Editorial

سیاسی معاملات ،افہام و تفہیم کی ضرورت

وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے کروٹ ہائیڈرو پاور پلانٹ کے ورکرز اور چینی میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے دھرنوں کا دھڑن تختہ کرنا ہوگا، ہم معیشت کو توانا اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیںعمران خان دھرنوں سے کیا پیغام دے رہے ہیں؟
معیشت ڈبو کر اور تیل کی قیمتوں پر بارودی سرنگ بچھا کر دھرنے کی تیاری میں ہے۔وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب سابق وزیراعظم عمران خان نے ملک بھر سے کارکنوں کو اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ اوردھرنے کی کال دی ہوئی تھی اور اسی وجہ سے قریباً دو دن سے صورتحال بتدریج کشیدہ ہورہی تھی، تازہ اطلاعات کے مطابق حکومت نے ملک کے مختلف حصوں میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں تاکہ لانگ مارچ میں شامل ہونے والوں کا راستہ روکا جائے، لانگ مارچ میں شامل ہونے والے افراد اور پولیس کے درمیان تصادم کے واقعات بھی ہوئے ہیں جن میں دونوں اطراف سے افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں اورآخری اطلاعات تک صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی تھی۔ دوسرے صوبوں اور شہروں کا رابطہ جوڑنے والی سڑکیں بھی انتظامیہ کی جانب سے رکاوٹوں کی وجہ سے بند ہیں اور صرف لانگ مارچ کے شرکا ہی نہیں بلکہ بوجہ ایمرجنسی گھروں سے نکلنے والے بھی رکاوٹوں کی وجہ سے پریشان ہیں، کئی مقامات پر مریضوں کو فوری بڑے شہر کے ہسپتال میں منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس گاڑیاں ان رکاوٹوں کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ پارہیں اور کئی عام شہری بھی دوسرے شہر جانے کے لیے سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ عمران خان کو کسی بھی صورت اسلام آباد نہیں آنے دیں گے، پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری کے گھر سے اسلحہ برآمد ہونا خونی مارچ کا ثبوت ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ عمران خان کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب ہوچکا، یہ شخص اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے، راستوں کی بندش سے شہریوں کی مشکلات کا پورا احساس ہے،بڑے قومی مقصد کے حصول کے لیے ایسی تکلیف کوئی حیثیت نہیں رکھتی، دھرنا سیاست یامارچ سے پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔اسی معاملے پر مسلم لیگ نون کی سنیئر رہنما مریم نواز کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اسلام آباد آنے دیں، دیکھتے ہیں ان میں کتنا دم ہے۔ عمران خان احتجاج کی آڑ میں خونی کھیل تماشا کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے اسلحہ اور آنسو گیس کے شیل جمع کررکھے ہیں، ملک کو کسی صورت سری لنکا نہیں بننے دیں گے۔ لاہور میں پی ٹی آئی عہدیداروں زبیر نیازی اور بجاش نیازی کی گاڑیوں سےاسلحہ ملا، یہ نام نہاد لانگ مارچ کا بدصورت چہرہ ہے، ان کے ارادے عیاں ہو چکے ہیں۔ اگرچہ جمہوریت نے ہر پاکستانی کو پُرامن احتجاج کا حق دیا ہے اور سیاسی جماعتیں ہر دور میں اپنا یہ حق استعمال کرتی آئی ہیں مگر جب طاقت کے استعمال کی بات آئے خواہ وہ ایک فریق کی جانب سے ہی کیوں نہ ہو، تو حالات بگڑنے میں دیر نہیں لگتی اور لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں،
ماضی میں ایسے بھی دھرنے اور لانگ مارچ ہوئے جن سے حالات بگاڑ کا شکار ہوئے اور پھر ایک موقعہ پر وہ درمیانی راستہ نکل آیا جو دھرنے یا لانگ مارچ کے آغاز سے قبل ہی افہام و تفہیم کے ساتھ نکل آنا چاہیے تھا مگر یہ نوبت آنے تک عام اور غیر جانبدار شہری معمولات زندگی کی ادائیگی میں قاصر بھی ہوئے اور کئی لوگ جان سے ہاتھ بھی دھوبیٹھے، ہم جمہوری طریقے سے پُرامن احتجاج کے ہرگز مخالف نہیں
