Editorial

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ

وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فی لٹر 30روپے اضافہ کردیا  اور نئی قیمتوں کا اطلاق جمعہ کی رات 12 بجے سے ہوچکاہے۔وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا کہ ہم عوام پر مزید بوجھ ڈالیں اور بوجھ ڈالیں تو کتنا ڈالیں،مگر عوام کے اوپر کچھ نہ کچھ بوجھ ڈالنا ناگزیر ہے کیونکہ حکومت کو نقصان ہو رہا ہے۔ اس مہینے کے پہلے 15دنوں میں 55ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، یہ حکومت برداشت نہیں کرسکتی۔ اگر100یا سوا سو ارب اس مہینے نقصان ہوگا تو ہماری سویلین حکومت چلانے کا تین گنا ہے، ایک طرف پوری حکومت چلانے کا ماہانہ خرچ 42 ارب ہے جبکہ پٹرول اور ڈیزل کی مد میں سبسڈی 120 ارب روپے ہے۔ وزیرخزانہ نے بتایا کہ پٹرول کی مد میں فی لٹر 40 روپے سبسڈی دی جارہی ہے اور اِس کا زیادہ فائدہ گاڑی والے اٹھارہے ہیں لیکن وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف غریبوں کے لیے پٹرول میںریلیف کا اعلان کریں گے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے ساتھ جاری معاملات پر کہا کہ حکومت مالی سال 2023 میں بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم نے ایندھن اور بجلی کی سبسڈی واپس لینے کی ضرورت پر زور دیا جو گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دی تھی۔ حکومت، آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے اور پاکستان کو پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے پرعزم ہے۔ حکومت کی طرف سے اعلان کے بعد  پیٹرول کی نئی قیمت 179.86، ڈیزل کی قیمت 174.15، مٹی کے تیل کی نئی قیمت 155.56 روپے جب کہ لائٹ ڈیزل کی نئی قیمت 148.31  روپے ہوگی۔بلاشبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ بڑا اضافہ اور ماضی میں کسی حکومت نے اتنا اضافہ نہیں کیا مگر پوری ایمان داری سے اعتراف کرنا چاہیے کہ ملکی معیشت کو جو چیلنجز اب درپیش ہیں ماضی میں کبھی بھی درپیش نہیں رہے اسی لیے حکومت نے معیشت کو وینٹی لیٹر سے اُتارنے کے لیے یہ مشکل فیصلہ کیا ہے،
ہم ایک روز پہلے تک حکومت سے یہی کہتے رہے ہیں کہ ملک کے مفاد میں مشکل فیصلے لینے سے گریز کریں نہ ہی تاخیر کریں کیونکہ ہم دونوں صورتوں کے اثرات کے متحمل نہیں ہوسکتے ،چونکہ حکومت نے یکمشت 30روپے فی لٹر اضافے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کہیں زیادہ ہیں لیکن حکومت ہر لٹر کے ساتھ قومی خزانے سے پیسے شامل کرکے عام پاکستانی کو ریلیف دے رہی ہے مگر اب معیشت میں اتنی جان بھی باقی نہیں رہی کہ اس کو مزید نچوڑا جائے، زرمبادلہ کے ذخائر اِس کی واضح مثال ہیں کہ ہمیں برادر اور دوست ملکوں سے رقم لیکر اپنے زرمبادلہ کو ظاہر کرنا پڑ رہا ہے۔ بلاشبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ فیصلہ انتہائی ناگزیر تھا اور اِس کے بعد مزید ایسے فیصلے کرنا
