ColumnNasir Naqvi

ایک اور افواہ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی
عمران خان کا دھرنا ناکام نہیں ہوا، دبائو بڑھ چکا،اب حکومت کو اپنا بوریا بستر لپیٹنا ہو گا۔ زبردستی کی حکومت نہیں چل سکتی، یہ عمران خان کی سیاسی بصیرت ہے کہ اس نے حکومت کو بھاگنے اور سوچنے سمجھنے کے لیے چھ روز دے دیے، اگر وہ یہ فیصلہ نہ کرتے تو اسلام آباد کھنڈر بن جاتا، عوام بے چین تھی کہ کپتان اشارہ کرے لیکن خان نے صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا۔
ٹوٹو میاں:واہ۔تالیاں
انصافی :یعنی آپ میری بات سے متفق ہیں، مقتدر اداروں نے جوش و خروش دیکھ لیا، اسی لیے عدالت عظمیٰ نے بیچ بچائو کا راستہ نکالا، فوج غیر جانبدار ہے اور کپتان اُن کے اِس انداز کو پسند کر رہے ہیں۔ دراصل قومی اداروں کو سیاست سے دور ہی رہنا چاہیے لیکن وزیر داخلہ مونچھوںوالی سرکار رانا ثناء اللہ اپنے ذاتی انتقام میں کچھ کر رہے ہیں جس کا کوئی جواز نہیں۔
ٹوٹو میاں:کیا آپ دارالحکومت پر لشکر کشی کریں اور حکومت تماشائی بنی رہے؟
انصافی:مجھے تو آپ بھی پٹواری لگ رہے ہیں۔ لگتا ہے آپ کو بھی بوٹ پالش کا ٹھیکہ ملنے کی امید ہے، کیا ہو گیا، یہ وقت سوچنے، سمجھنے اور مستقبل کے فیصلے کا ہے ورنہ ذہنی غلام تو ہیں ہمیشہ کے لیے۔ حقیقی غلامی بھی آپ کا مقدر بنے گی۔
ٹوٹو میاں:پھر کیا ہو سکتا ہے؟
انصافی:اِن مداری نماسیاستدانوں سے جان چھڑائیں، خانِ اعظم کا ساتھ دیں، نظام بدلے گا تو پاکستان اور پاکستانیوں کی دنیا بدل جائے گی۔
ٹوٹو میاں: (بات کاٹتے ہوئے)بھائی اسی لیے لوگوں نے تیسری پارٹی کو چانس دیا تھا لیکن پونے چار سال میں خانِ اعظم سبز باغ دکھانے، یوٹرن کرنے اور وعدوں پر ٹرخانے کے سوا کچھ نہیں کر سکے۔
انصافی:آپ لوگ 30سالوں کی ڈکیتی، چوری اور لوٹ ماری کا مال مسروقہ فوراً برآمد کرانے کے خواہش مند ہیں، ایسا کبھی نہیں ہو سکتا، خان اعظم نے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے زرداریوں اور شریف زادوں کو بے نقاب کر دیا، ہر طرف ’’چور چور‘‘ کے نعرے سنائی نہیں دیتے؟ آپ لوگوں کے کان کیوں بند ہیں ضرور آپ بھی اس مافیا کے حصّے دار ہوں گے ورنہ تھو تھو کرتے۔
ٹوٹومیاں:بھائی آپ جو کہہ رہے ہیں ہم اسے تسلیم کر لیتے ہیں لیکن یہ تو بتائیں مستقبل میں کیا ہونے والا ہے؟
انصافی: ہونا کیا ہے سب منہ کی کھائیں گے، خان کی حکمت عملی کسی کو سمجھ نہیں آئے گی اس نے ان سے بجٹ کی کڑوی گولی نکلوانی ہے پھردما دم مست قلندر۔ خبر یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ 22ہفتے یہ مہمان حکومت میں گزاریں گے اگر خان نہیں تو یہ بھی نہیں رہ سکتے، کوئی نیاسیٹ اَپ آئے گا، سب اسے بھگتیں گے۔ الیکشن کے خواب ادھورے رہ جائیں گے۔
ٹوٹومیاں: ( لمبا سانس لیکر)یہ خبر نہیں افواہ ہے، میں زیادہ اور کچھ اس ڈر سے نہیں کہوں گا کہ پہلے بحث کے دوران ایک کھلاڑی سے ’’لوٹا‘‘ کھا چکا ہوں۔
انصافی:(زوردارقہقہہ)اب لوٹے ڈی سیٹ ہو گئے۔ ان کی سیٹوں پرالیکشن کمیشن نے نئے انتخابات کا شیڈول بھی جاری کر دیا، اس فیصلے سے اَب لوٹے مع لوٹا ازم ختم ہو جائیں گے، لہٰذا آپ بھی اب لوٹے سے خوفزدہ نہ ہوں۔
ٹوٹومیاں: دیکھو! چور ڈاکو اور قومی خزانہ لوٹنے والے شریف برادران کے ادوارمیں مہنگائی، پٹرول اور ڈالر سب کے سب کنٹرول میں تھے، اب متحدہ اتحادی حکومت بھی اپنے تجربے سے عوامی مشکلات میں کمی ضرور کرے گی۔
انصافی:بالکل درست، ایک مرتبہ میں پٹرول میں 30روپے کا اضافہ اس بات کا ثبوت ہے ۔
