Ali HassanColumn

جنون بمقابلہ جبر … علی حسن

علی حسن

پاکستان کی سیاست میں آج کل جنون اور جبر  کے درمیان ٹکرائو ہے۔ 25 مئی بروز بدھ جو کچھ اسلام آباد، لاہور اور اٹک ، جہلم وغیرہ میں دیکھنے میں آیا ۔ وہ اس قیاس کو تقویت دیتا ہے کہ یہاں سیاست کے نام پر سیاسی جماعتوں کے کارکن ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے پر در پے ہوتے ہیں۔ لاہور میں کسی گھر کی تلاشی لینے یا گرفتاری کرنے کے لیے گئے ہوئے پولس جماعت کے ایک کارکن کو فائرنگ کر کے کیوں قتل کر دیا گیا۔ لاہور سے اسلام آباد جاتی ہوئی سابق صوبائی وزیر صحت کی گاڑی کے ساتھ پولیس جووحشت کرتی دکھائی دی، کیا ہے وہ تکلیف دہ اور افسوس ناک تھا۔ ان کی گاڑی پر پولیس اس طرح لاٹھیاں برسارہی تھی کہ اسے حکم دیا گیا کہ ان کو گاڑی کو اس انداز میں نقصان پہنچانا ہے۔ گاڑی میں یاسمین راشد خود بھی موجود تھیں۔ وہ سابق وزیر کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی کی رکن بھی ہیں۔ اسلام آباد میں جس بے دردی کے ساتھ گرین بیلٹ کونذر آتش کیا گیا وہ کیا تھا۔پی ٹی آئی رہنما سابق وفاقی وزیر حماد اظہر آنسو گیس کا شیل لگنے سے زخمی ہوئے ۔

اسلام آباد  کے علاقہ کوہسار کے ایس ایچ او نے اپنے واکی ٹاکی پر اپنے افسر کو آگاہ کیا کہ وہ مستعفی ہو گئے ہیں کہ وہ ظلم نہیں کر سکتے۔ جہلم کے ڈی پی او نے ظلم کا ساتھ نہ دینے پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل اکبر ناصر خان کا فرمان تھا کہ  ریڈ زون میں کسی کو آنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی اور جو بھی قریب آنے کی کوشش کرے گا، اْس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔اخباری اطلاع کے مطابق اسلام آباد میں ایک خاتون نے پولیس اہلکار کے ساتھ بدتمیزی کی حدیں پار کر دیں۔اسلام آباد میں ایک خاتون بیچ سڑک پر پولیس اہل کار سے بدتمیزی کرتی رہی، گالیاں دیتی رہی اور گھٹیا الفاظ کی تکرار کرتی رہی۔پولیس اہل کار نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا ۔ وہ خاموشی سے چلتا رہا، کوئی رد عمل نہیں دیا، لیکن خاتون کی زبان درازی نہیں رکی۔راہ چلتی دوسری خاتون نے اس خاتون کو ٹوکا تو ان پر بھی گالم گلوچ کی برسات کردی، تہذیب، تمیز، بنیادی اخلاقیات سب کی دھجیاںاڑادیں۔

اس پولیس والے کو تحمل، برداشت اوردر گزر کرنے پر حکومت کو اسے کسی بھاری انعام سے نوازنا چاہیے۔ اس ملک میں تحمل برداشت اور درگزر کی صلاحیت ناپید ہو گئی ہے۔ زیادہ تر سیاست دان اس کے ذمہ دار ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی فریقین سے کہا ہے کہ بیانات دیتے وقت الفاظ کے استعمال پر توجہ دیا کریں۔ کراچی میں نمائش چورنگی پر مظاہروں میں بدھ کی شام کو شدت آ گئی تھی جس کے نتیجے میں مشتعل افراد نے ایک پولیس موبائل کو نذرآتش کردیا جبکہ پتھراؤ سے ایس پی سمیت کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے ۔پولیس اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ کی تاہم مظاہرین کی تعداد مزید بڑھتی گئی ۔نمائش چورنگی پر پی ٹی آئی کارکنان کے پتھراؤ میںتین پولیس اہلکار زخمی ہوئےتھے۔شارع قائدین پر پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ کے دوران پولیس اہلکار موٹر سائیکل چھوڑ کر فرار ہوگئے ۔ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے ایک معمر شخص کو تھپڑ دے مارا۔ ایک نشریاتی ادارے کی جاری کردہ ویڈیو میں شیخ رشید کو کارکنان میں سے ایک شخص کو تھپڑ مارتے دیکھا جاسکتا تھا ۔جنون اور جبر سے صرف اور صرف عام آدمی یا وہ لوگ جن کے ذرائع آمدن محدود ہیں، وہی متاثر ہوتے ہیں۔

