ColumnNasir Naqvi

وفادار ہم ہی ہیں؟ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

ملک و قوم کے وفادار ، محب وطن اور صادق و امین سابق وزیراعظم عمران خاں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں یہ بات یاد کرانے کی کوشش کی تھی کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے انداز نہ بدلے تو ان کے غلط فیصلوں سے نہ صرف قومی اداروں کو نقصان پہنچے گا بلکہ فوج اور ملک کے تین حصّے بھی ہو جائیں گے لیکن اس بیان پر انہیں زبردست تنقید کا نشانہ بننا پڑا کیونکہ انہوں نے برملا کہہ دیا کہ ’’ملک کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے‘‘۔ بھارت میں عمران خان کے اس بیان پر بڑا جشن منایا گیا۔ بی جے پی اور ان کے اتحادیوں نے مودی جی کی کامیابی کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ پراپیگنڈہ شروع کر دیا کہ پاکستان کے لیے بھارتی حکومتی پالیسی کے نتائج سامنے آ گئے کہ سابق وزیراعظم نے تسلیم کر لیا کہ پاکستان پھر ٹکڑے ٹکڑے ہونے والا ہے۔ ایسے میں آزاد بلوچستان وجود میں آ جائے گا۔ عمران مخالفین نے اس سوچ کو غداری سے جوڑتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ابھی ایک نیازی کا زخم بھرا نہیں تھا کہ دوسرا نیازی پھر ملک ٹوٹنے کی نشاندہی کر رہا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی چند ہفتے پہلے عمران خان، شہبازشریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کو غدار کہہ رہے تھے۔ وقت اس قدر جلدی بدل جائے گا،‘ کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ اب غدار کہلانے والے وفادار اور ذمہ دار بن کر حکومت میں آ چکے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی اکثریت ثابت کر کے عمرانی حکومت کو چلتا کیا لیکن عمران خان کا دعویٰ ہے کہ چور، ڈاکو اور لٹیرے میرے خلاف غداری کا مقدمہ بنا کر مجھے راستے سے ہٹانے کی فکر میں ہیں۔ وزیرداخلہ کہتے ہیں کہ میری سکیورٹی ہی مجھے گرفتار کرے گی تو سنو رانا ثناء اللہ جیل چھوٹی چیز ہے میں تو ملک کے لیے جان کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔ عمران خان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ مہنگائی میری حکومت کے مقابلے میں اب زیادہ ہے۔ اگر شہباز شریف سے حکومت نہیں چل رہی تو میرے خلاف سازش کیوں کی؟ مجھے ہی رہنے دیتے، اچھی بھلی ہماری حکومت چل رہی تھی، سازش کی اور اسے گرا دیا،
اب ذمہ داری لیں اور معیشت ٹھیک کر کے دکھائیں، حکومتی وزراء کہتے ہیں اسی بیانیے پر غداری کا مقدمہ بننا چاہیے۔ اگر پاکستانی سیاست کا تفصیلی جائزہ لیا جائے ’’غدار‘‘ کی کہانی بہت پرانی ہے۔ جنرل محمد ایوب خان ولد محترم گوہر ایوب خان اور دادا حضور عمر ایوب کے دور میں قوم کی بدقسمتی ملاحظہ فرمائیں کہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح اور ان کے حواریوں کو غداری کی سند عطا کی گئی، پھر جنرل محمد یحییٰ خان سقوط ڈھاکہ پر’’ غدار‘‘ بنے بلکہ ذوالفقار علی بھٹو بھی عوامی حمایت کی موجودگی میں مخالفین کے ہاتھوں ’’غدار‘‘ کہلائے اور انہیں بھی حکومت توڑنے کا ذمہ دار کہا گیا۔ آمر حکمران جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف آئین کی پامالی پر بھی یہ سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتے ہیں۔
بعدازاں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف  برسراقتدار آئے دونوں نے باری باری ایک دوسرے کو سکیورٹی رسک بھی قرار دیا اور ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ بھی کیا۔ موجودہ دور میں عمران خان اپنے بیانیے سے غداروں کی ایک طویل فہرست جاری کر چکے ہیں لیکن آخر غداری کی ڈگری انہیں بھی مل ہی گئی۔ ان تمام غداروں میں سب سے مستند غدار آغا محمد یحییٰ خان سابق صدر پاکستان ہیں، جن کے خلاف قائداعظم محمد علی جناحؒ کے قریبی ساتھی میاں بشیر کے صاحبزادے میاں منتظر بشیر نے تھانہ سول لائنز لاہور میں پاکستان کے دو لخت ہونے پر مقدمہ درج کرایا تھا، یہ مقدمہ گورنر عتیق الرحمان کے مشورے پر درج کرایا گیا لیکن جب سے اب تک مقدمے کے سربمہر پیکٹ کو کسی نے کھول کر دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی، بھٹو صاحب کا دعویٰ تھا کہ وہ جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان سے ملک و ملت کاحساب لیں گے لیکن نظام قدرت نے ان کے دور حکومت میں دونوں کو زندگی دی اور وہ اپنی طبعی موت مرے اور بھٹو کا مقدر پھانسی بن گیا ۔