ٹوٹو میاں: آپ درمیان میں مت بولو۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ عمران حکومت نے کیا، موجودہ حکومت نے نہیں، وزیراعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب میں یہ کہا کہ ایسا دل پر پتھر رکھ کر مجبوراً کیا لیکن غریبوں کی سہولت کے لیے 28ارب روپے ماہانہ کا نیا ریلیف پیکیج اسی لیے دیا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ غریب طبقے کے لیے جینا
حرام ہو چکا ہے لیکن اس میں ہماری حکومت کی غلطی نہیں، عمران خاں کی نالائقی کا یہ تحفہ ہے۔
انصافی: آپ امپورٹڈ حکومت کے ترجمان مقرر تو نہیں ہو گئے؟
ٹوٹومیاں:نہیںنہیں۔۔۔ساڑھے تین سال برداشت کیا تم لوگوں کوریاست مدینہ کے نام پر، صدقے جائوںمدینے والے کے۔ اُن پر ہماری جانیں بھی قربان لیکن خدا خوفی کرو تمہارے خان اعظم نے کیا کیا پاکستان کے ساتھ؟ 20ارب سے زائد قرضوں کا بوجھ ڈالا ہے جو گزشتہ 71سالوں کے قرضوں کا 80فیصد بنتا ہے لہٰذا رواں مالی سال کا بجٹ ریکارڈ خسارے کا ہو گا۔
انصافی:(غصے میں)بولو،بولو،خان کی حکومت سازش سے چلی گئی تو تمہیں بھی زبان مل گئی۔
ٹوٹو میاں: میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی، نواز حکومت نے دس ہزار چار سو میگا واٹ بجلی کا اضافہ کیا، سڑکوں کا جال بچھایا، ٹرانسپورٹ سسٹم دیا، موٹر وے، میٹرو اوراورنج ٹرین جیسے بین الاقوامی منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔
انصافی:(لقمہ دیا)اور قومی خزانے کے اربوں روپے ملازمین کے نام پر کھا گئے؟
ٹوٹو میاں: یہ بھی تو بتائو کہ تمہارا خان اعظم انتقام میں اندھا رہا کسی پر کچھ ثابت نہیں کر سکا، ہوش کرو مہنگائی بھی کم ترین سطح پر تھی اور تم لوگ جہانگیر ترین، شوکت ترین کے سوا قوم کو کچھ نہیں دے سکے، اس لیے کہ ہوم ورک ہی نہیں تھا ،تبدیلی سرکار کا۔
انصافی:پٹواریوں اور امپورٹڈ حکمرانوں کا ہوم ورک مکمل ہے، سیاسی تجربہ بھی زیادہ ہے، کریں سب مل کر خانِ اعظم کا مقابلہ پکڑ دھکڑ اور جکڑ کیوں کررہے ہیں، جمہوری احتجاج، دھرنا، لانگ مارچ تو اپوزیشن کا حق ہے ،کرنے دیں۔
ٹوٹومیاں:تم لوگ حقیقی آزادی اور غلامی نامنظور کی آڑ میں مادر پدر آزادی چاہتے ہو۔ 2014ء کا دھرنا ثبوت ہے 126روز کونسی ہلڑ بازی نہیں کی تم لوگوں نے، اس وقت بھی اگر ڈاکٹر طاہر القادری کے جانثار نہ ہوتے تو تمہارے دھرنے کے غبارے سے ہوا نکل جاتی،بس ایک بات یاد رکھو آئین اور قانون کے ساتھ مملکت پاکستان سے اہم کوئی دوسرا نہیں، 2018ء کے الیکشن پانچ سال کے لیے ہوئے تھے۔ اگر خان صاحب اپنے نادان غیرملکی دوستوں کے جال میں پھنس کر اپنے اتحادیوں کی اکثریت بھی کھو بیٹھے اور اپنے سلیکٹرز کے اعتماد پر بھی پورے نہیں اتر سکے تو اقتدار سے کیسے نہ اترتے؟ انہوں نے پہلے سازش کا رونا رویا، پھر غلامی نامنظور کا راگ الاپا، لیکن اپنی صفوں میں اتحاد پیدا اس لیے نہیں کر سکے کہ وہ اپنی شخصیت کے برابر کسی دوسرے کو نہیں سمجھتے، لہٰذا ڈیوٹی فل شخصیات شیخ رشید اور فواد چودھری جیسے بھی لانگ مارچ میں قریب نہ پھٹکے۔
انصافی:راستے بند کر کے مقابلہ تو نہیں ہوتا۔
ٹوٹو میاں: جناب دست بستہ گزارش ہے کہ سیاست کو سیاست کی نظر سے دیکھیں، معرکہ آرائی اور فتوحات بھول جائیں۔ ملک و ملت کے لیے افواہیں زہر قاتل سے کم نہیں ہوتیں، پہلے ہی ہمارا سیاسی ماحول خاصا آلودہ ہو چکا ہے۔ اسے مشترکہ جدوجہد اور قومی یکجہتی کے جذبے سے بہتر بنانے کی کوشش کریں اس لیے کہ پاکستان دھرتی ماں سے بڑھ کر اور کوئی نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button