پڑیں گے جن کے نتیجے میں معیشت سے بوجھ اُتر کر عام پاکستانی کے کندھے پر منتقل ہوگا مگر اِس سارے عمل میں عام پاکستانی کے معاشی حالات کو مدنظر رکھنے کی ہم بار بار استدعا کرتے رہیں گے جو اِن معاشی فیصلوں کے نتیجے میں مزید پریشانیوں کاشکار ہوگا۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا اور اِس کوفیول ایڈجسٹمنٹ قرار دیا جائے گااور اِس کے نتیجے میں بجلی کے تمام صارفین خواہ وہ گھریلو ہوں یا کمرشل ، سبھی متاثر ہوں گے، ایک طرف پٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے ہرمتوسط گھر کا بجٹ متاثر ہوگا تو بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بھی رہی سہی کسر نکل جائے گی، پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کا کمرشل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گا اور برآمدات کو بھی یقیناً نقصان پہنچے گا کیونکہ لاگت بڑھ جائے گی۔ بلاشبہ حکومت کے اقدامات اِس وقت انتہائی ناگزیر ہیں وگرنہ ہم معیشت کو اِس نازک حالت کے ساتھ مزید لیکر نہیں چل سکتے مگر چند ایسے اقدامات ہیں جن کے ذریعے حکومت سخت فیصلوں پر عوامی ردعمل کو کسی حد تک کم کرسکتی ہے، اول تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ حکمران جماعت کے اپنے بیانات اور دعوئوں کی نفی ہے کیونکہ یہی معاشی ٹیم حزب اختلاف میں بیٹھ کرپٹرول کی قیمت ستر روپے تک لانے کا دعویٰ کرتی تھی اور پچھلی حکومت کو پانچ دس روپے اضافے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتی تھی اور اب اُن کی یہی باتیں لوگ اُنہیں یاد دلارہے ہیں،
ہم بار بار یہ عرض کرتے آئے ہیں کہ سیاست دانوں کو ایسے دعوے سے ہمیشہ گریز کرنا چاہیے جو ناقابل عمل ہو کیونکہ عوام اُن پر یقین کرلیتے ہیں اور پھر وہ سوال بھی کرتے ہیں جیسا کہ اب سوال کیاجارہا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف عام اور متوسط طبقے کے لیے اِس ضمن میں ریلیف کا اعلان کریں گے، ہم سمجھتے ہیں کہ ریلیف کے اعلان کے ساتھ ساتھ حکومت کو انتظامی سطح پر بھی ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جو انتہائی ناگزیر ہیں، کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اعلان کےفوراً بعد عام استعمال کی اشیا کی قیمتیں ازخود بڑھادی گئی ہیں، ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بڑا اضافہ کردیاگیا ہے، ترکاری سے دالوں اور صابن تک سبھی کچھ مہنگا کردیاگیا ہے، حالانکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو بمشکل چوبیس گھنٹے ہی گزرے ہیں لیکن مہنگائی کا طوفان آگیا ہے، اسی صورتحال کا لوگ انتظامی مشینری کی کمزوری کے باعث فائدہ اٹھاتے ہوئے عام آدمی کا معاشی استحصال کرتے ہیں اور ہر وہ چیز مہنگی کردی جاتی ہے جس کا پٹرول اور بجلی سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا، چونکہ ایک جواز مل جاتا ہے اِس لیے لوگ اپنے تئیں مہنگائی کا طوفان لے آتے ہیں اِس لیے ضرورت ہے کہ حکومت انتظامی مشینری کے ذریعے مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کو نشان عبرت بنائے کیونکہ ابھی مزید ایسے سخت فیصلے متوقع ہیں، وگرنہ یہ مافیا عام پاکستانی کو نوچ کھائے گا۔ اگر حکومت عام موٹر سائیکل سوار کو پٹرول کی مد میں ریلیف فراہم کردے تو اِس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ قرین انصاف ہوگا کیونکہ کروڑوں روپے کی گاڑی والا بھی اسی بھائو پٹرول خرید رہا ہے جس بھائو عام موٹر سائیکل سوار خریدتا ہے، اِس لیے دونوں میں واضح تقسیم کرنی چاہیے اور جو بھی ریلیف دیا جائے وہ کم آمدن والے افراد کو دیا جائے،
