Editorial

اقتصادی سروے ، چشم کشا حقائق

رواںمالی سال 22۔2021ء کا اقتصادی سروے جاری کر دیا گیاہے جس کے مطابق ملک میں بیروزگاری، مہنگائی اور قرضے بڑھے ہیں۔جی ڈی پی، زراعت، خدمات اور صنعتی شعبوں کے اہداف حاصل ہوئے۔ تجارتی خسارہ 45 ارب ڈالر رہا، سرکاری قرضے 44366 ارب، گردشی قرضے 2470 ارب روپے ہوگئے۔ زرمبادلہ ذخائر 10 ارب ڈالر سے کم ہوئے تاہم چین سے دو ارب 40؍ کروڑ ڈالرآنے سے اضافہ ہوجائے گا۔گندم اور کپاس کی پیداوار میں کمی تاہم چاول، گنے میں اضافہ ہوا، فی کس آمدنی 1798 ڈالر رہی، کرنٹ اکائونٹ خسارہ 13.8ارب ڈالر، مالیاتی خسارہ 2565 ارب روپے، معاشی ترقی کی شرح 5.97 فیصد رہی، ترسیلات زر میں 7.6 فیصد اضافہ ہوا ، غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کم ہوئی ہے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ملک کا اقتصادی سروے بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی کہانی بدقسمتی سے وہی ہے جو پہلے تھی۔ جب بھی اقتصادی شرح نمو بڑھتی ہے تو کرنٹ اکائونٹ خسارے میں بڑھ جاتےہیں اور عدم ادائیگیوں کا توازن پیدا ہو جاتا ہے، رواں سال 76ارب ڈالر کی درآمدا ت ہوئیں اور ان میں ریکارڈ 48فیصد اضافہ ہوا، برآمدات بھی بڑھی اور ان میں 28فیصد اضافہ ہوا، تجارتی خسارہ بڑھ کر 45ارب ڈالرپر پہنچ گیا ہے، برآمدات درآمدات کا 40فیصد رہ گئی ہیں اور 60فیصد درآمدات کوقرضوں پر انحصار کرناپڑتا ہے، اس سے ملک ادائیگیوں کے عدم توازن میں پھنس گیا ہے۔
سالانہ اقتصادی سروے اور وزیر خزانہ کا بیان یہی ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کی سمت سدھارنے کی ضرورت ہے اور بلاشبہ موجودہ حکومت اِس کے لیے سخت ترین فیصلے بھی کررہی ہے کیوں کہ ایسے فیصلوں کے بغیر معاشی چیلنجز سے نمٹنا ناممکن ہے اسی لیے پٹرولیم مصنوعات، تیل، بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے سبسڈی ختم کی جارہی ہے تاکہ ادائیگیوں کے عدم توازن کا پلڑا بدل سکے اگرچہ حالیہ فیصلوں کے بعد یقین کیا جاسکتا ہے کہ ہم ڈیفالٹ سے بچ گئے ہیں اور اب ہم نے وہ سمت اختیار کرلی ہے جس پر چل کر ہم معاشی استحکام حاصل کرسکتے ہیں ۔وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ماضی میں ہمیشہ سرمایہ داروں اور صاحب ثروت لوگوں کو مراعات دی جاتی رہیں تاکہ وہ صنعت و تجارت کو آگےبڑھائیں لیکن اس کے نتیجے میں درآمدات بڑھتی رہیں لیکن اب موجودہ حکومت غریب اور متوسط طبقے کو مراعات دے گی، اس کے نتیجے میں زراعت ترقی کرے گا اور مقامی اشیا کی کھپت بھی بڑھے گی۔
جہاں تک سرمایہ داروں اور صاحب ثروت پاکستانیوں کو مراعات دینے کا تعلق ہے تو ماضی کے حکمرانوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا صنعت و تجارت کا فروغ صرف اِسی طبقے کو خصوصی مراعات دینے سے ہی ممکن تھا یا عام پاکستانی کو کم شرح منافع اور سستے ایندھن کی فراہمی سے بھی صنعتوں کو فروغ دیاجاسکتا تھا، ایسے حیران کن نجانے اور کتنے فیصلے ہیں جن کے ذریعے اِس طبقے کو نوازا گیا اور اُس کے حصے کا بوجھ عام پاکستانی پر منتقل کیاگیا اسی لیے آج لوگ سبسڈی کے نام پر مدد کے منتظر رہتے ہیں اور کوئی بھی متوسط یا غریب درجے کا پاکستانی اِس کے بغیر گھریلو اخراجات پورے ہی نہیں کرسکتا۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ ملک میں غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری میں کمی ہوئی 2017-18میں یہ 2ارب ڈالر تھی جو کم ہو کر ایک ارب 15کروڑ ڈالر پر آچکی ہے اور ہر اعدادوشمار میں ملک پیچھے گیا، کیونکہ سابقہ حکومت نے غلط فیصلے کیے حالانکہ کرونا وائرس سے پاکستان کو دنیا بھر سے جو مراعات ملیں گزشتہ حکومت نے ان مراعات کا فائدہ بھی نہیں اٹھایا ۔اقتصادی سروے کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ رواں سال پاکستان قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں 3100ارب روپے خرچ کرے گا اور اگلے سال 3100ارب کی بجائے 3900 ارب روپے قرضوں پر سود کی ادائیگی میں جائیں گے، اِس سے بخوبی اندازہ کیاجاتا ہے کہ آئندہ سال مزید آٹھ سو ارب روپے صرف سود کی مد میں ملک سے باہر جائیں گے ۔
