Editorial

وزیراعظم کی میثاق معیشت کی پیشکش

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے ایک بار پھر میثاق معیشت کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کا عمل شروع کر رہے ہیں،2018  میں اپوزیشن لیڈر کے طورپر میثاق معیشت کی تجویز دی مگر اس وقت کی حکومت نے حقارت کے ساتھ نظر انداز کر دیا تھا۔وزیراعظم شہبازشریف نے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ آئیے پاکستان کو ایک ایسا ملک بنائیں جہاں اختلاف رائے کو دشمنی نہ سمجھا جائے۔ جہاں تنقید حوصلے سے برداشت کی جائے، جہاں سیاست کا مقصد عوام کی خدمت ہو۔ جہاں خواتین کا احترام ہو اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
بلاشبہ آج معاشی ماہرین اور سنجیدہ طبقے بار بار میثاق معیشت کا مطالبہ کررہے ہیں، مگر یہ جبھی ممکن ہے اگر تمام سٹیک ہولڈرز خلوص نیت کے ساتھ سمجھیں کہ معاشی معاملہ دراصل سیاسی معاملات سے انتہائی اہم اور اِس کے حل کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے بلکہ ایسے میثاق کی ضرورت ہے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز اپنے حصے کا کام بڑھ چڑھ کر اور دیانت داری سے کریں اور تب تک معاشی معاملات کو سرفہرست رکھا جائے جب تک ہم معاشی بحران اور عوام مہنگائی کے عفریت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرلیتے۔ معیشت کی بحالی قطعی ایک سیاسی پارٹی یا قیادت کے بس کی بات نہیں، اس کے لیے قومی سطح پر اجتماعی فیصلوں اور اُن پر خلوص نیت کے ساتھ عملدرآمد کی ضرورت ہے، معیشت پرقرضوں کا بوجھ اُترے گا تبھی معیشت کے سانس بحال ہوں گے اور یہ تبھی ممکن ہے جب حکومت کی آمدن میں اضافہ اور اخراجات میں کمی ہو، معاشی ماہرین آج معیشت کی بحالی کے لیے کئی حل پیش کررہے ہیں لیکن یہ تبھی قابل عمل ہوں گے جب سیاسی قیادت اپنے تمام سیاسی اختلافات کو بھلاکر ایک جگہ موجود ہوگی اور متفقہ فیصلے کرے گی۔
کوئی بھی سیاسی حکومت عوام پر مالی بوجھ ڈالنا اپنی سیاست کے لیے خطرہ سمجھتی ہے، کیونکہ انہوں نے دوبارہ عوام میں ہی جانا ہوتا ہے، لیکن معاشی حالات جب انتہائی گمبھیر صورتحال اختیار کرچکے ہوں اور عوام پر بوجھ ڈالنے کے سوا کوئی راہ نظرنہ آئے تبھی سیاسی حکومتیں عوام پر مالی بوجھ ڈالتی ہیں۔ موجودہ اتحادی حکومت بھی عوام کو معاشی ریلیف دینے کے عزم کے ساتھ برسراقتدار آئی لیکن معاشی حالات اِس کے برعکس اقدامات پر مجبور کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے اور ایسے مزید سخت فیصلے بھی متوقع ہیں اگر ایسے سخت فیصلے نہ کیے گئے تو بیرونی قرض سے جان چھوٹے گی نہ ہی نظام مملکت چلانے کے لیے خزانے میں کچھ ہوگا اِس لیے ضروری ہے کہ سیاسی اور باہمی مسائل میں الجھنے کی بجائے تمام سٹیک ہولڈرز ملک کے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے میثاق کریں۔
موجودہ حکومت کے پاس قریباً ایک سال کا آئینی عرصہ
