Columnعبدالرشید مرزا

سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کی رفاقت .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

دور دور تک بارش کے امکانات نظر نہیں آرہے، تفہیم القرآن کی افتتاحی تقریب فلیٹیز ہوٹل میں شروع ہونے والی ہے اور گرمی کی شدت، جیسے ہی تقریب کا آغاز ہوتا ہے، آسمان پر بادل نظر آنے لگتے ہیں، ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوتی ہے، موسم خوش گوار ہوجاتا ہے۔ بڑی بات یہ تھی اس تقریب میں مہمان اس وقت کے معروف قانون دان اے کے بروہی تھے جنہیں دنیا لبرل ہونے کے ناطے سے جانتی تھی، انہیں مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ سے محبت کیسے ہوئی یہ ایمان افروز واقع سن کر آنکھیں پرنم پوجاتی ہیں۔

مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے یہ واضح کیا کہ دور جدید میں قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق کس طرح ایک مثالی جدید اسلامی ریاست تشکیل دی جاسکتی ہے اور کامیاب طریقے سے چلائی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے ایک معروف قانون دان اے  کے بروہی نے چیلنج کیا کہ اگر مجھے کوئی یہ ثابت کر کے دے کہ قرآن کا اپنا ایک دستور اور آئین ہے، میں اسے پانچ ہزار انعام دوں گا،مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے اس کا جواب دیا جس کا اثر اے  کے  بروہی پر کیا ہوا وہ ان کی زبانی سنئے’’حضرات میں ایک بیرونی تعلیم یافتہ قانون دان ہوں میں نے قانون کے مضامین کو اس کے جڑوں سے سمجھا ہے۔ میں نے سید مودودیؒ کا بیان سنا تھا کہ قرآن کو اسلامی دستور کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ میں نے اعلان کیا کہ کوئی قرآن کو قانون کی کتاب ثابت تو کر دے میں اسے پانچ ہزار انعام دوں گا۔ غلام ملک صاحب نے سید کی تحریروں کے ذریعے مجھ پر یہ بات عیاں کردی کہ دراصل قرآن ہی رہتی دنیا تک قانون کی کتاب ہے۔

اے کے بروہی آبدیدہ ہو کر کہنے لگے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھے گا کیا نیک عمل ساتھ لائے میں کہوں گا مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کی رفاقت‘‘  اصل میں مجھے یہ کہنا ہے کہ مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے مغرب سے اُمنڈتے ہوئے نظریات و افکار کا جس انداز سے مقابلہ کیا وہ انداز نادر اور دلکش تھا، جس نے جدید تعلیم یافتہ ذہنوں کا رخ ہی موڑ دیا اور انہیں دائمی رسوائی سے نجات دینے کا نسخہ کیمیا عطا کیا۔اسی لیے فیض احمد فیض کو یہ کہنا پڑا کہ اگر مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نہ ہوتے تو انہیں پاکستان کو کیمونسٹ اسٹیٹ بنانے سے کوئی روک نہیں سکتاتھا۔

مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے کہا کہ میرا عمر بھر کا مطالعہ مجھے بتاتا ہے کہ دنیا میں کبھی وہ طاقتیں زندہ نہیں رہ سکتیں جنہوں نے قلعوں میں پناہ لینے کی کوشش کی۔ میں ان کے اس قول کو اس طرح سمجھ سکا ہوں کہ اگر اسلامی نظام کو صرف مدرسہ، مسجدیا خانقاہوں کی چاردیواری کے اندر محصور کیا گیا تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم آج کے معاشرے میں اذکار رفتہ سمجھے جائیں گے۔ اس لیے اس اسلامی نظام کو مساجد، مدارس اور خانقاہوں سے نکال کر معاشرے کے ہر حصے میں نافذ کیا جانا چاہیے۔علّامہ اقبالؒ اور مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کی رفاقت بھی اسلام کے احیاء کے لیے تھی، علامہ محمد اقبالؒ اس زمانے میں مولانا مودودیؒ کے نام اور ان کی فکر سے واقف ہوچکے تھے۔ الجہاد فی الاسلام پڑھ چکے تھے اور ترجمان القرآن بھی ان کے زیرمطالعہ رہتا تھا۔ چنانچہ بقول چودھری نیاز علی خاں: ’’حضرتِ علامہ کی نظر جوہر شناس بھی سیّد صاحب پر جاپڑی‘‘۔ (صحیفہ لاہور، اقبال نمبر، اکتوبر ۱۹۷۳ء، ص ۲۳)

