ColumnImtiaz Ahmad Shad

 قومی ایجنڈا تشکیل دینے کی ضرورت .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں،پاکستان 1947ء میں غریب ملک تھا مگر اس کی معاشی حالت چین، بھارت اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک سے بہتر تھی۔ شاید اس وقت سیاسی قیادت مثالی تھی اورپہلی وفاقی کابینہ معیاری تھی۔ابتدائی سالوں میں بجٹ خسارے کا نہیں تھا۔ ایک موقع ایسا بھی آیاکہ دنیا کے کئی ممالک پاکستان کے معاشی منصوبے اپناتے رہے۔ پھر وطن عزیز سے جیسے برکت ہی اٹھ گئی، آج کا پاکستان دنیا کا پسماندہ اور غریب ملک ہے۔ ایک فیصد پاکستانی نصف سے زائد قومی دولت پر قابض اور عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں ، حالات جیسے بھی ہوں ان کی دولت بڑھتی رہتی ہے جبکہ 99 فیصد شہریوں کی زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ اجیرن ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان کی روزبروز بڑھتی ہوئی آبادی بھی غربت کا بڑا سبب ہے۔اب تو یہ واضح ہو گیا کہ وسائل کم ہیں اور آبادی زیادہ ہے جس کی وجہ سے غربت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ افراط زر بھی غربت کا سبب بن رہا ہے۔ ریاست کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔ ہر دفعہ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے  نوٹ چھاپے جاتے ہیں، بیرونی قرضے لیے جاتے ہیں ،

ان قرضوں کو اللوں تللوں کی نذرکیا جاتا ہے، جن سے پیداوار نہیں ہوتی البتہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے جس سے قومی خزانے پر بوجھ پڑتا ہے اور قومی وسائل شہریوں پر خرچ ہونے کے بجائے اغیار کی جیب میں چلے جاتے ہیں،جس کا تمام بوجھ اس عوام پر پڑتا ہے جو پہلے ہی ایک مدت سے سر اٹھانے کے قابل نہیں رہی۔ذمہ دار کوئی بھی ہومگر یہ حقیقت ہے کہ ہوشربا مہنگائی اوربے روزگاری نے اکثریت آبادی کو دو وقت کی روٹی سے عاجز کر دیا ہے۔ زراعت اور صنعت کو مستحکم کیا جاتا تو روزگار کے مواقع پیدا ہوتے اور شہری غربت کی لکیر سے نیچے نہ جاتے۔ دوسری طرف ملک میںجاری سیاسی کشمکش اور بدامنی کی وجہ سے نہ تو بیرونی سرمایہ کاری ہورہی ہے بلکہ مقامی سرمایہ کار دوسرے ملکوں کا رخ کر رہے ہیں۔پاکستان میں غیر منصفانہ سیاسی اور معاشی نظام بھی عدم مساوات اور غربت کا سبب بنا ہوا ہے۔ اگر قومی وسائل کی تقسیم منصفانہ ہوتی اور عوام کا استحصال نہ کیا جاتا تو پاکستان کے شہری بھوک اور افلاس کا شکار نہ ہوتے۔
جنگوں نے بھی پاکستان کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے بعد پاکستان کی ترقی متاثر ہوئی اور روز بروزپاکستان کی معیشت زوال پذیر ہوتی چلی گئی۔ اسی طرح افغان جنگ، کارگل کے تنازعے اور دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ نے بھی پاکستان کو کمزور کیا ، جس کی وجہ سے غربت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے حکمران اگر حکمت و دانش کا مظاہرہ کرتے اور معیشت پر پوری توجہ دیتے تو آج پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی کہ آٹا خریدنے کے لیے وزیر اعظم کو اپنے کپڑے بیچنے کا اعلان کرنا پڑتا۔ اب بھی وقت ہے کہ آپس کی ضد اور انا کو ختم کیا جائے اور موجودذرائع سے اپنے مسائل حل کرنے کے لیے معاشی ترقی پر پوری توجہ دی جائے۔
