ColumnImran Riaz

مستقبل کی سیاست کے فیصلے 17 جولائی کو .. عمران ریاض

عمران ریاض
سچ تو یہی ہے کہ نواز شریف کسی صورت بھی عمران خان کی حکومت گرا کر موجودہ حالات میں اپنی پارٹی کی حکومت کو تیارنہیں تھے، آج ملک جس صورتحال سے دوچار ہے، اس کا بھی انہیںپوری طرح ادراک تھا، پھر انہیں موت دکھاکربخارپر راضی کیا گیا، وہ کیا موت تھی کہ جس کے ڈر سے انہوں نے بخار قبول کرلیا۔ دراصل وہ موت تھی عمران خان کے ہاتھوں ایک خاص جنرل کی بطور آرمی چیف تقرری کا واضع مطلب کہ آئندہ کم از کم مزید چھ سال عمران خان کی حکومت اور اپوزیشن کا چھ سال کے لیے جیلوں کے چکر کاٹنا یہ تھی،
وہ موت  جس نے نواز شریف کو نون لیگ اور دیگر کو ساتھ ملا کر حکومت میں آنے والے آپشن کو قبول کرایا،یہ آپشن قبول کرتے وقت نواز شریف کا پلان تھا کہ چند بہت اہم قانونی ترامیم کرکے حکومت اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کردے گی لیکن نواز شریف کے اس منصوبے کو جہاں ایک طرف زرداری صاحب سمیت دیگر اتحادیوں نے ماننے سے انکار کر دیا تو دوسری طرف اندھے کے پائوں تلے بٹیرہ آنے کی مثال کی طرح عمران نے جو خط لہرا کر امریکی سازش والا بیانیہ بنایا وہ عوام میں بے حد مقبول ہوگیا جس کے غیر مقبول ہونے کا انتظار کیا جانا ضروری تھا اور اس کے لیے کچھ وقت درکار تھا دریں اثنا شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کو اس پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ شروع میں ہماری حکومت ملکی معیشت کی بحالی کے لیے کچھ سخت اور غیر مقبول اقدامات اٹھائے گی لیکن عرصے بعد جیسے ہی ملکی معیشت سنبھلے گی ہم عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف دیکر دوبارہ مقبولیت بحال کر لیں گے لیکن اس حکومت حالت ایک دم اس وقت پتلی ہوگئی جب اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے دبائو میں آگئی اور حکومت کو جلد نئے انتخابات کا عندیہ دے دیا اس سے گویا شہباز حکومت کے ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے،
بہرحال اس صورتحال میں حکومت نے اسٹیبلشمنٹ پر واضع کر دیا ہے کہ اگر ہمیں اپنی بقایا مدت پوری کرنے کی گارنٹی نہیں دی جاتی تب تک وہ آئی ایم ایف کے سخت مطالبات مانتے ہوئے پٹرول،بجلی اور گیس کی قیمتیں نہیں بڑھا سکتے پھر آپ جانیں اور نگران سیٹ اپ جبکہ آئی ایم ایف کسی بھی نگران سیٹ اپ سے مذاکرات کے لیے تیار نہیں تھا۔یہ صورتحال دیکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ نے شہباز حکومت کو کام جاری رکھنے کا عندیہ دیا اور انہیں کچھ یقین دہانیاں کرا دیں لیکن ان یقین دہانیوں میں مدت پوری کرنے کوئی ٹھوس گارنٹی نہیں دی گئی اور اب صورتحال یہ ہے کہ جو اقدامات شہباز حکومت نے اٹھائے ان سے آئی ایم ایف تو پوری طرح مطمئن نہیں اور ڈو مور کی باتیں کر رہا ہے جبکہ نون لیگ کی اتحادی حکومت عوام میں بہت تیزی سے غیر مقبول بھی ہو گئی ہے،
حکومت ابھی تک اپنی مدت کی گارنٹی بارے گومگوں کا شکار ہے تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی طرف سے بڑھائے جانے والے پریشر کو برداشت نہیں کر پارہی جس کی وجہ صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ پنجاب میں ابھی تک حمزہ شہبازحکومت اپنی رٹ قائم نہیں کرپارہی یہاں تک کہ اس سے بجٹ سیشن ہی نہیں چل پا رہا ایک چودھری پرویز الٰہی ہی ان سے نہیں سنبھالے جارہے جنہوں نے پنجاب میں ایک نیا آئینی بحران پیدا کردیا ہے،  اب اس ساری صورتحال میں جو فیصلہ کن مرحلہ ہے کہ گویا اس حکومت نے اپنی مدت پوری کرنی ہے یا نئے انتخابات کی طرف جانا ہے، اس کا فیصلہ17 جولائی کو ہونے میں ضمنی انتخابات کے نتائج پرہے اگر تو نون لیگ 20 میں سے چودہ پندرہ نشستیں جیت گئی تو سمجھیں تمام معاملات نون لیگ کے حق میں جانا شروع ہو جائیں گے اور اگر نون لیگ کی بجائے تحریک انصاف اپنی ہی جیتی ہوئی نشستوں میں سے 14 یا پندرہ واپس لینے میں کامیاب ہوگئی تو آئندہ کے معاملات عمران خان کی ڈکٹیشن کے مطابق چلیں گے کیونکہ ہر کوئی اس وقت عوام کے موڈ کی طرف دیکھ رہا ہے اور یہ ضمنی انتخابات عوام کے اصل موڈ کی عکاسی کریں گے۔ تو بس زرا صبر سے 17 جولائی کا انتظار کریں تمام فیصلے اسی دن کے بعد ہونے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button