Editorial

پٹرولیم مصنوعات اوربجلی کی قیمت میں اضافہ

حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بارپھر 30روپے فی لٹر اضافہ کردیا ہے،یوں حکومت کی جانب سے سات روز میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں 60 روپے کا اضافہ کیاگیاہے۔ پہلا اضافہ 27مئی اور دوسرا اضافہ 3جون سے لاگو کیاگیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پٹرولیم ڈویژن نے دعویٰ کیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں میں اضافے کے باوجود پٹرول پر اب بھی 9.32 روپے اور  ڈیزل پر 23.05روپے کی حکومتی سبسڈی برقرار ہے،
اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو سبسڈی ختم کرنے کے لیے تیسری بارپٹرول کی قیمت میں 9.32 روپے فی لٹر اور ڈیزل کی قیمت میں 23.05 لیٹر مزید اضافہ کرنا پڑے گا،کیوں کہ آئی ایم ایف نے قرض کو حکومت کی جانب سے سبسڈی کی 100 فیصد واپسی سے منسلک کیاہے، اسی لیے حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے پر مجبور ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30روپے فی لٹر اضافے کے بعد اب ایک لٹر پٹرول 209روپے 86پیسے۔ ڈیزل کی نئی قیمت 204 روپے 15پیسے۔ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 178 روپے فی لٹر اور مٹی کے تیل کی قیمت 181 روپے 94 پیسے کردی گئی ہے اور وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ مئی کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے مگر قیمتوں میں اس اضافے کے باوجود حکومت کو لائٹ ڈیزل پر 8 روپے، پٹرول پر 9 روپے، ہائی سپیڈ ڈیزل پر اب بھی 23 روپے نقصان ہو رہا ہے۔
ہمیں اندازہ اور احساس ہے کہ اس فیصلے سے غریبوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا لیکن اس وقت دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے باوجود کافی نقصان ہورہا تھا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانا ناگزیر ہے کیونکہ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا اس کی وجہ سے مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے خاص طورپر یاد دلایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے سستے پٹرول کی سکیم شروع کی ہے، جس سے ایک کروڑ چالیس ہزار لوگوں کو دو ہزار روپے ماہانہ دیا جارہا ہے، اس مد میں 28 ارب روپے دیے جائیں گے یہی نہیں ریلیف پیکیج کے تحت یوٹیلٹی سٹورز پر چینی ستر روپے فی کلو اور آٹا 40 روپے کلو ملے گا جبکہ چاول، دالوں گھی کی سبسڈی کچھ عرصہ مزید چلے گی مگر چینی اور آٹے کی سبسڈی پورا سال چلے گی۔پٹرول کے بعد ہم بجلی کے نرخوںمیں اضافے کی بات کرتے ہیں ۔
نیپرا نے بھی بجلی کی قیمت میں 7.91روپے فی یونٹ تک اضافے کی منظوری دے دی ہے اور اعلامیے کے مطابق اوسط ٹیرف 16.91 روپے سے بڑھا کر 24.82 روپے فی یونٹ تعین کیا گیا ہے۔ ٹیرف بڑھنے کی بنیادی وجہ روپے کی قدر میں کمی، کپیسٹی لاگت اور عالمی مارکیٹ میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ بتائی گئی ہے، چند روز قبل جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پہلا بڑا یعنی تیس روپے اضافہ کیاگیا تبھی ہم نے گذارش کردی تھی کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اب بجلی کے نرخ بھی بڑھیں گے اور اِن کو فیول ایڈجسٹمنٹ کا نام دیا جائےگا۔ چونکہ اب پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں تیس روپے اضافہ کردیاگیا ہے اِس لیے پھر بجلی کی قیمت میں اضافے کی خبر کا منتظر رہا جاسکتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ پچھلی گورنمنٹ نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تھا اسی کی روشنی میں
بہ امر مجبوری قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں اور بلاشبہ ایک کروڑ چالیس ہزار لوگوں کو دو ہزار روپے ماہانہ  کا ریلیف بھی دیا جارہا ہے لیکن حالیہ دنوں میں مہنگائی کا جو طوفان آچکا ہے اِس کے سامنے یہ ریلیف آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