اس وفاداری اور غداری کی کہانی کو جتنی مرتبہ غیر جانبدارانہ انداز میں دیکھا اورپرکھا جائے گاتو پاکستانی تاریخ میں اور بھی کچھ ’’غدار‘‘ مل جائیں گے لیکن سب کا دعویٰ یہی ہو گا کہ ’’وفادار ہم ہی ہیں‘‘ اس لیے کہ یہ جھوٹی سچی کہانی ہر دور میں بالکل اسی طرح مقبول ہوئی جس طرح عمران خان نے میر جعفر اور میر صادق کی داستان پر داد حاصل کی ۔ لہٰذا اس بات سے قطع نظر کہ کسی نے کیا کیا؟
ہر شخص یہ کہتا ہے کہ ’’وفادار ہم ہی ہیں‘‘اس دیدہ دلیری اور ہٹ دھرمی کی وجہ ایک ہی ہے کہ غدار، غدار کا الاپ ہر دور میں الاپا گیا کسی پر نہ مقدمہ چلا اور نہ ہی سزا دی گئی، تاہم اسی سرزمین پر آزادی کے متوالے فرنگیوں کے دور میں زبردستی غلام بنا کر تختہ دار پر چڑھائے گئے، پھر بھی کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ میرے مطابق اب یہ راگ بے وقت کی راگنی ہے۔ اسے اب ہمیشہ کے لیے دفن کر دینا چاہیے، اس لیے کہ لمحۂ موجود کا تقاضا ہے کہ تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف ملک و ملت کی بات کی جائے۔ معاشی بحران نے جس انداز میں مہنگائی کا رقص شروع کر رکھا ہے یہ ہرگز تفریحی لمحات نہیں، بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں، خو دکشیاں روزانہ کا معمول بن چکا ہے اور ہم اور آپ نہیں، ذمہ دار رہنما الزامات کی لڑائی کو طول دینے میں مصروف ہیں۔
یقیناً یہ وقت بحث و مباحثہ کا نہیں، مایوسی اور مستقبل کے خطرات کے خلاف اعتماد کی بحالی کے لیے قومی یکجہتی، کفایت شعاری اور اجتماعی حکمت عملی کے ہتھیار کی ضرورت ہے جس کے لیے امریکہ، روس اور چین کی بالکل ضرورت نہیں، ہم قدم اور ایک ہونے کی کوشش درکار ہے۔ کیا سابق وزیراعظم عمران خان کی نشاندہی کے بعد بھی ہم ایک قوم نہیں بن سکتے، یقیناً ایسے حالات بالکل نہیں لیکن سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل کی سوچ کی طرف اشارہ عمران خان کیوں کر رہے ہیں ؟ ہماری فورسز اور قومی ادارے کمزور نہیں ، پھر بھی سازشی اور انارکی کا ماحول جس انداز میں پیدا کیا جا رہا ہے، اس نے بہت سے سوال اٹھا دئیے ہیں۔ ہم سب کو قومی فکر اور جذبہ حب الوطنی سے اس آلودہ ماحول کو شفاف بنا کر ثابت کرنا ہو گا کہ ہم دنیا کی ساتویں اور مسلم امہ کی پہلی طاقت اسی لیے ہیں کہ بھوک، ننگ اور معاشی بدحالی کے باوجود ہم جیناہی نہیں جانتے بلکہ بحیثیت قوم ہر بحران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دشمنوں کو ناکام کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
ہمارے اندرونی اور بیرونی سازشی یہ جان جائیں کہ اب سقوط ڈھاکہ کی بین الاقوامی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ وہ زمانہ لد گیا جسے شک یا غلط فہمی ہے وہ آزما کر دیکھ لے۔ ہر شخص یہ کہتا ہے ’’وفادار ہم ہی ہیں‘‘۔ غدار غدار کھیلنا ہمارا سیاسی کھیل ہے ورنہ ہم سب دھرتی ماں کے وفادار اور جانثار ہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ حالات کی نزاکت اور سنگینی کا احساس کرتے ہوئے حکومت اپنا ریلیف پیکیج دے کر عوامی بداعتمادی کو اعتماد میں تبدیل کرے۔ معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے جنگی بنیادوں پر حکمت عملی ترتیب دے کر دنیا کو بتایا جائے کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ ہم ہر آفت اور بحران کا مقابلہ کرنا جانتے ہیں۔ ہماری اور آپ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ معاملات کو حقیقت کی نگاہ سے دیکھیں اور سیاسی عینک اتار کر اسے پرکھیں تاکہ جلد از جلد بہتری کی راہیں استوار کر سکیں، ڈرپوک اور بے حوصلہ قومیں بداعتمادی کی فضاء میں سانس لینا بھی بھول جاتی ہیں
لہٰذا سیاسی نعروں سے متاثر ہو کر کسی پر غداری کا الزام نہ لگائیں بلکہ اپنی صفوں میں موجود حقیقی غداروں کی نشاندہی کر کے ان کا منہ کالا کریں۔ پاکستانی فورسز، سیاسی قیادت اور عوام نے مشترکہ حکمت عملی میں بھاری جانی و مالی قربانیاں دے کر وطن عزیز میں امن بحال کر کے دشمنوں کو نیچا دکھایا ہے اور اب اسی جذبے سے جینا ہے کہ کوئی ہمیں کسی بھی لحاظ سے کم تر اور کمزور نہ سمجھے۔ضربِ عضب اور آپریشن رد الفساد کے مثبت نتائج کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، لیکن ہمیں دشمنوں اور ان کے مفاد پرست سہولت کاروں کو یہ پیغام دینا ہے کہ آئندہ بھی اگر کسی نے ہمیں امتحان میں ڈالا تو اسے منہ توڑ جواب ملے گا اس لیے کہ ’’وفادار ہم ہی ہیں‘‘ وہ نہیں، جو مفادات کے غلام ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button