Editorial

ریاست یا سیاست

وطن عزیز اِن دنوں جس سنگین معاشی بحران سے گذر رہا ہے، اِس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ قومی خزانہ خالی اور ڈیفالٹ کے خطرات منڈلارہے ہیں۔ نظام مملکت چلانے کے لیے آئی ایم ایف کی ناقابل قبول شرائط تسلیم کرکے نسل در نسل مہنگائی میں پسے عوام پر مزید معاشی بوجھ بڑھایا جارہا ہے اور عنقریب مزید بڑھانے کی نوید سنائی جارہی ہے۔ سرکاری طور پر بچت مہم کا آغاز ہوچکا ہے اور ایک سنیئر سیاست دان نے قوم کو چائے کم پینے کا مشورہ دیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں دعوے دار ہیں کہ اُنہوں نے اِس بار بجٹ میں عام پاکستانیوں کی بجائے اشرافیہ پر مالی بوجھ ڈالا ہے لیکن پٹرول، گیس اور بجلی کے نرخ بڑھنے سے سب سے زیادہ سفید پوش اور غریب پاکستانی متاثر ہوئے ہیں، کیونکہ اِنہیں سبسڈی کی شکل میں ایک چھتری میسر تھی جو آئی ایم ایف کی خواہش پر بتدریج کھسکائی جارہی ہے،
یوں مہنگائی اور کساد بازاری کی دھوپ اب براہ راست اُن پاکستانیوں پر پڑے گی جو پہلے ہی نسل در نسل مہنگائی سے ’’جھلسے‘‘ ہوئے ہیں۔ عام پاکستانی ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہے کہ بجٹ میں اُس کے ساتھ ہوا کیا ہے اور اِسے کیا ریلیف دیاگیا ہے، اِس کے برعکس عام استعمال کی اشیا بلاتاخیر مہنگی کردی گئی ہیں کہ اِس کا کریڈٹ اُن کمپنیوں اور مافیاز کو جانا چاہیے جو بجلی، گیس اور ایندھن مہنگے ہونے کے ہمہ وقت منتظر رہتے ہیں اور جیسے ہی متذکرہ مصنوعات کی قیمتوں میں سرکاری سطح پر اضافہ ہوتا ہے ترکاری سے لیکر کفن تک ہر چیز مہنگی کردی جاتی ہے،
عوام نے ابھی پٹرول کی قیمت میں ساٹھ روپے کا اضافہ قبول نہیں کیا اور ابھی تک اِس کو معاشی بوجھ قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کے بھاری بھرکم بل لوگوں کی دہلیز تک پہنچ گئے ہیں، فی الحال گیس کی کھپت کم ہے لیکن کوئی شبہ نہیں کہ گیس کے بل بھی جان لیوا آئیں گے۔ عام طور پر کہاجاتا ہے کہ انسان گھر میں محفوظ اور گھر سے باہر غیر محفوظ ہوتا ہے لیکن مہنگائی کی وجہ سے کوئی بھی محفوظ نہیں خوا وہ گھر کے اندر ہو یا باہر، ہر جگہ عام پاکستانی آہ و بکا کرتا نظر آتا ہے، ظاہر ہے کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھی ہیں جن کی ملک میں قلیل تعداد ہے لیکن جو نجی شعبے سے منسلک ہیں اُن کا کیا؟ دیہاڑی دار، جن کی روزی دیہاڑی لگنے پر منحصر ہوتی ہے، اُن کے لیے بجٹ میں کیا؟ گذارش کا مقصد اِس صورتحال کو اربابِ اختیار کے سامنے رکھنا ہے جس صورتحال کا عام اور اکثریتی پاکستانیوں کو سامنا ہے، جو نہ تو وزیر اور مشیر اور نہ ہی سرکاری ملازم ہیں جن کو سرکار سے مراعات بن مانگے مل جائیں، عام پاکستانی تو دوسرے پاکستانی کے سامنے محتاج ہے کیونکہ ایک آجر اور دوسرا اجیر ہے،
