Column

میثاق معیشت کی اشد ضرورت .. عقیل انجم اعوان

عقیل انجم اعوان

اس وقت صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی ناکام معاشی پالیسیوں کابوجھ مشترکہ حکومت اپنے کندھوں پر اٹھا کر اپنے لیے دن بدن مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ معیشت کو سنبھالنے کے لیے  ایک مشترکہ میثاق معیشت کیا جائے لیکن تحریک انصاف کی طرف سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف سمیت تمام حکومتی ارکان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ منحرف اراکین کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ آیا تو یہی پی ٹی آئی جو پہلے اداروں پر تنقید کررہی تھی اب سپریم کورٹ کے فیصلے کو بہترین قرار دے رہی ہے، یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو۔ حالانکہ اس وقت سیاسی جماعتوں کو بالغ نظری کی ضرورت ہے یعنی اپنے حق میں فیصلہ آئے توزبردست ، مخالفت میں آئے تو اداروں کو متنازع بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔قوی امیدہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں جیسا بھی فیصلہ آئے گا عمران خان اسے قبول کریں گے۔

سیاست میں جوڑ توڑ، بیان بازی، الزام ترشی، یہ سب کچھ چلتا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی معیشت جو اس وقت وینٹی لیٹر پر ہے،  اس کو کیسے بچایا جائے؟ شہباز حکومت کے اقدامات سے لگتا ہے کہ وہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے انتہائی سنجیدہ ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ دوحہ میں مذاکرات شروع کر دیئے ہیں جس کی وجہ سے حفیظ شیخ پاکستان آئے ہیں۔ بادی النظر میں وہ پاکستان کے اگلے وزیر خزانہ ہو سکتے ہیں کیونکہ مفتاح اسماعیل جو حساب کتاب کے ماہر تو ہیں لیکن وہ آئی ایم ایف کی گڈبک میں شامل نہیں ہیں۔ بہرحال چند دن میں  معاملات کھل کر سامنے آ جائیں گے۔ دوسری طرف چین بھی مالی امداد دینے کے لیے راضی ہو چکا ہے۔ اس وقت حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کے لیے 55 بلین کی ادائیگی کی ہے۔ حکومت نے امپورٹ بل کم کرنے کے لیے لگژری آئٹمز پر تین ماہ کے لیے پابندی لگادی ہے۔اس وقت 15ارب ڈالرکی پرتعیش اشیاء پر پابندی لگائی گئی ہے۔
ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے عوام کو بھی قربانی دینا پڑے گی۔ ہماری ایلیٹ کلاس شاید اس پر تیار نہ ہو اس لیے ٹیکس بڑھانے کے بجائے پابندی زیادہ موثر ثابت ہوگی۔ اس وقت کرنٹ اکائونٹ خسارہ قریباً 13 بلین ڈالر ہے اور اگر عوام نے اب بھی حکومت کا ساتھ نہ دیا تو یہ خسارہ مالی سال کے آخر تک17 بلین ڈالرز تک ہوسکتا ہے جو معیشت کی مکمل تباہی کے مترادف ہوگا۔ اس لیے پی ٹی آئی ، دوسری جماعتوں اور حکومت کو ایک میثاق معیشت کی ضرورت ہے تاکہ ملک معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑاہو سکے۔ لیکن عمران خان صرف اپنی اناکی تسکین کے لیے  اسلام آباد کی طرف مارچ کا ارادہ رکھتے ہیں جس کا اعلان انہوں نے اپنے آخری جلسہ میں کیا ہے اور اس کو کامیاب بنانےکے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار ہیں لیکن ابھی انہیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اشارہ نہیں ملا جس کی وجہ سے وہ کچھ تذبذب کا شکار ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی معاشی صورتحال کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہ کر پارہی ہو لیکن عمران خان جو کھیل کھیل رہے ہیں اس سے نبٹنا نہ تو سیاست دانوں کے بس میں ہے اورنہ ہی مقتدرہ حلقوں کے۔ اس کھیل کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ جیسے عمران خان کو کسی طاقتور کی سپورٹ حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ سب کے خلاف کھل کر کھیل رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان کے تمام اداروں اور سٹیک
ہولڈرز کو ایک پیج پر ہونے کی جتنی ضرورت ہے شاید74 سالہ تاریخ میں کبھی نہ تھی کیونکہ سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کے بعد جو کچھ وہاں ہو رہا ہے،  پاکستان اس کا کبھی متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگراس وقت معیشت کو بچانا ہے تو تمام جماعتوں اوراداروں کا  مل بیٹھنا انتہائی ضروری ہے، لیکن عمران خان شاید اس میں سنجیدہ نہیں وہ اپنے بیانیہ سے قوم اور اداروں کو تقسیم در تقسیم کرتے جا رہے ہیں جو ملک کے لیے تباہی کا باعث بنے گا۔ عمران خان کے اپنے جلسوں میں الٹے سیدھے الزامات کے باوجود حکومت اور ادارے اس لیے برداشت کر رہے ہیں کہ وہ ملک میں مزید کوئی انتشارپیدا نہیں کرنا چاہتے۔دوسری طرف یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ اگرشہبازشریف  نے کوئی بڑا فیصلہ نہیں لینا تھاتو حکومت میں کیوں آئے؟ کیونکہ اس وقت شہباز شریف کے پاس تمام آپشنز تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ نون لیگ کے حکومت سنبھالنے سے پہلے عمران خان کی جو مقبولیت تیزی سے کم ہو رہی تھی مگرنون لیگی حکومت کے بعد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کے لیے ایک ایک دن اہم ہے، اگروزیراعظم شہباز شریف نے کوئی بڑا اور سخت فیصلہ نہ لیا تو ملک کودیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شہباز شریف وزیراعظم تو بن گئے ہیں لیکن ان کے پاس فیصلوں کا اختیار نہیں ۔ فیصلہ یا تو لندن میں بیٹھے نواز شریف یا کراچی میں موجود زرداری کر رہے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ نے شہباز شریف کو وزیراعظم اس لیے بنوایا تھا کہ وہ کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ملک کی گرتی معیشت کو دوبارہ کھڑا کر سکتے ہیں لیکن وہ کیاکر سکتے ہیں۔ ان کے ہاتھ پائوں نواز شریف اور زرداری نے باندھ رکھے ہیں اور ان سے امید یہ لگائی جا رہی ہے کہ وہ کوئی بڑا فیصلہ کریں اور جادو کی چھڑی ہلائیں اور پاکستان کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔

جواب دیں

Back to top button