مہنگائی تو عوام کا ہمیشہ سے مسئلہ رہی ہے اور ہر دور میں مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور حسب معمول جواب میں عوام کا واویلا سننے کو ملتا ہے لیکن کرونا وائرس نے تو مہنگائی کے حوالے سے تمام حدیں ہی پار کردی تھیں، کچھ عالمی سطح پر مہنگائی تھی رہی سہی کسر ہمارے یہاں مافیازنے ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے نام پر پوری کردی لیکن تب حکومت ِوقت کی جانب سے مسلسل تسلی دی جارہی تھی کہ کرونا وائرس کے بعد زندگی معمول پر لوٹ آئے گی اور مہنگائی کا عارضی طوفان تھم جائے گا، کرونا وائرس آکر بھی چلاگیا لیکن قیمتیں وہیں رہیں جہاں مافیاز نے ریاستی مشینری کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہنچائی تھیں ، ابھی وہ زخم ہرے ہی تھے ، مہنگائی کی چکی میں پسے عوام روزگار کی تلاش میں بھی دربدر تھے کہ ملک میں سیاسی بحران شروع ہوگیا، پچھلی حکومت پر الزام تھا کہ اِس کی نااہلی کی وجہ سے مہنگائی ہے اسی لیے عوام سمجھ رہے تھے کہ حکومت کی تبدیلی سے اُن کے حالات بھی تبدیل ہوجائیں گے مگر حالیہ معاشی فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی امتحاں اور بھی باقی ہیں! کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے ہر طرف مہنگائی کا طوفان آچکا ہے ، اشیائے خورونوش ہی نہیں بلکہ انسانی ضرورت کی ہر چیز مہنگی ہوچکی ہے جس کا تعلق پٹرول سے نہیں ہے۔
پٹرول ہی نہیں بلکہ بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے اور مزید قرض کےبوجھ تلے دبنے کے لیے ہمیں اُن کا یہ مطالبہ ماننا ہی ہوگا لیکن کیا فیصلہ سازی کے دوران صرف عوام کی مشکلات کا اندازہ کرنا ہی کافی ہے یا عام پاکستانیوں کو حقیقی معنوں میں ریلیف دینا بھی کہیں زیر غورہے؟ معیشتوں کی درجہ بندی کرنے والے عالمی ادارے موڈیز نے پاکستان کے آئوٹ لک یعنی مستقبل کے معاشی منظر نامے کو مستحکم سے منفی قراردے دیا ہے، موڈیز کے مطابق بیرونی معاشی خطرات کے باعث پاکستان کی رینکنگ منفی کردی گئی ہے۔ مہنگائی کے باعث بیرونی معاشی صورت حال بگڑ رہی ہے،کرنٹ اکائونٹ خسارے اور کرنسی پر دبائوبڑھا ہے،سیاسی خطرات کی وجہ سی معاشی مستقبل غیریقینی دکھائی دے رہا ہے اور سیاسی حالات کے باعث آئی ایم ایف شرائط پر عمل درآمد میں مشکلات درپیش ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات کی مد میں مخصوص پاکستانیوں کو دو ہزار فی کس کو اگرچہ خوش آئند قرار دینا چاہیے لیکن متوسط طبقے کا بھی خیال کیا جانا چاہیے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے، مطالبات پر الائونسز بھی بڑھادیئے جاتے ہیں لیکن نجی شعبے سے منسلک ملک کی سب سے بڑی افرادی قوت معاشی امتحان میں پڑی رہتی ہے اِن کے متعلق کچھ نہ سوچاگیا تو یقیناً سیاسی لحاظ سے اِس کا نقصان ہوگا۔ مارکیٹ میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں اشیا کی مصنوعی قلت پیدا کردی گئی ہے تاکہ پٹرول یا بجلی یا دونوں کو بنیاد بناکر اِن کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ کرکے تجوریاں بھری جاسکیں۔ ایک طرف حکومت عوام کو آزمائش میں ڈال رہی ہے تو دوسری طرف ریاستی مشینری عوام کو مافیاز کے رحم و کرم پر دیکھ کر بھی بے بس ہے۔ اگر اب وفاقی اور صوبائی حکومتیں مصنوعی مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی سے بچانے کے لیے اقدامات کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو یقیناً عوام کے لیے صورتحال ناقابل برداشت ہوجائے گی۔ اِس لیے ایک طرف تو متوسط اور عام طبقے کو ریلیف دیا جائے تو دوسری طرف مصنوعی مہنگائی کا طوفان بھی روکا جائے۔صنعتوں پر پٹرول اور بجلی مہنگی ہونے کے منفی اثرات پڑیں گے وہ بلاشبہ ناقابل بیاں ہوں گے، صنعتوں کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا اور اُن کی تیار کردہ مصنوعات عام مارکیٹ میں مہنگی ہوں گی اسی طرح برآمدات بھی متاثر ہوسکتی ہیں کہ ہمسایہ ممالک میں ایندھن اتنا مہنگا نہیں جتنا ہمارے ملک میں ہے  کیونکہ وہ مختلف سستے ذرائع سے توانائی حاصل کررہے ہیں لیکن ہم مہنگے ایندھن سے بجلی پیدا کرکے معاشی بحران سے نکلنے کے خواہشمند ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ ہماری برآمدات بھی بڑھیں جو یقیناً اِس حکمت عملی میں ممکن نہیں،