اِن دونوں کے درمیان ریاست یا قوانین کہیں لاگو یا موثر نظر نہیں آتے، ایک ٹھیلے والے کو بجٹ سے کیا ملتا ہے، اِس کا معیار زندگی کیا ہے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اورمراعات بڑھانے کا اِسے کیا فائدہ ہوگا اس کا جواب یقیناً کسی کے پاس نہیں۔ عام پاکستانی کے معاشی حالات کو دیکھ کر بھی قومی بجٹ بنایا جانا چاہیے، جس میں ایک خاص اور سرفہرست حصہ اُن پاکستانیوں کے لیے مختص ہو جن کو سرکار دیتی کچھ نہیں لیکن مہنگائی اور یوٹیلٹی کی مد میں وصول ضرور کرتی ہے۔ نجی شعبہ پہلے ہی ملکی نامساعد معاشی حالات کی وجہ سے کہیں بھی سنبھل نہیں رہا، قلیل عرصے کے بعد نئی پالیسی تجارتی شعبے کو سنبھلنے نہیں دیتی، مہنگے ترین ایندھن سے ہم برآمدات بڑھانے کے سہانے خواب دیکھتے ہیں لیکن موجودہ معاشی حالات اور ڈیفالٹ کے خطرے کے قریب پہنچ کر ہماری آنکھیں کھل رہی ہیں۔
ارباب ِ اختیار کو سمجھنا چاہیے کہ اِس وقت ملک ڈیفالٹ کے قریب ہے لیکن عام پاکستانی تو نسل در نسل ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ڈیفالٹ کرچکا ہے اور اس کا رہن سہن اور جینا مرنا سبھی کچھ سبسڈی یا اُدھار کی بنیاد پر چل رہا ہے، لوگوں کے معاشی حالات ایسے ہوچکے کہ مرنے والے کے غم سے زیادہ تجہیز و تکفین کی فکر لاحق ہوتی ہے ۔ عام پاکستانی واقعی بہت مشکل زندگی گزار رہے ہیں اور بظاہراُن کی آزمائش مستقبل قریب میں دور ہوتی نظر نہیں آرہی کیونکہ جس خزانے سے اُس کا معیار زندگی بدلا جانا تھا وہ خالی پڑا ہے اِس کے برعکس قرضوں کے پہاڑ چڑھے ہوئے ہیں جنہیں اُتارنے کے لیے مزید قرض کی ضرورت ہوگی۔ اِس وقت صرف اور صرف معاشی مسئلہ ملک کا بنیادی مسئلہ ہے، اگرچہ ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے لیکن اب پانی سر سے گذر چکا ہے اور سری لنکا کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ ایسے میں قومی قیادت کو متفق و متحد ہوکر ماضی کی تلخیوں کو بھلاکر ہم قدم نظر آنا چاہیے لیکن پچھلے چند ماہ سے جو کچھ ہوتا نظر آرہا ہے وہ عام پاکستانی کے لیے انتہائی افسوسناک اور مایوس کن ہے۔ پوری دنیا میں معاشی جنگ جاری ہے، کمپنیاں دوسرے ملکوں کی کمپنیوں کے مدمقابل ہیں
لیکن ہمارے ہاں آج بھی مخالفت برائے مخالفت کی سیاست عروج پر ہے، کوئی بھی دوسرے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں، موجودہ حکومت ایک طرف معاشی بحران میں اُلجھی ہوئی تو دوسری طرف سیاسی بحران ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، عامۃ الناس یہ سب دیکھ کر سوچنے پر مجبور ہیں کیا کہ اِس بحرانی کیفیت میں بھی سیاست دانوں کے درمیان ایسے دائو پیچ کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے اور کیاایک دوسرے کو تسلیم نہ کرنے کی روش سے معاشی بحران اور ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل جائے گا؟ پچھلے چند ماہ سے وطن عزیز جس عدم استحکام اور بے یقینی کا شکار ہے، موجودہ معاشی بحران میں اِس کی قطعی گنجائش نہیں تھی، سیاسی رواداری کا مظاہرہ کرکے ملک کو معاشی بحرانوں سے باہر نکالا جاتا اور قوم کے سامنے سرخرو ہوتے لیکن بدنصیبی مرکز کے بعد اب صوبوں کے اندر بھی سیاسی قیادت ایک دوسرے کے مدمقابل نظر آتی ہے حالانکہ اِ س وقت ساری توجہ معاشی بحران اور عام پاکستانی کی معاشی مشکلات دور کرنے پر مرکوز کی جانی چاہیے تھی۔ وہ وقت کب آئے گا جب ہماری ترجیح ہمارا ملک اور ہماری قوم ہوگی اور ہم قومی مفاد میں متحد نظر آئیں گے، یہ وقت سیاسی کج بحثی کا نہیں بلکہ آگے بڑھ کر معاملات اور سمت کے درست تعین کا ہے، وگرنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button