ہم سمجھتے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو بنیاد بناکر سیاست برائے سیاست اور مخالف برائے مخالفت کی بجائے مفاہمت کی ایسی فضا قائم کی جائے جس کا تقاضا موجودہ حالات کرتے ہیں، معاشی صورتحال کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو بھی مشکل فیصلے کرنا پڑے ایسے ہی فیصلے موجودہ حکومت کو بھی کرنا پڑیں گے کیونکہ معیشت تو ملک کی ہے معیشت بہتر ہوگی تو عام پاکستانی کو اِس کا فائدہ ہوگا اگر معیشت اسی طرح وینٹی لیٹر پر رہی تو یقیناً کوئی بھی پاکستانی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا، ہمیں سری لنکا کے حالات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہاں حکومت نے ملکی معیشت کو پس پشت ڈال کر خوب غلطیاں کیں اور آج اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ بلاشبہ ہماری حکومتوں نے بھی ماضی میں غلطیاں کی ہیں اور اُنہی غلطیوں کا ازالہ کرنے کا وقت ہے اِس لیے ہمیں پیٹ پر پتھر باندھنا پڑے گا، ہم اپنی سیاسی قیادت سے ملتمس ہیں کہ خدارا معیشت کو آئی سی یو سے نکالنے کے لیے متحد ہوجائیں، آپ بھی اپنے پیٹ پر پتھر باندھیں اور عوام کو بھی دکھائیں تاکہ پوری قوم اس حساس معاملےپر ایک پیج پر نظر آئے، ایسا نہ ہو کہ عوام کے پیٹ پر تو پتھر بندھے ہوں لیکن حکومت شاہانہ اخراجات کرکے اُن قربانیوں کو زائل کررہی ہو۔کوئی بھی معاشرہ ہمیشہ مساوات اور برابری کی تقسیم کی بات کرتاہے لیکن ہمارے معاشی حالات برابری کی تقسیم کی قطعی اجازت نہیں دیتے، اِس لیے اشیائے خورونوش سمیت ہر مد میں عام پاکستانی اور صاحب حیثیت افراد میں فرق رکھا جائے ،
موٹر سائیکل والے اور لگژری گاڑی والے پاکستانی میں فرق رکھا جائے کیونکہ دونوں کے وسائل اور مسائل میں زمین آسمان کا فرق ہے، اِس لیے سبسڈی اور ریلیف صرف اُن پاکستانیوں کے لیے مختص کیے جائیں جنہیں فوری ریلیف کی ضرورت ہے، نظریاتی اختلافات اور اُلجھنوں کا شکار قوم کو ایک قوم بنایا جائے اور سبھی مل کر ملک کو اِس مشکل وقت سے باہر نکالیں اور گذارش ہے کہ خدارا عام پاکستانی کی معاشی استطاعت میں اضافہ کریں تاکہ وہ ہمہ وقت سبسڈی کا طلب گار نہ رہے اور سبسڈی معاشی مسائل کا حل بھی نہیں، عام پاکستانی معاشی مسائل سے آزاد ہوگا تو اُس کو پٹرول اور بجلی سمیت کسی مد میں سبسڈی کی ضرورت نہیں ہوگی، مگر حالات یہ ہیں کہ لوگ دو وقت کی روٹی باعزت طریقے سے کمانے اور کھانے کے لیے بھی مشکلات کا شکار ہیں، بجلی، پانی، گیس اور پٹرول جیسی بنیادی ضروریات کے بلوں کی ادائیگی میں عام پاکستانی کی آمدن کا نصف سے زائد خرچ ہورہا ہے جبکہ آمدن کا باقی نصف کچن کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ ہم بار بار یہی گذارش کرتے آئے ہیں کہ عام پاکستانی کو سبسڈی اور سستے بازاروںکا عادی بنانے کی بجائے گراں فروشی ختم کی جائے اور لوگوں کی معاشی حالت بہتر بنائی جائے اسی سے حالات بہتر ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button