علّامہ اقبالؒ نے ادارے کی سربراہی کے لیے مولانامودودی ؒ کانام تجویزکیا۔مولانا فرماتے ہیں: ’’۱۹۳۷ء کے آغاز میں ان کا عنایت نامہ ملا کہ مَیں حیدرآباد کو چھوڑ کر پنجاب چلا آؤں‘‘(سیارہ،اقبال نمبر، فروری ۱۹۷۸ء)۔ پھر چودھری نیاز علی نے بھی مسلسل اصرار کیا اورمولانا کو دعوت دی کہ وہ دکن سے ہجرت کرکے لاہور آجائیں۔ چنانچہ فروری مارچ ۱۹۳۷ء میں مولانا مودودیؒ لاہورآئے اور جیساکہ اُوپر ذکر آچکا ہے کہ علامہ اقبالؒ سے ملے اور دوتین نشستوں میں تفصیلی تبادلۂ خیالات ہوا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی مولانا مودودیؒ ،علامہ اقبالؒ اور ان کی شاعری سے بخوبی واقف تھےاور فکری سطح پر بہت قربت محسوس کرتے تھے۔ اب اس قربت میں اور اضافہ ہوگیا۔ مولانا مودودیؒ کہتے ہیں: ’’ان ملاقاتوں میں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میری اور ان کی بہت پرانی واقفیت ہے اور ہم ایک دوسرے کےدل سے بہت قریب ہیں۔ یہاں میرے اور اُن کے درمیان یہ بات طے ہوگئی کہ میں پنجاب منتقل ہوجاؤں اور پٹھان کوٹ کے قریب اس وقف کی عمارات میں، جس کا نام ہم نے بالاتفاق ’دارالاسلام‘ تجویز کیا تھا، ایک ادارہ قائم کروں، جہاں دینی تحقیقات اور تربیت کا کام کیا جائے۔

مجیب الرحمٰن شامی اور مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کی رفاقت بھی اقامت دین کی جدوجہد کے لیے تھی، مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کی محبت میں ہردور میں سرشار رہے جن کی تحریر’’صدی کا انسان‘‘سید کی سیرت کو یوں بیان کرتی ہے۔ مولانا کی وفات کے کچھ عرصے بعد مجھے ان کا چہرہ’’ملاقات‘‘ کے زیر عنوان لکھنے کا شرف حاصل ہوا تھا، ان کی قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر اسے پڑھا کہ بہت سے حاضرین کے لیے یہ نیا تھا۔ اس کا آخری بند کچھ یوں تھا:

’’صاحب تفہیم القرآن، بولیں تو معانی کا اک جہان۔ اٹھیں تو اک طوفان چلیں تو صورت’’عبدِ رحمن‘‘…لکھیں تو’’ترجمان القرآن‘‘کردار میں گفتار میں اللہ کی برہان… شکوۂ اقبالؒ کے قبول کا فرمان… حاضر و موجود سے بیزاری کا اعلان… اس صدی کا انسان… زندگی اک عرصۂ امتحان… موت حیات جاودان
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
تیرے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے

مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے کبھی جھکنا نہیں سیکھا چاہے تختہ دار ہو، ایوب خان کی بربریت اور ہر ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرتے رہے۔ سچ ہے کہ ایک خدا کے سامنے جھکنے والے کو پھر کسی اور کے سامنے جھکنے کی ضرورت نہیں رہتی ۔گویا کہ
مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ اور علامہ محمد اقبالؒ نے مسلمانوں کو ایک نئی صبح کی راہ دکھائی روم، ایران کی فتوحات کا تزکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے، اس لیے غلبہ دین کی جدوجہد سے آج بھی فتح حاصل کی جا سکتی ہے اس جدوجہد و حصہ بنیں
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے

آخر
دل میں ایک کسک ہے کہ مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ سے ملاقات نہ ہوسکی لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ جب بھی مرشد کی رفاقت حاصل کرنی ہو تو تفہیم القرآن کھولتا ہوں، خطبات، تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل یعنی جو جو کتاب کھولتا مجھے سید کی خوشبو آتی ہے۔ مجھے سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے چاہنے والوں کو یہ کہنا ہے کہ دور حاضر کے سیکولر سیاستدان چاہے وہ شریف برادران ہوں یا عمران خان سے میڈیا کے اثرات کی وجہ سے متاثر ہونے کی بجائے مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کی رفاقت محسوس کریں، قرآن اور لٹریچر سے تعلق مضبوط کریں یقین جانیں آپ سے اس ملک کی بقا ہے، آپ نے ہی اسلامی انقلاب برپا کرنا ہے آج بھی مغرب آپ سے ہی خوف کھاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button