتے ہیں کہ زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب انہی معاہدوں کی وجہ سے ملا تھا۔ علاوہ ازیں!حقائق یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان نجی بجلی گھروں کے مالکان پہلے بھارت سے مذاکرات کرکے آئے تھے جہاں ان سے تمام تر تفصیلات طے کرنے کے بعد کمیشن کا تقاضہ کیا گیا تھا مراد یہ کہ ملکی وسائل کو بے دریغ نہیں لٹایا گیا تھا جبکہ پاکستان کو پیش کی جانے والی قیمتیں متوقع طور پر،بھارتی ارباب اختیار کے رویہ اور حکمرانوں کے کمیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے اضافہ کے ساتھ دی گئی تھیں،جن پر بغیر غور کئے،دی گئی قیمتوں پر دس فیصدزیادہ قیمت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ملک سے بجلی جیسی بنیادی ضرورت کی کمی تو فوری پوری ہو گئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک طرف عوام کے لیے بجلی مہنگی ہوئی تو دوسری طرف حکمرانوں کے ہاتھ ایک ایسی سونے کی چڑیا لگی،جو مسلسل سونے کی برسات کررہی ہے اور تیسری طرف جو معاہدے ان کمپنیوں کے ساتھ کئے گئے ہیں،وہ اس قدر غیر حقیقی ہیں کہ اس میں کسی بھی صورت ان کا کوئی نقصان نہیں البتہ ریاست پاکستان اس دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔نجی بجلی گھروں کے ابتدائی معاہدوں کے بعد دوسری طرف بھارتی ارباب اختیار کے اقدامات دیکھیں تو یہ حقیقت عیاں ہے کہ بھارتی منصوبہ سازوں نے سستی ترین بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر بڑی تیزی سے عمل کرتے ہوئے بڑے بڑے ڈیمز بنائے ،جس سے نہ صرف انہوں نے سستی بجلی حاصل کی بلکہ زراعت کے لیے پورے سال کے لیے وافر پانی بھی جمع کر لیا اور سب سے بڑھ کر پاکستان کو پانی جیسی بنیادی ضرورت کے لیے بھی طویل مدتی منصوبے پر عمل پیرا ہوگئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق، پاکستان کے حصہ میں آنے والے دریاؤں کا پانی ،جو پاکستان ذخیرہ کرنے سے قاصر ہے اور سمندر برد ہو جاتا ہے،اس پر بھی بھارت بڑے ڈیمز بنا کر پاکستان کو نہ صرف بنجر کرنے بلکہ انسانی و نباتاتی و حیوانی زندگیوں کو زندہ درگور کرنے کے قریب ہے۔
پاکستان اس لحاظ سے ایسی کمپنیوں کے لیے جنت بنا ہوئی ہے کہ جس کو جتنا بھی وہ نچوڑ سکتے ہیں
نچوڑ رہے ہیں اور اس میں ریاست پاکستان جن مسائل کا شکار ہو چکی ہے،اس سے نکلنا کسی معجزہ سے کم نہیں ہو گا۔اس دوران حکمرانوں میں سے کسی نے اگر ملک کو نجی بجلی گھروں کی دلدل سے نکالنے کی کوشش کی تو سابقہ عمران خان کی حکومت تھی کہ جس میں پن بجلی پیدا کرنے کے لیے مسلسل ڈیمز پر کام ہو رہا تھا تا کہ کسی طرح فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے والی ان کمپنیوں سے جان چھڑائی جا سکے کہ جن کا گردشی قرضہ ہر دوسرے روز بڑھ رہا ہے کہ معاہدوں میں قیمت مقامی کرنسی کی بجائے امریکی ڈالر رکھی گئی ہے۔جیسے جیسے مقامی سطح پر ڈالر مہنگا ہوتاہے،ان کمپنیوں کے وارے نیارے ہوتے جارہے ہیں علاوہ ازیں ایسی ایسی شرائط ان کمپنیوں نے طے کر رکھی ہیں کہ ریاست پاکستان کے حکمران ذاتی گھروں یا کاروبارکے لیے کسی بھی صورت ایسی شرائط کو تسلیم نہ کرتے لیکن یہاں چونکہ معاملہ ریاست کا تھا،جسے اشرافیہ کے ہر شخص نے لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ دنیا کے پانچ براعظموں میں کاروباری سلطنت قائم کرنے والے ،درپردہ ان نجی بجلی گھروں سے مستفید ہونے والوں میں بذات خود شامل ہیںاور نہ صرف خود بلکہ پچھلے دنوں آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران یہ خوفناک انکشاف بھی ہوا کہ آئی ایم ایف کا ایک ذیلی ادارہ بھی ان بجلی گھروں میں شیئر ہولڈرہے اور آئی ایم ایف کا یہ تقاضہ بھی تھا کہ ملنے والی رقم سے ان بجلی گھروں کی ادائیگیاں بھی کی جائیں ۔
عمران خان اپنے دور اقتدار میں مسلسل ان کو مافیا کہتا رہا اور اس کے خلاف لڑنے کا عزم بھی ظاہر کرتا رہا لیکن چار بڑے مافیاز کے خلاف سکینڈلز کی تحقیقات کے باوجود کسی ایک کو بھی سزا نہ دلوا سکا۔اپنے انٹرویوز میں عمران خان نے البتہ یہ ضرور کہا کہ وہ وقت آنے پر عوام کو بتائیں گے کہ ان مافیا سرغنوں پر کارروائی کس کے کہنے پر نہیں کی گئی۔یہ بظاہر تو ایک دباؤ کی تکنیک لگتی ہے لیکن عمران خان سے بعید نہیں کہ کسی وقت وہ اس راز کو افشاء کر دے کہ اس کے ہاتھ کس نے اور کیوں باندھے تھے،بعینہ ویسے ہی جس طرح علیم خان کے متعلق عمران خان نے واضح طور پر کہہ دیا کہ اسے وزیراعلیٰ بنانے کے لیے ان پر دباؤ تھا۔
