ColumnMoonis Ahmar

 طالبان مخالف مزاحمت کیلئے تازہ اقدامات .. پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر

پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر

طالبان وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے اور انسانی حقوق کی پاسداری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے نو ماہ بعد، 19 مئی کو انقرہ میں طالبان حکومت کے خلاف مزاحمت شروع کرنے کا منصوبہ بنایاگیا۔ افغانستان کے سابق نائب صدر عبدالرشید دوستم نے چالیس اہم سیاسی شخصیات کو مدعو کیا اور انہوں نے طالبان کے خلاف قومی مزاحمت کی اعلیٰ کونسل بنانے پر اتفاق کیا۔ اگرچہ اگست میں حزب اختلاف کی کچھ شخصیات، خاص طور پر دوستم اور قومی مزاحمتی محاذ کے احمد ولی مسعود نے طالبان کو اپنی طرف سے مخالفت نہ کرکے مدد کی تھی لیکن وہ طالبان کو مزید وقت اور جگہ فراہم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ طالبان ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے اور انسانی حقوق کی پاسداری کرنے میں ناکام رہے ہیں جیسا کہ فروری 2020 میں دوحہ معاہدے میں طے پایا تھا۔ قومی مزاحمت کی اعلیٰ کونسل کے فائدے اور نقصانات دونوں ہیں ، اس کے علاوہ، یہ اتحاد کس حد تک طالبان کے خلاف موثر تحریک چلا سکے گا جو اب مکمل طور پر افغانستان پر قابض ہیں؟ کیا طالبان اس مزاحمتی اتحاد سے نمٹ پائیں گے؟ امریکہ نے 14 اگست کو اپنے اچانک انخلاء کے بعد قریباً 80 بلین ڈالر مالیت کے ہتھیار افغانستان میں چھوڑے تھے۔

ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں سمیت اس اسلحہ خانے کا بڑا حصہ اب طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ بین الاقوامی تنہائی اور پابندیوں کے باوجود طالبان کی حکومت معیشت کو چلانے میں کامیاب رہی ہے۔ تاہم،اسے خوراک، ایندھن، ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کو یقینی بنانے میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ حکومت کے پاس درآمدات کی ادائیگی کے لیے مالی وسائل کی کمی ہے۔ اس منظر نامے میں، قومی مزاحمت کونسل یہ سمجھتی ہے کہ وہ اس صورت حال میں ایسی حکومت کے خلاف بھرپور حملے کے لیے تیار ہے جس کے پاس پہلے سے ہی عوامی حمایت کا فقدان ہے اور وہ بین الاقوامی شناخت حاصل کرنے سے بھی قاصر ہے۔ مزاحمتی گروپ نے کہا ہے کہ کونسل کو افغانستان کی آزادی کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔
ہم طالبان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی تنہائی کوختم کریں اور افغانستان کے موجودہ مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر آئیں، طالبان کو تاریخ کے تجربات سے سیکھنا چاہیے کہ طاقت اور دباؤ کے ذریعے کوئی بھی گروہ مستحکم حکومت نہیں قائم رکھ سکتا۔ بدقسمتی سے افغان قیادت نے ماضی یا حال میں صرف ایک ہی سبق سیکھا ہے کہ انہوں نے کوئی سبق ہی نہیں سیکھا۔ نتیجتاً افغانستان جو کہ احمد شاہ درانی کے دور میں 1747ء میں قائم ہوا، اپنے وجود کے 275 سالوں میں ایک قومی ریاست کے طور پر ابھرنے میں ناکام رہا۔ اس کی قبائلی اور انتہائی
قدامت پسند خصوصیات بشمول بندوق کی ثقافت، بدعنوانی اور اقربا پروری نے ریاستی اور معاشرتی دونوں سطحوں پر اس کی خرابی میں حصہ ڈالا۔
طالبان کی حکومت ایک بار پھر گورننس، معیشت، انسانی حقوق اور دہشت گردی کے مسائل سے نمٹنے میں ناکام ہو ئی ہے، جس سے افغانستان میں خانہ جنگی کا نیا آغاز ہو سکتا ہے۔ قومی مزاحمتی کونسل کا مقصد افغانستان کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ طالبان کو یہ مان لینا چاہیے کہ وہ اکیلے حکومت نہیں چلا سکتے۔ بصورت دیگر افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔ طالبان کی حکومت نے مسلسل رجعت پسندانہ اقدامات کیے ہیں جن میں خواتین پر سفری پابندی عائد کی گئی ہے جس کے بعد نقاب کاقانون ہے، خواتین ٹیلی ویژن نیوز کاسٹروں کو اپنے چہرے ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے، افغانستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن کو بند کر دیا گیا ہے، اور خواتین کی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی ہے یا اُنہیں تعلیم کی مکمل طور پر اجازت نہیں دی گئی، ان سب عوامل نے افغان عوام میں مایوسی، غصہ اور دشمنی کو جنم دیا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ طالبان نے اپنی ماضی کی ناکامیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ پہلے کی طرح رجعت پسند اور انتہائی قدامت پسند ہیں۔
طالبان افغان آبادی پر اپنا طرز زندگی مسلط کرنا چاہتے ہیں، اور اُنکی توجہ اپنی طرز کی شریعت کی تشریح پر سختی سے مرکوز ہے۔ تاہم، یہ ایک کُھلا تضاد ہے کیونکہ اس میں استدلال، عقلیت اور رواداری کا فقدان ہے۔ غیر ملکی قبضے کے
باوجود، نائن الیون کے بعد بیس سال کی آزادی نے ایک پوری نسل کو ایک مختلف طرز زندگی اور آزادی کے احساس کے ساتھ جدید دُنیا سے روشناس کرایا ہے جو طالبان کے لیے ناقابل قبول ہے۔اگر طالبان کی حکومت نو تشکیل شدہ مزاحمتی گروپ کی طرف سے وارننگ کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام رہتی ہے اور صرف اعتدال پسندی کے وعدے پیش کرتی ہے تو افغانستان ایک بار پھر تباہ کن مضمرات کے ساتھ خانہ جنگی کے ایک اور مرحلے میں ڈوب جائے گا۔ طالبان کا حد سے زیادہ اعتماد اور حزب اختلاف کی طاقت سے انکار بالآخر افغان عوام کے لیے حالات کو مشکل بنا دے گا۔ طالبان کے حقیقی عزائم کا اندازہ لگانے میں ٹرمپ انتظامیہ کی بے وقوفی اور اُس کے بعد بائیڈن انتظامیہ کی افغانستان سے عجلت میں واپسی نے طالبان کے اعتماد کو بڑھایا۔ افغان نیشنل آرمی کے خاتمے اور اشرف غنی کی انتظامیہ کے فرار ہونے کے بعد،
طالبان کو اپنی حکومت بنانے کی آزادی تھی، جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ سب افغان گروپس کو اقتدار میں شامل کریں گے تاہم، ایک بار اقتدار میں آنے کے بعد، انہیں اپنے اصلی رنگ ظاہر کرنے میں دیر نہیں لگی۔ طالبان کے خلاف تازہ مزاحمتی اتحاد کا دو زاویوں سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، طالبان کی حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے مزاحمتی اتحاد کی صلاحیت کا تعین کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اتحاد میں شامل زیادہ تر سیاسی شخصیات بدنام زمانہ ماضی کے پرانے چہرے ہیں، خاص طور پر بوڑھے جنگجو عبدالرشید دوستم۔ یہاں تک کہ پنج شیر کے مرحوم شیر احمد شاہ مسعود کے چھوٹے بھائی احمد ولی مسعود کو بھی طالبان نے 2021 کے موسم خزاں میں وادی پنج شیر میں ان کے مضبوط گڑھ سے بے دخل کر دیا تھا۔ طالبان کی پہلی حکومت کے دوران، شمالی اتحاد نے قریباً 10 فیصد کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ افغان سرزمین پر یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان حکومت پورے ملک پر قابض ہے۔ اگر افغانستان میں مخالف گروپ مضبوط اور طاقتور ہوتے تو آج ملک کے کچھ حصوں پر ان کا کنٹرول ہوتا۔
اب اتحاد، قائدانہ صلاحیتیں اور حکمت عملی مزاحمتی کونسل کی مستقبل کی کامیابی کا تعین کرے گی۔ طالبان اس وقت تک اپنی گرفت مضبوط کرتے رہیں گے جب تک انقرہ اجلاس میں شریک چالیس افغان رہنما ملک کے زمینی حقائق سے نمٹ نہیں لیتے۔ طالبان افواج کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لیے مادی اور فوجی دونوں وسائل کی ضرورت ہوگی، جسے مزاحمتی کونسل متحرک کرسکتی ہے کیونکہ طالبان کی حکومت ملک کے اندر اور عالمی سطح پر غیر مقبول ہے۔ دوسرا،طالبان کے بعد کے افغانستان کے لیے مزاحمتی کونسل کے منصوبے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کونسل کا متضاد اتحاد ملک میں امن کو یقینی نہیں بنا سکتا۔ ان سے ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہوگی جو پہلے سول تنازعہ کا سبب بن چکے ہیں اور غیر ملکی مسلح مداخلت کے علاوہ اور کوئی حل نہیں کہ طالبان حکومت کو کمزور کیا جا سکے ۔ شاید کونسل کو یقین ہے کہ طالبان کی حکمرانی کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہ کرنا اور طالبان پر اتحاد کی طرف سے حملے کی صورت میں پاکستان کی غیر جانبداری ان کی کامیابی کا باعث بنے گی۔
نوٹ:۔پروفیسر ڈاکٹر مونس احمرکی انگریزی تحریر کا اُردو ترجمہ بین الاقوامی یونیورسٹی جاپان کے ڈاکٹر ملک اللہ یار خان نے کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button