یہ بات کون نہیں جانتا کہ کرپشن پاکستان کا سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستان کے قومی وسائل کو دہائیوں سے بے دردی کے ساتھ لوٹا جارہا ہے۔ لوٹی ہوئی قومی دولت بیرونی ملکوں میں منتقل ہورہی ہے گویا پاکستان کے جسم کا خون نچوڑا جارہا ہے۔ لٹیرے قومی دولت لوٹ کر شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کردیتے ہیں اور لوگوں کی غربت کا سبب بنتے ہیں اگر فقط کرپشن پر ہی قابو پالیا جائے تو پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتا ہے اور غربت کی شرح کم ہوسکتی ہے۔ یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ گلوبل ازم اور نیو ورلڈ آرڈر نے پس ماندہ ملکوں کی ترقی کو متاثر کیا ہے۔ عالمی مالیاتی نظام جس کی بنیاد استحصال پر رکھی گئی ہے، پس ماندہ ملکوں کو قرضوں کی لعنت میںجکڑ لیتا ہے۔عالمی مالیاتی ادارے ملک کی معیشت کو سامراجی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں اورملک میں غربت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اگر معیشت آزاد ہو گی تو قومی تقاضوں کا دفاع کیا جاسکے گا۔دراصل بیڈگورنینس نے وہ اسباب پیدا کیے جن کی وجہ سے جہالت، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا۔ ریاستی ادارے انحطاط پذیر ہوگئے۔ پولیس اور انصاف کا نظام ناکارہ ہوگیا۔ پاکستان میں وہ سازگار ماحول ہی پیدا نہیں ہوسکا جو ترقی اور خوشحالی کے لیے  لازم تھا۔ قانون کی حکمرانی کا خواب ہی چکنا چور ہوگیا۔ پاکستان کی بیوروکریسی جس نے نظام حکومت چلانا تھا ابن الوقت، موقع پرست اور مفاد پرست ثابت ہوئی۔ قومی پالیسیاں پے درپے ناکام ہوتی رہیں۔ شہریوں کو ترقی کرنے کے مساوی مواقع نہ مل سکے۔
احتساب کا صاف شفاف نظام قائم نہ کیا جاسکا۔ لوگ انصاف کے لیے  ترستے رہے۔ بیڈ گورننس نے عوام کو مایوسی اور بددلی میں مبتلا کردیا اور ان میں ترقی کی آرزو اور تمنا ہی پیدا نہ ہوسکی۔پاکستان کے عوام کو غربت کی لکیر سے باہر لانے کے لیے  ہنگامی طور پر قومی ایجنڈا تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے صدق دل کے ساتھ قومی ایجنڈے پر اتفاق کرلیں اور نیک نیتی کے ساتھ اس ایجنڈے پر عمل کریں تو شاید اگلے دس سال کے اندرپاکستان کو غربت سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔ افسوس ہمیں ایک دوسرے کی کردار کشی سے ہی فرصت نہیں۔ جس ریاست میں اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے وہ ریاست مختلف بحرانوں کا شکار ہوجاتی ہے۔ پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز اگر اخلاقی اقدار کے دفاع اور تحفظ کا فیصلہ کرلیں تو پاکستان تبدیل ہوسکتا ہے۔ جس قوم کا انفرادی کردار افسوسناک رہا اس قوم کا اجتماعی کردار کبھی قابل رشک نہیں ہوسکتا۔ جو قومیں اخلاقیات سے عاری ہوجاتی ہیں وہ عالمی سطح پر عزت اور وقار کھو بیٹھتی ہیں۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں۔ کردار کی خامی کی وجہ سے ہم اپنے قومی وسائل سے پورا فائدہ نہیں اُٹھا سکے۔موجودہ حالات کے پیدا کرنے کے ہم خود ذمے دار ہیں اور ہم خود ہی اس صورتحال کو تبدیل کرسکتے ہیں بشرطیکہ ہم مصمم ارادہ کرلیں اور یقین محکم کے ساتھ جدوجہد کا آغاز کریں۔ بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ رب کائنات نے رزق کے وسائل سب انسانوں کے لیے  پیدا کیے تھے۔ افسوس ہم نے انسانوں کو وسائل رزق سے محروم کردیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button