سنیئر سیاست دان اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ اس اقتصادی سروے کے آخری دو ماہ اُن کی حکومت کے حصے میں آتے ہیں ، اس سروے کے اہداف اور حاصل اعدادوشمار میں اصل موازنہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ملکی معیشت کو ری بیس کیا گیا اور اس سے نمبر زیادہ آئے ہیں اور اصل بیس پر اگر نمبر لیے جائیں تو وہ تصویر بدل جائے گی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق انکا کہنا تھا کہ حکومت کو پٹرول کی قیمتیں بڑھانے میں ایک ماہ تاخیرہی اس لیے ہوئی کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ لوگ اس اضافےسے بچ جائیں لیکن ہمیں مجبوراً کرنا پڑا اور ہم نے مشکل فیصلے کیے ہیں،
رواں مالی سال کی آخری سہ ماہی میں وزارت خزانہ نے ترقیاتی بجٹ کےلیے ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کیونکہ خزانہ بالکل خالی تھا تاہم اب ہم سی پیک کے منصوبوں کو بحال کر رہے ہیں کیوں کہ گزشتہ حکومت نے سی پیک کو نشانہ بنایا ، گوادر ، ایم ایل ون اور سی پیک کے اقتصادی زون پر کوئی کام نہیں کیاگیا ۔اقتصادی سروے کا جائزہ لینے سے بعض اور بھی چشم کشا حقائق سامنے آتے ہیں جیسے رواں برس کا ترقیاتی بجٹ 900ارب روپے مقرر کیا گیا لیکن اس کو کم کر کے پہلے 700 ارب روپے کیا گیا اور پھر 550ارب روپے کر دیاگیا۔ وزیر توانائی خرم دستگیر خان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت نے سب سے زیادہ تباہ توانائی کے شعبہ میں کی ،
دسمبر میں ایندھن کی خریداری بند کر دی گئی جس سے اپریل میں 6ہزار میگاواٹ کے منصوبے بند ہو گئے ، گردشی قرضہ 1100ارب روپے سے بڑھ کر 2476ارب روپے تک پہنچ گیا ، اور سنگین مالیاتی صورتحال پیدا ہو گئی ، لوڈ شیڈنگ کی وجہ تین پاور پلانٹس میں کو فعال کرنے میں تاخیر کی گئی لیکن موجودہ حکومت نے فیصلہ کیا ہےکہ آئندہ کو ئی پاور پلانٹ درآمدی ایندھن کے نہیں لگائے جائیں گے بلکہ مقامی ایندھن والے پلانٹس ہی لگائیں گے اور یقیناً موجودہ حکومت کا یہ انتہائی احسن اور درست فیصلہ ہے کہ آئندہ ایسے پلانٹس لگائے جائیں جو مقامی ایندھن سے توانائی پیدا کریں کیونکہ ماضی میں ایسے کئی پلانٹس لگائے گئے جن کے لیے کوئلے سمیت دوسرا ایندھن بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتا تھا اور اِس کے نتیجے میں یقیناً تیار بجلی کی لاگت میں بھی اضافہ ہوتا تھا۔
وفاقی حکومت نے گذشتہ روز سالانہ بجٹ کا اعلان کردیا ہے لیکن اِس سے پہلے اقتصادی سروے پر بات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اقتصادی سروے کسی بھی حکومت کے دعوئوں اور زمینی حقائق کی اصل منظر کشی کرتا ہے۔ یقیناً نئی حکومت کو بجٹ کی تیاری میں آئی ایم ایف کی شرائط کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا مگر اِس کے ساتھ ساتھ عوام کے معاشی حالات اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں حالیہ دنوں میں نمایاں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے عام پاکستانیوں کو ریلیف فراہم کرنے کا بھی بندوبست کیا جانا چاہیے تاکہ عام ، غریب پاکستانی مہنگائی سے زیادہ متاثر نہ ہو۔ موجودہ حکومت نے معاشی اصلاحات کا بیڑا اُٹھایا ہی تو شعبہ زراعت سمیت ایسے شعبوں کو بھی سامنے رکھا جائے جو ٹیکس کی ادائیگی نہیں کرتے اور اِس کے برعکس ان کی آمدن ناقابل بیان ہوتی ہے بلکہ بعض ماہرین تو دعویٰ کرتے ہیں کہ زرعی شعبہ سب سے بڑا مافیا ہے اور اس پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جاتایہی نہیں دعوے کے مطابق پچھلے سال زرعی مافیا کی جیب میں 1100ارب روپے زیادہ گئے ہیں،
ایک طرف عام کسان و ہاری بری طرح پس رہا ہے، فصلوں کی مناسب قیمت نہیں مل رہی، کھادوں کی بلیک مارکیٹنگ کرنے والے عام کسان کے حق پر ڈاکہ ڈالتے اور بڑے زمینداروں کو نوازتے ہیں اور بدلے میں نوازے جاتے ہیں لیکن عام کسان کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ اِس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ معاشی اصلاحات میں حکومت کو بغیر کسی کا دبائو قبول کیے ٹیکس محصولات کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے تاکہ ملکی معیشت کی حالت بہتر ہو اور ہم قرضوں سے نجات حاصل کرنے کی طرف چل سکیں۔ حکومت نے مشکل معاشی حالات میں اصلاحات کا بیڑا اٹھایا ہے تو ایسے تاریخ ساز اقدامات بغیر کسی دبائو کے کیے جانے چاہئیں جن کے نتیجے میں معیشت بحال اور پھر اِس کے اثرات سے عام پاکستانی بھی خوشحال ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button