حکومتی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ٹی آئی رہنمائوں نے رابطوں میں درمیانی راستہ نکالنے اور فیس سیونگ کی درخواست کی تھی۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے وفاقی وزیر سردار ایاز صادق سے رابطہ کیا اور مذاکرات کی درخواست کی۔کہا جاتا ہے کہ نون لیگ نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کا معاملہ  نواز شریف کے سامنے رکھا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔جنون اور جبر کا درمیانی راستہ اختیار کرنے پر حکومت کے حامی تیار نہیں تھے۔ حکومت کو یہ بات سمجھنا چاہیے  کہ عمران خان کا سر دست دائو پر کچھ نہیں ہے۔ حکومت کے لیے ہی معاملات باعث امتحان ہیں۔وہ 26 مئی کی صبح ڈی چوک سے بوجوہ واپس چلے گئے۔ پاکستان مسلم لیگ قاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین نے بدھ کے روز ملک کی کشیدہ صورتحال پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے اندر جو موجودہ حالات ہیں اس طرح کے حالات پہلے کبھی نہیں دیکھے، ایسی سنگین صورتحال میں پاکستان کے دو بڑے سلامتی کے ضامن ادارے عدلیہ اور فوج کو مل بیٹھ کر ان مسائل کا مستقل حل نکالنا چاہیے۔ حکومتی طاقتیں اور سیاسی جماعتیں جس طرف جا رہی ہیں اس سے ملک میں افراتفری اور لاقانونیت بڑھے گی، پاکستان کے معاشی حالات انتہائی سنگین ہو گئے ہیں،

بڑھتی قیمتوں سے عام آدمی کا جینا تو پہلے ہی مشکل ہے، یہ نہ ہو خدانخواستہ مرنا بھی مشکل ہو جائے۔ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے پاک فوج اور عدلیہ سے ملک بچانے کی اپیل کردی ہے۔اس سے قبل 11 مئی  کو چودھری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ آج کل سیاست میں فوج کو موضوعِ بحث بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ فوج کا سیاست میں کردار ہونا چاہیے یا نہیں؟ ہنگامی صورتِ حال ہو تو فوج اور حکومت ملکی سلامتی کے لیے اتفاق رائے سے فیصلہ کریں۔

جن بھی سیاسی عناصر کو انتخابات انتخابات کھیلنے کا شوق ہے وہ دیکھیں کہ ایک رپورٹ کے مطابق عام انتخابات 2023 پر 47 ارب 41 کروڑ 73لاکھ روپے خرچ ہوں گے، ٹریننگ ونگ پرایک ارب 79 کروڑ اور 90 لاکھ روپے خرچ ہوں گے۔حکومت نے انتخابی قوانین میں بشمول الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے سابق حکومت کی ترامیم ختم کر دی ہیں۔ نیب کے قوانین میں نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ترامیم کر دی ہیں۔ اخراجات کے تخمینہ کے مطابق بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ پر 4 ارب 83 کروڑ 55 لاکھ روپے خرچ ہوں گے، جبکہ انتخابی فہرستوں پر 27 کروڑ 20 لاکھ روپے کے اخراجات آئیں گے۔ رپورٹ میں یہ ذکر بھی کیا گیا ہے کہ الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور آئی ووٹنگ پر 5 ارب 60 کروڑ 6 لاکھ روپے، آرمی کی خدمات اور سکیورٹی پر 15ارب روپے خرچ ہوں گے۔ 2018میں عام انتخابات پر اکیس ارب روپے خرچ ہوئے تھے ۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

قرضوں پر پلنے والوں اور ہلے ہوئے لوگوں نے آئی ایم ایف سے قرضہ کے حصول کا راستہ یہ اختیار کیا  ہے، پٹرول، ڈیزل،مٹی کے تیل کی قیمت میں 30 روپے فی لٹر اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے، نئی قیمتوں کا اطلاق  بدھ کی رات  12 بجے سے ہوگیا۔وزیر خزانہ نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جب تک پٹرول کی قیمت نہیں بڑھائیں گے، آئی ایم ایف قرض نہیں دے گا۔ پٹرولیم مصنوعات کے لیے عوام پر کچھ نہ کچھ بوجھ ڈالنا ناگزیر ہوگیا، پٹرول پر سبسڈی کا امیر اور غریب دونوں فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس سے قبل پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹاف سطح کے دوحہ میں ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے تھے   جس کی بنیادی وجہ حکومت کا فیول اور بجلی سبسڈیاں واپس نہ لینا تھا ۔اب آئی ایم ایف نے 6 ارب ڈالرز کے پروگرام کو بحال کرنے کے لیے مذکورہ سبسڈیزختم کرنے اور آئندہ بجٹ 2022-23 آئی ایم ایف شرائط کے مطابق پیش کرنے سے مشروط کردیا تھا  تاہم، آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے درمیان مذاکرات جاری رہیں گے۔البتہ آئی ایم ایف پروگرام اب اسی صورت بحال ہوگا جب حکومت پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرے گی اور اب بجلی کے نرخ میں اضافے کے بعد آئی ایم ایف پاکستان کو قرضہ دینے پر آمادہ ہو جائے گا۔ پالیسی سطح کے مذاکرت کی کامیابی کے بعد آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ پاکستان کے لیے 96کروڑ روپے مالیت کی اگلی قسط کی منظوری دے گا۔  آئی ایم ایف اور پاکستان کے مابین 6ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام میں 96کروڑ ڈالر کی اگلی قسط کے لیے ساتویں جائزہ مذاکرات مارچ کے آخری ہفتے سے معطل تھا اور آئی ایف ایف کا مطالبہ تھا کہ پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم ،بجلی کی قیمتوں میں ا ضافہ کیا جائیاور صنعتی شعبے کو ایمنسٹی واپس لی جائے۔ قرض دینے والے مہاجن کی شرائط اپنی ہی ہوتی ہیں لیکن یہ تو دیکھنا قرض حاصل کرنے والے کا کام ہے کہ اس کے اثرات کہاں تک جائیں گے اور کیا ڈالر پر قابو پایا جا سکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button