Editorial

 سب سے پہلے پاکستان !

حکمران جماعت مسلم لیگ نون اور اتحادی جماعتیں فیصلہ کرچکی ہیں کہ موجودہ قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرے گی لیکن چیئرمین پاکستان تحریک انصاف وسابق وزیراعظم عمران خان اسمبلیاں توڑ کر فوری طور پر نئے انتخابات کا مطالبہ لیکر آج اسلام آباد پہنچ رہے ہیں، حکومت نے وفاقی دارالحکومت کی اہمیت کی وجہ سے حفاظتی اقدامات مکمل کرلیے ہیں ، پکڑ دھکڑ سے لیکر اسلام آباد کے راستوں کی بندش تک سبھی صورتحال ذرائع ابلاغ کے ذریعے پل پل سبھی کو معلوم ہورہی ہے۔ چونکہ حکمران جماعت اور اِس کی اتحادی جماعتیں اسمبلی کی آئینی مدت پوری کرنے کے حق میں ہیں اِس لیے آج اسلام آباد پہنچنے والوں کا مطالبہ پورا ہوتا نظر نہیں آرہا، پھر ایسا کیا ہوگا جو دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہوگا یا ایک فریق کو قدم پیچھے ہٹانا پڑے گا ایسا کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے لیکن جو خدشات منڈلارہے ہیں وہ تشویش میں اضافہ کررہے ہیں،
سابق وزیراعظم نے اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنا ہوتا تو وہ ملک گیر مہم شروع ہی کیوں کرتے اور اگر موجودہ حکومت نے اُن کا مطالبہ تسلیم کرنا ہوتا تو وہ موجودہ حالات پیدا ہونے سے پہلے ہی تسلیم کرلیتے، پس فی الحال کو ئی ایسا اشارہ نظر نہیں آرہا جس کو دونوں کے لیے قابل قبول سمجھا جائے اور معاملات خدانخواستہ خرابی کی طرف جانے سے پہلے ہی افہام و تفہیم کے ساتھ سلجھا لیے جائیں۔ بلاشبہ ہماری قومی سیاست میں برداشت کا فقدان ہمیشہ سے محسوس کیا جاتا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ عام گلی محلے کی سطح پر بھی اسی عدم برداشت کے نتائج لڑائی، مارکٹائی کی صورت میں برآمد ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے اب یہ ہمارے لیےنئی بات نہیں رہی اور ہم اس کو سیاست کا حُسن سمجھ بیٹھے ہیں ۔ اب یہ عدم برداشت اُس نہج تک پہنچ رہی ہے جس کو ہم شدت پسندی کہتے ہیںاور یہ کسی بھی لحاظ سے قوموں کے لیے قابل قبول نہیں، یہی شدت پسندی اگر وطن عزیز کی محبت میں ہو تو اور بات ہے،
یہی شدت پسندی ہم کرپشن اور معاشرتی برائیوں کے خلاف ظاہر کریں تو معاشرہ کہاں سے کہاں پہنچ جائے مگر بدقسمتی سے یہ شدت پسندی افراد اور افراد کی ریاستی اداروں کے خلاف نظر آتی ہے جو ہر پاکستانی کے لیے ہمیشہ سے تشویش ناک ہے ، جو لوگ اِس شدت پسندی کو خود پر طاری کرلیتے ہیں وہ اصلاح کے کسی بھی پہلو کی طرف راغب ہوتے ہیں اور نہ ہی اُنہیں کیا جاسکتا ہے وہ تبھی واپس لوٹتے ہیں جب اُنہیں اُس طرف مائل کرنے والے کہتے ہیں۔ ہم مذہبی معاملات میں شدت پسندی کے خاتمے کی بات کرتے ہیں کیونکہ ہم نے اِس کا نتیجہ خون خرابہ اور عدم برداشت کی انتہا کی صورت میں دیکھ لیا ہے اور ہمیں اِس کا ایسا تلخ تجربہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی و مذہبی جماعت شدت پسندی کے حق میں ایک بول بولتی نظر نہیں آتی مگر ہماری قومی سیاست میں بھی اب یہ عنصر بڑھتا نظر آرہا ہے کیوں کہ فی الحال اِس کو بُرا نہیں سمجھا جارہا جیسے کبھی دوسرے معاملات میں شدت اور انتہا پسندی کو بُرا نہیں سمجھا جارہا تھا اور جب پانی سر سے گزرا تو ہمیں اس شدت و انتہا پسندی کے خاتمے کا خیال زوروں سے آیا ۔
ہمارا معاشرہ کس کس بنیاد پر منقسم ہے یہ ہم بخوبی جانتے ہیں بلکہ ہم سے زیادہ وہ جانتے ہیں جن کے ہاتھوں میں قوم کی قسمت ہے لیکن پھر بھی ہم اِس تقسیم کوختم کرنے کی بجائے عملاً بڑھاوا دے رہے ہیں، عوام تو
