Editorial

مزید سخت معاشی فیصلوں کا عندیہ

وفاقی وزیر خزانہ و محصولات مفتاح اسماعیل نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں آئندہ پندرہ روز میں مزید سخت معاشی فیصلوں کا عندیہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ حالیہ بجٹ پر آئی ایم ایف خوش نہیں، اس لیے دو ہفتوں کے دوران مزید سخت فیصلے کرنا پڑیں گے، اِس کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ ملک کو انتظا می طور پر ٹھیک کرنا ہو گا، وگرنہ ملک کی معیشت نہیں چلے گی، بین الاقوامی اور ملکی حالات کے تناظر میں مشکل حالات میں نئے مالی سال کے لیے متوازن بجٹ پیش کیا، جس میں عام آدمی کو ریلیف دینے پر توجہ مرکوز کی گئی،پہلا ہدف مالیاتی استحکام اور پاکستان کو سری لنکا بننےسے روکنا ہے جبکہ دوسرا غریب عوام کو ریلیف دینا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ منفی پراپیگنڈا کرنے والوں کی سیاست خودبخود دم توڑ رہی ہے،لوڈشیڈنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے وفاقی بجٹ میں سولر پینلز پر سیلز ٹیکس ختم کر دیاہے،
توانائی بحران کنٹرول کرنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں،عوام کی مشکلات کا احساس ہے ۔نیک نیتی سے عوامی مسائل حل کرنے کے لئے کام، کام اور صرف کام کر رہے ہیں۔ ہمیشہ بجٹ کے بعد پری بجٹ پریس کانفرنس میں ایسا ردوبدل سامنے لایاجاتا ہے جو بجٹ پیش ہونے کے بعد عوامی ردعمل اور ماہرین کی آرا خصوصاً تنقید کا حاصل ہوتا ہے، لیکن وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کا جائزہ لیں تو انہوںنے واضح الفاظ میں بتادیا ہے کہ پندرہ دن بعد یا اِس سے پہلے ایک اور ضمنی بجٹ کے لیے تیار رہا جائے چونکہ آئی ایم ایف خوش نہیں ہے اِس لیے وہ ضمنی بجٹ اُن کی خوشیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا جائے گا یقیناً اِس کا نتیجہ توقع کے عین مطابق عام پاکستانی کے مفاد کے خلاف ہوگا یعنی مہنگائی بڑھنے کی صورت میں عام پاکستانی پر معاشی بوجھ بڑھے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف اگرچہ وفاقی بجٹ کو ملک کو سنگین معاشی بحرانوں سے نکالنے کا نسخہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بجٹ میں صاحب استطاعت سے قربانی مانگی گئی اور کمزور طبقات کو آسانی دی گئی ہے لیکن بتایا جانا چاہیے کہ کمزور طبقات کو کس مد میں آسانی دی گئی ہے، اگراِس آسانی سے مراد دو ہزار روپے کی مالی امداد ہے، جو ایس ایم ایس کے نتیجے میں ملے گی تو یہ آسانی موجودہ معاشی صورتحال میں ناکافی ہے، اگر حکومت کسی اور مد میں آسانی دینے کا ارادہ رکھتی ہے تو وہ فی البدیہ بتادینا چاہیے تاکہ لوگوں کو ریلیف ملنے کی توقع ہو اور جو موجودہ بے چینی عوام میںپائی جارہی ہے، اس کا کسی حد تک خاتمہ ہو، پٹرولیم مصنوعات، بجلی و گیس کی قیمتوںمیں نمایاں اور تاریخ ساز اضافے سے عام پاکستانی کی کمر ٹوٹ چکی ہے،
