تحریر: کنول زہرا
صوبہ بلوچستان کے نچلی سطح کے سیاسی نظام میں کامیابی کا سنگ میل ہیں, اس کامیابی کو اجاگر کرنا انتہائی اہم ہے.
ان انتخابات نے منتشر اور منقسم سوچ کی حامل قوتوں کو ناکامیابی سے ہمکنار کیا ہے, خاص طور پر وہ قوتیں جو صوبہ بلوچستان کو الگ کرنے کی خواہاں ہیں, ان کٹھ پتلی قوتوں کو حالیہ بلدیاتی انتخابات میں سبکی کا سامنے ہوا ہے, کیونکہ ٹرن آوٹ کے حساب سے بلدیاتی انتخابات 2022
صوبہ بلوچستان کی مثبت تاریخ ثابت ہوئے ہیں, نو سال بعد صوبے میں منعقد ہونے والے ان الیکشن میں 50 سے 55 فیصد ٹرن آوٹ دیکھنے میں آیا, تربت ڈویژن میں 61 فیصد ٹرن آوٹ ہوا جو پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر کے برابر ہے۔ واضح رہے 1988 کے انتخابات کے بعد یہ سب سے زیادہ ٹرن آوٹ ہے۔
خواتین کے حوالے سے بھی ان الیکشن میں مثبت رجحان نظر آیا, ان انتخابات میں مخصوص
کے بجائے جنرل نشتوں پر خواتین کا انتخاب لڑ نے کا عمل خوش آئند ہے, اس انتخابی عمل میں
132 خواتین جنرل نشتوں کی امیدوار تھی, خواتین کی کثیر تعداد کا حصہ لینا تسلی بخش پیش رفت رہی,
خواتین امیدواروں کی سب سے زیادہ تعداد پرامن، ترقی پذیر اور مرکزی دھارے والے صوبہ بلوچستان کی وطن عزیز پر مکمل اعتماد اور بھروسے کی واضح دلیل اور ملک دشمن عناصر کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے, نوجوانوں نے بھی انتخابی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا,
صوبے کے عوام کی کثیر تعداد کی جانب سے ووٹ ڈالنے کے عمل نے ریاست مخالف عناصر کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں پر کان ذرا کان نہیں دھرے اور انہیں یکسر مسترد کیا۔
یہ انتخابات آزاد امیدوار کا انتخاب ثابت ہوئے, جس میں 1487 آزاد امیدواروں نے میدان اپنے نام کیا, بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کا جیتنا سیاسی جماعتوں کی کارگردگی کے لئے سوالیہ نشان ثابت ہوا
موصول ہونے والے غیرحتمی و غیرسرکاری نتائج کے تحت سیاسی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام سب سے آگے ہے اور اب تک 232 نشستوں پر کامیابی حاصل کرچکی ہے۔
جے یو آئی نے کارپوریشن کی 13، میونسپل کمیٹیوں کی 55 اور یونین کونسلوں کی164 نشستیں جیت لی ہیں۔
حکمراں بلوچستان عوامی پارٹی 160نشستیں حاصل کرکے دوسرے، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی 94 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر موجود ہے۔
اب تک کے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک کی نیشنل پارٹی کی قسمت کا ستارہ پھر چمک گیا ،67 نشستیں حاصل کرلیں جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) 65 نشستوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر آ گئی۔
اس کے علاوہ غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی نے اپ سیٹ کیا ہے اور 49 نشستوں کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے جبکہ بی این پی عوامی کی40نشستیں، پی ٹی آئی 22 نشستوں پر کامیاب ہوئی اور اے این پی نے 19 ،جمہوری وطن پارٹی نے 17 اور مسلم لیگ ن نے 15 نشستیں اپنے نام کیں۔
لوگوں کا سیاسی جماعتوں سے اعتماد اٹھ جانا بہت تشویش کی بات ہے, اس لئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی کو اپنی محاذ آرائی اور جارحانہ سیاست پر نظر ثانی کرنی چاہیے, کیونکہ سیاسی جماعتوں کی جارحیت سے عوام کی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتی ہیں, سیاستدانوں کو ان بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں جنرل الیکشن کی تیاری کرنی چاہیں کیونکہ تبدیلی سب سے پہلے صوبہ بلوچستان میں آتی ہے, آپ کو یاد کو ہوگا, تحریک عدم اعتماد سب سے پہلے بلوچستان میں ہی کامیاب ہوئی تھی. بلدیاتی انتخابات 2022 سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بلوچستان کے لوگ محب الوطن اور جمہوریت پسند ہیں, غیور بلوچی اپنی مسلح افواج کا احترام کرتے ہیں, آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے پنجگور دورے کے دوران مقامی لوگوں نے شکایت کی کہ ان کے نمائندے جیتنے کے بعد ان کے حلقوں کا دورہ بھی نہیں کرتے اور یہ بھی شکوہ کیا کہ ریاست کو سیاسی انجینئرنگ نہیں کرنی چاہیے۔ مقامی بلوچوں کی شکایت پر آرمی چیف کی جانب سے فوج کے غیر جانبدارانہ کردار کی یقین دہانی کرائی گئی۔
ان انتخابات کے نتائج اور انعقاد سے ثابت ہوتا ہے کہ فوج نے اپنی غیر سیاسی پوزیشن برقرار رکھی, بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ صوبہ کے عوام کا ریاست پاکستان پر مکمل اعتماد اور بھرپور بھروسہ ہے.