ویسے حیرت ہوتی ہے کہ شہباز شریف حکومت نے نو ٹریلین کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے،جس کا بیالیس فیصد حصہ،بیرونی قرضوں کے سود کی مد میں چلا جائے گا،قریبا پچیس فیصد دفاعی معاملات میں،باقی بجٹ سے ملک کو چلایا جانا ہے،واضح ہے کہ عوامی بہبود کے لیے کتنی رقم بچے گی اور اس رقم سے بھی کتنے فیصد عوام پر لگے گی؟افسوس کے علاوہ ہم پاکستانی کیا کرسکتے ہیں کہ پاکستان جیسے قدرتی معدنیات سے مالا مال ملک کے ساتھ یہ سلوک کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے منتخب نمائندے؍اشرافیہ ہی ہیں،جن کی ہوس نے اس ملک کو اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ بنگلہ دیش بھی معاشی طور پر آج ہم سے کہیں آگے ہے۔یہاں بہت سے احباب فوج کو مورود الزام ٹھہرانے سے نہیں چوکتے کہ یہ سب کیا دھرا فوج کا ہے ،تسلیم کہ فوجی مداخلت کا قطعاً کوئی جواز نہیں لیکن کیا سارا الزام فوج پر دھرنے سے ،موجودہ حالات بدل جائیں گے؟
کیا ہم حقائق سے چشم پوشی کر کے،خود بھی مجرمانہ غفلت کا شکار نہیں ہوں گے کہ مشرف دور تک پاکستان کی معیشت اس قدر دگرگوں نہیں رہی تھی اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ 2008کے بعد آنے والی حکومتوں نے ریاست پاکستان کو حلوائی کی دکان سمجھتے ہوئے ، نانا جی کی فاتحہ نہیں پڑھوائی؟جتنے قرضے اس دور میں عالمی مالیاتی اداروں سے لیے گئے،کیا اس میں بھی فوج کا عمل دخل تھا؟کیا اسی برتے پر سویلین بالا دستی کی خواہش ہے کہ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ رہے اور جیسے دل کرے،اس ملک کو عالمی اداروں کے سامنے گروی رکھ دیا جائے؟کیا سویلین حکمرانوں کو علم نہیں تھا کہ پاکستان کی ایٹمی حیثیت اغیار کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے اور وہ کسی بھی حیلے بہانے ، پاکستان کو اس سے محروم کرنا چاہتے ہیں؟اس پس منظر میں اتنا قرضہ اٹھا کر اسے غیر پیداواری منصوبوں میں جھونک دینا، کہاں کی عقلمندی تھی؟خسارے کے منصوبے بنا کر، قومی خزانے کو دباؤ میں لانے کی کیا تک تھی،کیا اس کا مقصد اپنے ہاتھ کاٹ کر خود ان عالمی اداروں کے حوالے کرنےکےمترادف نہیں؟کیاہمارے حکمرانوں نے اکنامک ہٹ مین نہیں پڑھی یا انہیں کسی نے پڑھ کر بھی نہیں بتائی یا ان کو اس پر عملدرآمد کرنے کی ہدایات ملی تھی؟عمران خان کے دور حکومت پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے اکہتر سالوں میں لیے جانے والے قرض کا 80فیصد قرض لیا ہے لیکن اس کا مصرف سامنے نہیں ہے؟حیرت ہے کہ جس قدر قرضوں کا بوجھ اس ملک پر لاد دیا گیا ہے اور جس طرح موجودہ بجٹ میں دکھایا گیا ہے کہ بجٹ کا 42فیصد صرف قرضوں کے سود کی مد میں ادا کیا جانا ہے،کسی ذی شعور کے لیے یہ سمجھنا انتہائی آسان ہے کہ ہماری حالت اس وقت یہ ہو چکی ہے کہ ہمیں قرضوں کا سود چکانے کے لیے بھی سود پر قرض اٹھانا پڑتا ہے۔
حکمران ؍اشرافیہ اگر اس ملک کے ساتھ مخلص ہوتی تو آج ریاست کا یہ حال نہ ہوتا،ہمارے معاشی ماہرین کو سری لنکاکی مثالیں نہ دینا پڑتی،ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے ملکی دماغ بروئے کار آ چکے ہوتے لیکن ذاتی مفادات کے اسیروں، اقتدارکے پجاریوں اور پاکستان کو چراگاہ سمجھنے والوں سے اس کی توقع کرنا ہی عبث ہے کہ وہ پاکستانی معیشت کو ٹھیک کردیں گے۔قانون سازی کرتے ہوئے جب قوانین میں تبدیلی صرف ذاتی جرائم کو تحفظ دینے کے لیے کی جائے،جس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ نیب قوانین میں ترامیم کا اطلاق 1985 سے ہوگا،اہل خانہ و عزیز و اقربا کے اثاثے سرکاری عہدہ رکھنے والی شخصیت کے تصور نہیں ہوں گے،تو ریاست کی معیشت سنگین بحرانوں کا شکار ہی ہو گی۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button