عام پاکستانی سے مراد اُن پاکستانیوں کو سمجھاجائے جو نہ تو سرکاری ملازم ہیں، نہ ہی انہیں سرکاری رہائش گاہیں اور سہولیات میسر ہیں۔ عام پاکستانیوں کے معاشی مسائل پر جب تک متوجہ نہیں ہوا جائے گاتب تک عوام میں موجود بے چینی کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ حالیہ بجٹ پر آئی ایم ایف خوش نہیں ہے لیکن تاریخ دیکھی جائے تو آئی ایم ایف کی خوشی صرف اُسی وقت دیدنی ہوتی ہے جب عوام اپنی حکومتوں کے خلاف سراپا احتجاج ہوکر باہر نکل آتے ہیں اِس لیے ان باتوں کو تقویت ملتی ہے کہ آئی ایم ایف کے ذریعے بڑی طاقتیں کمزور معیشت والے ممالک کو مزید کمزور تر کرتے ہیں تاکہ ان ملکوں میں عدم استحکام اور بے چینی کافائدہ اٹھایا جاسکے۔
سری لنکا کی موجودہ صورتحال ہمارے سامنے ہے، وہاں بھی غلط معاشی فیصلے کیے گئے اور آج اُن غلطیوں کا نتیجہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے چکر میں موجودہ حکومت مزید ایسے فیصلوں سے گریز کرے جن کا بوجھ براہ راست اُن پاکستانیوں پر منتقل ہوگا جو پہلے ہی معاشی بحران سے دوچار ہیں۔ جس طرح درد دور کرنے والی گولی ہر مرض کا علاج نہیں ہوتی بالکل اسی طرح حکومت کی طرف سے دو ہزار روپے کا ریلیف ہر پاکستانی کی معاشی مشکل کا حل نہیں۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں عوام کی بھی کمر ٹوٹ چکی ہے اور انڈسٹری کی بھی۔ پہلے چھوٹی انڈسٹریز مہنگی بجلی سے بچنے کے لیے جنریٹرز استعمال کرلیتے تھے اب پٹرولیم مصنوعات اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ جنریٹرز استعمال کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، یعنی چھوٹی انڈسٹریز کو بند گلی میں دھکیل دیا گیا ہے،
ایسا ہی حال گھریلو صارفین کا ہے جو حکومتی سطح پر مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے حالیہ اضافے کے نتیجے میں پریشان ہیں، عام مارکیٹ میں سبزی، پھل، دالیں، گھی حیران کن قیمتوں پر مہنگے فروخت ہورہے ہیں، لیکن لوگوں کا ذریعہ اور آمدن وہیں کی وہیں ہے۔ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہوچکا ہے، سکولز فیسیں بڑھانے کا عندیہ دے رہے ہیں، نان روٹی، بیکری مصنوعات ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے اور لوگ صبح سے شام تک پریشانی کا سامنا کررہے ہیں، فی الحال تو یہی سمجھا جارہا ہے کہ موجودہ ریلیف کا ساماں کرے گی لیکن آئی ایم ایف کی خوشنودی کے لیے متوقع ضمنی بجٹ کے عندیہ کے بعد سمجھا جاسکتا ہے کہ حالات کیسے ہوں گے ۔
وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف بھی ایسے سخت فیصلوں کے سیاست پر منفی اثرات کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں جس سے بظاہر یہی سمجھ آتی ہے کہ عوام آزمائشیں میں مبتلا رہیں گے۔ ہم بات کو سمیٹتے ہوئے موجودہ حکومت سے یہی عرض کرنا چاہیں گے کہ آئی ایم ایف کی ناراضگی سے بچنا اپنی جگہ عامۃ الناس کی قابل رحم معاشی حالت بھی مدنظر رکھی جائے اور ایسے فیصلوں سے گریز کیاجائے جن سے عام پاکستانی بھی پریشان ہو اور حکومت کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچے۔ یہ بھی مدنظر رکھا جائے جن ملکوں نے آئی ایم ایف کی تمام خواہشات کا احترام کیا اُن ملکوں کے عوام کا ردعمل اور معاشی حالات کیسے تھے اور پھر کیا ہوا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button