اِس لیے سب سے پہلے عالمی مالیاتی اداروں سے جان چھڑائیں تاکہ عوام اور ریاست کی سلامتی محفوظ رہے۔مستقبل کی منصوبہ بندی کی جائے اوراِسی کے مطابق ضروریات پوری کی جائیں، بھارت روس سے سستا ایندھن حاصل کرسکتا ہے لیکن ہم نہیں۔ ہم غیر ملکی دبائو پر ایران سے سستی گیس بھی نہیں خرید سکتے۔ ہم اغیار کی خواہشوں کے احترام میں قرضوں کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں، ہماری انڈسٹری تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، عوام کی آمدن کا بڑا حصہ بجلی، گیس، پٹرول جیسی بنیادی ضروریات کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتا ہے لیکن ہم پھر بھی قاصر ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک و قوم کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دینا اشد ضروری ہے جہاں سے سستی گیس، بجلی اور ایندھن ملتا ہے حاصل کریں اور عوام کو فراہم کریں، اگر ہم مخصوص معاملات میں اغیار کی ناراضگی مول نہیں لیں گے تو ہم کسی صورت معاشی بحران سے باہر نہیں نکل سکتے ۔ مشکل فیصلوں میں متوسط اور دیہاڑی دار پاکستانیوں سے قربانی لی جارہی ہے لیکن ہماری رائے میں قربانی کا یہ سلسلہ سیاسی قیادت سے شروع ہونا چاہیے،
حکمران اپنے پٹرول اور بجلی کے اخراجات خود اٹھائیں، وزرا، مشیروں سے بھی کہاجائے کہ وہ کفایت شعاری اپنائیں اس کے بعد افسر شاہی سے کہاجائے کہ وہ کفایت شعاری اپنائیں بلکہ ایک پالیسی طے کی جائے۔ عام طور پر دیکھا یہی گیا ہے کہ جتنا بڑا سرکاری افسر ہوتا ہے اُس کی اُتنی ہی تنخواہ اور اُس سے کہیں زیادہ مراعات ہوتی ہیں، پٹرول، بجلی اور پتا نہیں کون کونسی مد میں اِسے ریلیف حاصل ہوتا ہے، اِسی طرح جہاں پٹرول اور بجلی کی مفت فراہمی کی جارہی ہے وہاں بھی ہاتھ کھینچا جائے، محکموں کی پالیسیاں نئے معاشی حالات کو مدنظر رکھ کر ترتیب دی جائیں کیونکہ حالات اب مزید عیاشی کی اجازت نہیں دیتے، ویسے بھی امیر اور غریب پاکستانی میں فرق رکھے بغیریکساں بوجھ منتقل کرنا قطعی دانش مندی نہیں،
معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ بجٹ خسارہ اخراجات میں کمی لاکر ہی پورا کیا جاسکتا ہے دوسری طرف ملک کے معاشی حالات سے تو یہی ظاہر ہے کہ حکومت کے لیے ابھی سخت فیصلوں کے بہت سے مراحل باقی ہیں جن میں بجٹ خسارہ پرقابو پانا بھی ہدف میں شامل ہے اور سب سے نازک معاملہ بجٹ خسارہ ہے، کیونکہ ہمارا بجٹ اب بند گلی میں پہنچ جانے کے مصداق اِیسی صورت اختیار کرچکا ہے جس میں ماسوائے پیٹ پر پتھر رکھنے کے ، اور کوئی چارہ نہیں اِس لیے حکومتی سطح پر اخراجات کو کم سے کم کیا جائے ۔ پٹرولیم مصنوعات میں حالیہ اضافے سے عوام پر تیس ارب روپے کا بوجھ تو منتقل ہوگیا ہے لیکن افسر شاہی اور حکومتی ذمہ داران کو بھی اِس آزمائش میں لانا چاہیے تاکہ سبھی بیک وقت آزمائش سے گزریں ۔
درآمدات پرپابندی میں نہ صرف توسیع کی جائے بلکہ اِس میں شامل مصنوعات کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے کیونکہ معاشی بحران سے نکلنااور دیوالیہ کے خطرات سے بچنا ہے تو ایسی عیاشیاں بند کرنا پڑیں گی۔ سری لنکا کے معاشی حالات کو مدنظر رکھیں اور سبھی کو بلاتمیز آزمائش کے کٹہرے میں کھڑا کریں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ اس بار بھی صرف عوام کو ہی آزمائش میں ڈالا گیا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button