ہے اِس کے بعد ووٹرز نئے اراکین اسمبلی کا انتخاب کریں گے، نئی حکومت کے لیے بھی معیشت سب سے بڑا مسئلہ ہوگی جس طرح موجودہ حکومت اور اِس سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے تھی، اس لیے ابھی معیشت کے لیے سر جوڑ لیے جائیں تو ملک و قوم اور آنے والی حکومتوں کے لیے بہتر ہوگا، لیکن اگر سیاسی قیادت روایتی سیاسی معاملات میں ایک دوسرے سے الجھی رہی تو ملک وقوم کے ساتھ جمہوریت کا بھی نقصان ہوگا۔ معیشت کو سیاست سے بالاتر رکھنے میں ہی ملک و قوم کی بہتری ہے۔ اس وقت ملک وقوم جس معاشی بحران کاشکار ہے، اس سے نکلنے کے لیے ہر محب وطن کواپنی پرخلوص کوشش کرنی چاہیے اور سب سے زیادہ سیاسی جماعتوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ نظریات کے اعتبار سے تقسیم در تقسیم قوم کو اِس اہم معاملے پر اکٹھا کریں اور اِن کے سامنے مسائل رکھیں، سیاسی قیادت کوباہمی مشاورت اور اتفاق رائے معاشی اقتصادی منصوبہ بندی کرنی چاہیے جس سے ملک کے کاروباری حالات ومعاملات بہتر ہوسکیں۔
سیاسی درجہ حرارت نیچے لاکر اس وقت سرجوڑ کر معاشی مسائل سے نمٹنے کے وقت کو سیاسی جنگ میں الجھ کر ضائع مت کیجئے کہ یہ معاشی بحران اجتماعی کوششوں سے ختم ہوگا۔ حکومتیں عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لیکر عوام کو سبسڈی دیتی رہیں، عوام سستا تیل اور بجلی استعمال کرتے رہیں، جنہوں نے ٹیکس دینے ہیں وہ ٹیکس دینے کی بجائے آنکھیں نکالتے اور ہڑتالوں کی دھمکیاں دیتے رہیں، صنعتوں پر ٹیکس در ٹیکس لگادیئے جائیں ، حکومتیں شاہانہ اخراجات کرتی رہیں تو پھر یہی نتیجہ نکلتا ہے جو آج ہمارے سامنے ہے، اب مزید غلطی کی گنجائش نہیں، موجودہ حکومت نے معاشی بحران سے باہر نکلنے کے لیے راست اقدامات کا آغاز کیا ہے، سیاست کی بجائے فراست کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائیں ، خود بھی قربانی دیں اور قوم سے بھی قربانی مانگیں جو پہلے ہی قربانیاں دینے کی عادی ہوچکی ہے۔
اگر جماعتی سیاست سے ہٹ کرملک کے عظیم مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے معاشی استحکام کے لیے اتفاق کرلیاجائے تو ملک کودرپیش مشکل حالات سے نکالاجاسکتاہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی مصلحتوں کوپس پشت ڈال کرایسی مضبوط و مستحکم منصوبہ بندی کی جائے کہ جس پرتمام جماعتیں متفق ہوں اور سبھی کا مقصد سیاسی نہیں بلکہ معاشی استحکام ہو ۔ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کی میثاق معیشت کی پیشکش پر کون متفق ہوتا ہے ،کون نہیں ہوتا، کون اِس بحرانی صورتحال میں آگے بڑھتا ہے کون پیچھے رہ جاتا ہے یہ سبھی دیکھیں گے، خود حکومت ان مشکل اقتصادی معاملات سے نکلنے کے لیے سنجیدہ اور ایسے اقدامات پر مجبور ہے جو سیاسی جماعت کے لیے انتہائی مشکل ہوتے ہیں مگر یہ مشکل فیصلے کرنے کا ہی وقت ہے،
ماہرین معیشت کو دور دور تک معیشت کی بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے کیوں کہ معاشی مسائل کے پہاڑ کھڑے ہیں، سیاسی قیادت نے باہمی اختلافات میں الجھ کر حالات کی نزاکت پر توجہ نہ دی تو پوری قوم پکڑ میں
آجائے گی اس لیے خدارا ایک طرف جمہوری عمل کو بغیر کسی تعطل کے چلنے دیاجائے تو دوسری طرف معاشی صورتحال پر بھی میثاق کیا جائے اسی میں سب کی بہتری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button