جس طرف اشارہ کریں گے وہ اُس طرف چل نکلے گی مگر کیا ایسے اشاروں کا متحمل پاکستان ہوسکتا ہے؟ کیا موجودہ سیاسی بحران ملک کے داخلی حالات کو معمول کے حالات ظاہر کرتا ہے؟ کیا ملک کے خارجی حالات اِجازت دیتے ہیں کہ ہم بیرونی دشمنوں سے منہ موڑ کر پہلے باہمی اختلافات میں اُلجھیں ؟ اِس وقت معاشی بحران ایسی سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے کہ اِس کا ادراک کرنا نیند اُڑانے کے مترادف ہے، ماہرین معیشت چیخ چیخ کر میثاق معیشت کرنے کی دہائی دے رہے ہیں کیونکہ حالات ایسے سنگین ہیں، ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہے، خزانہ خالی پڑا ہے۔ سٹیٹ بینک نے مہنگائی اور معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں ڈیڑھ فیصد اضافہ کرتے ہوئے نوید سنائی ہے کہ عمومی مہنگائی غیر متوقع طور پر اپریل میں دو سال کی بلند ترین سطح 13.4فیصد تک پہنچ چکی ہے اور دیہی اور شہری علاقوں میں مزید بڑھ کر بالترتیب 10.9 فیصد اور 9.1 فیصد ہوگئی ہے۔
سٹیٹ بینک نے مہنگائی اورعالمی ادائیگیوں کے دباؤ کے باعث شرح سود میں اضافہ کیا ہے کیوں کہ روس یوکرین تنازع اور عالمی سطح پر اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے سے دنیا بھر کے بنکوں کو مہنگائی کا سامنا ہے اور اب سٹیٹ بینک آف پاکستان رواں مالی سال ترقی کی شرح 5.97 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کررہا ہے۔ قومی بینک نے حکومت پر واضع کیا ہے کہ معاشرے کے کمزور طبقے کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے مالی استحکام کی خاطربروقت فیصلے لینے کی ضرورت ہے کیوں کہ روپے کی قدر میں کمی کی ایک وجہ ملک میں جاری غیر یقینی صورتحال بھی ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ13.779 ارب ڈالر ہوچکا ہے تاہم شرح سود بڑھانے سے نمو 3.5 سے 4.5 فیصد ہو جائے گی۔
سٹیٹ بینک نے بھی حکومت کو آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری رکھنے کا مشورہ دیا ہے اور بجلی، پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی واپس لینے کی تجویز دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ معاشی بحران سے بطور قوم ہم کب نبرد آزما ہوں گے جبکہ سیاسی بحران اپنے عروج پر ہے، معاشی ماہرین اور ہمارے مالیاتی ادارے سبسڈی کے خاتمے کی صورت میں کڑوی گولی جلد ازجلد نگلنے کا مشورہ دے رہے ہیں تاکہ معیشت کو وینٹی لیٹر سے اُتار جاسکے لیکن اِس سنگین معاشی صورتحال کو دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود ہم اُس معاملے میں اُلجھے ہوئے ہیں جو کبھی ہم سے سُلجھا ہی نہیں کیوں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اوپر سے نیچے تک عدم برداشت رویوں پر غالب آ رہی ہے ،
سیاسی مخالفین ایک دوسرے سے بات کرنا تو درکنار، ایک دوسرے کی شکل بھی دیکھنے کو تیار نہیں اور یہ روش کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے ، کیا کوئی ہے جو کہے کہ سب چھوڑیں، سب سے پہلے پاکستان، پہلے پاکستان کی فکر کریں جو ہماری پہچان ہے، جس کے گرین پاسپورٹ سے ہم اپنی پہچان ظاہر کرتے ہیں، جس کی سرحدوں کے اندر ہم اطمینان اور چین کی نیند سوتے ہیں، جس کے چشموں کا پانی پیتے ہیں اور جس کی آزاد فضائوں میں سانس لیتے ہیں، کوئی ایسا ہے جو فکر کرے کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا پاکستان آج کس دوراہے پر کھڑا ہے اور کوئی کسی دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں،
آج ملک بھر سے لوگ اسلام آباد کیسے پہنچیں گے اور راستے میں کیا ہوگا، کتنی دیواریں پھلانگی جائیں گی اور کتنی بار چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہوگا، کتنے لوگ کیسے کیسے قانون پامال کریں گے، ہمیں اِس کی فکر نہیں، ہمیں قائد اعظمؒ کے پاکستان کی فکر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button