مگر چاہتے ہیں کہ معاملات نو ریٹرن تک پہنچ جائیں اور پھر غیر سیاسی کام شروع ہوجائے، آئین و قانون کی بالادستی ہمیشہ مقدم رہنی چاہیے لیکن بہتر یہی سمجھتے ہیں کہ سیاست دان اپنے معاملات کو خود نمٹائیں ،
جب معاملہ سیاست دانوں کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے تو دراصل وہ جمہوریت کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے، غیرسیاسی لوگوں کے ایسے احتجاج اور ناقابل عمل مطالبات کی تو سمجھ آتی ہے مگر ہمارے نزدیک جمہوری قوتوںکو جمہوریت کی تقویت دینے کے اقدامات کرنے چاہئیں اور باہمی معاملات کو اُس نہج تک قطعی نہیں پہنچنا چاہیے جہاں جمہوریت اور سیاست دان کمزور نظر آئیں لہٰذا بحث اور فیصلے پارلیمان کے اندر ہونے چاہئیں، سڑکوں پر نہیں، سیاست دان کہتے ہیں کہ سیاست میں ہمیشہ دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں ہمارے نزدیک سبھی سیاست دانوں کو اپنے دروازے سبھی سیاست دانوں کے لیے کھلے رکھنے چاہئیں اور خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب ملک کو چہار اطراف سے سنگین نوعیت کے چیلنجز درپیش ہوں اور داخلی حالات بھی انتشار اورافراتفری کی بجائے فہم و فراست پر مبنی اجتماعی فیصلوں کا تقاضا کررہے ہوں، سیاست دان ایسے مدبرانہ فیصلوں سے عوام کے لیے اچھی مثال بنیں تاکہ اوپر سے نیچے تک معاشرے میں تنائو اور کج بحثی ختم ہو اور عامۃ الناس کے لہجوں اور رویوں میں ٹھہرائو آئے یوں عدم برداشت بھی ختم ہوگی اور عدم استحکام بھی، مگر شدت سے ایسی شخصیات کی کمی محسوس کی جارہی ہے جو معاملات کوتصادم سے پہلے ہی سُلجھانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ متذکرہ لانگ مارچ کی وجہ سے ملک کے مختلف شہروں میں سیاسی ورکرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان ٹکرائو اور بعض سرکاری املاک کو نقصان پہنچنے کی خبریں حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کو ایچ نائن کے گراؤنڈ میں جلسہ گاہ فراہم کرنے کا حکم دیاہے۔پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایسا پلان دیں کہ مظاہرین پرامن طریقے سے آئیں اور احتجاج کے بعد گھروں کو لوٹ جائیں، یہ نہ ہو جلسے کے بعد فیض آباد یا موٹروے بند کر دی جائے۔ سپریم کورٹ نے اگرچہ پی ٹی آئی کو پُرامن جلسہ کرنے کی اجازت دے دی ہے لیکن واضح رہنا چاہیے کہ پی ٹی آئی کی قیادت اسلام آباد میں تب تک موجود رہنا چاہتی ہے جب تک موجودہ اسمبلیاں ختم کرکے نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوجاتا۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان سے سوال کیا کہ جلسہ کب کرنا ہے؟ بابر اعوان نے کہا کہ ہم آج احتجاجی جلسہ شروع کریں گے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ جلسہ کب تک جاری رہے گا ؟
کیا لامحدود جلسہ ہوگا؟ اس پر بابر اعوان بولے کہ اس بارے میں فیصلہ سیاسی قیادت کو کرنا ہے، ہم نے بتا رکھا ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنا حکم نامہ تبدیل، ترمیم اور واپس بھی لے سکتی ہےاور سپریم کورٹ صورتحال کی کی نگرانی کرے گی ۔سپریم کورٹ کے احکامات اور پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان کے جواب سے بھی بخوبی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حالات بہتری کی بجائے خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور خدانخواستہ اِس کے نتیجے میں ملک و قوم، جمہوریت اور نظام کا ایسا نقصان نہ ہو جس کو ناقابل تلافی کہا جاتا ہے۔ خدارا ماضی کی غلطیوں اور اُن کے نتائج کو سامنے رکھ کر ایسے فیصلے کیے جائیں جو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہوں، قوم انتشار اور افراتفری کی مزید متحمل نہیں ہوسکتی۔ ایک دوسرے کی بات سنیں اور پُرامن حل نکالیں، یہی سب کے بہتر مفاد میں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button