ColumnNasir Sherazi

آوازیں اُسے نہ دو … ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

ماں کی گود اور تعلیمی ادارے صرف شعور اور ڈگریاں نہیں دیتے بلکہ تمیز و تہذیب سکھانے کے علاوہ انسان کو زندگی کے نت نئے پہلوئوں سے روشناس کراتے ہیں، بدلے ہوئے حالات میں یوں لگتا ہے جیسے ڈگریاں صرف فیسوں کی ادائیگیوں کی رسیدیں رہ گئی ہیں۔ ملتان میں حکومت سے بے دخل کیے گئے وزیراعظم کے خطاب سے اِس بات پر مہر ثبت ہوگئی۔ والدین کے لیے لمحہ فکریہ ہے، بہتر ہے آکسفورڈ کی بجائے مقامی مدرسوں میں بچوں کو حصول علم کے لیے داخل کرائیں۔ شاہ محمود قریشی کی مخالف لابی کی بھرپور کوشش تھی کہ ملتان میں کرسیاں خالی نظرآئیں لیکن شاہ جی نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں، انہوں نے مریدوں تک کو پیغام بھجوادیا کہ ہر شخص کی حاضری ضروری ہے۔ سب جوق در جوق چلے آئے، خطرہ تھا کہیں بیعت ہی نہ اٹھالی جائے۔

جلسے کی رونق دوبالا کرنے کے لیے ملک بھر سے محتاط اندازے کے مطابق پانچ ہزار جیب کترے اور مالشیے تشریف لائے، یہ ہر سیاسی جماعت کے جلسے میں جانا اپنا فرض سمجھتے ہیں کچھ کا کام جلسے کے دوران جبکہ کچھ کی ذمہ داریاں جلسہ ختم ہونے کے بعد شروع ہوتی ہیں، جلسے کے بعد سب لوگ تو اپنے آبائی علاقوں کو نہیں لوٹتے، ہزاروں افراد اسی شہر میں رات بسر کرتے ہیں، شہر کے تمام اچھے، بُرے، چھوٹے بڑے ہوٹل بک ہوجاتے ہیں، یوں گلشن کا کاروبار خوب چلتا ہے، کھانے پینے سے لیکر منجی بسترے تک ہر چیز کے نرخ ڈبل ہوجاتے ہیں، ہر جلسے میں انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے موجود ہوتے ہیں، مبادا پھر کوئی ٹک ٹاکر خان کی محبت میں تمام حدود پار نہ کرجائے، اس کے علاوہ پارٹی ورکرز، ووٹرز، سپورٹرز کی ایک خاص تعداد سب کے ساتھ مل کر اسے ہزاروں کا مجمع بنادیتی ہے۔ جیسے ٹیکنالوجی کے ماہر لاکھوں کا جم غفیر ثابت کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اصل امتحان تو دھرنا ہی ہے،
ذرائع بتاتے ہیں دھرنے کے خرچ کے لیے مطلوبہ رقم جمع نہیں ہوسکی، اسلام آباد کی آبادی دس لاکھ ہے، دعویٰ کیاگیا ہے کہ بیس لاکھ افراد جمع ہوں گے، یہ اُسی صورت ممکن ہے اگر تمام اہل اسلام آباد راتوں رات آبادی میں اضافہ کرلیں، اسلام آباد میں صرف ایک لاکھ افرادکو اکٹھا کرنے کے لیے کھانا، پینا، رہنا ، سونا اوڑھنا، بچھونا، ٹینٹ، دریاں، بستر ، تمبو ، قناعتیں، ڈنڈے سوٹے، فرسٹ ایڈ کا سامان، گاڑیاں، پٹرول اور مردو خواتین کے لیے کم ازکم پانچ ہزار واش رومز کا انتظام ضروری ہے۔ اس پہلے مرحلے کا خرچ تین ارب روپے ہے جبکہ ہر روز کا خرچ ہزار روپیہ فی کس کے حساب سے ہی جمع کریں تو کیلکولیٹر سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے، یہ خرچ کئی سو ارب روپے کا ہے۔ چار حلقے کھلوانے اور چودہ افراد کے قتل کا حساب لینے کے لیے دیئے جانے والے دھرنے کا خرچ بھی قریباً اتنا ہی تھا، اس وقت تو میں نے کڑوا گھونٹ پی کردل کھول کرخرچ کیا لیکن اب تو میری اپنی دال روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، مزید براں تاحال نئی اے ٹی ایم مشینیں بھی دستیاب نہیں ہوسکیں۔ بارش ہوگئی تو قبولیت و رحمت سمجھی جائے گی۔ گذشتہ دھرنے میں تو گُڑ اور چنے کھاکر گرم پانی پی کر سر پھڑوانے والے ہزاروں تھے اس مرتبہ وہ نہیں ہیں، وہ جو سرشام آتے تھے اور میوزک پر کمر ہلاکر آرام دہ ہوٹلوںکے مخصوص کمروں میں رات بسر کرتے تھے، ان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے، وہ دھرنے کی توقعات پر کتنا پورا اُترتے ہیں، یہ سب اہم سوالات ہیں جن کا جواب دھرنے کی پہلی رات سامنے آئے گا، ایک خیال خام یہ بھی ہے کہ لانگ مارچ لاہور سے شروع ہوکر گوجرانوالہ پہنچے گا تو نیوٹرل قدموں میں آکر بیٹھ جائے گا، اس مرتبہ کچھ اور ہوگا، ملتان کے جلسے میچں خوشخبری سنائی گئی ہے کہ دھرنا دینے کے لیے پنڈی والوں کے اہل خانہ بڑی تعداد میں آئیں گے، اس کی کوشش بھی کی جارہی ہے کہ اگر وہ تھوڑے بہت آجائیں تو اُن کی وجہ سے شاید لاٹھی چارج اور آنسو گیس سے احتراز کیا جائے، مگر نہیں صاحب، دھرنے اور لانگ مارچ کا حُسن دوبالا کرنے کے لیے یہ سنگھار تو ضروری ہے، قوم کے علم میں اضافہ کرتے ہوئے بتایاگیا کہ بیوروکریسی سب سے زیادہ بزدل ہوتی ہے لیکن اُن کے اہل خانہ بہادری کی داستانیں رقم کرنے کے لیے دوڑے چلے آئیں گے، یہی بات پولیس اہلکاروں اور دیگر سرکاری ملازمین کے اہل خانہ کے بارے میں کہی گئی ہے، اسلام آباد کا ڈی چوک باتوں سے تو لبالب بھر چکا ہے، درحقیقت سرکتنے ہوں گے، سرکاری ڈورن ٹھیک ٹھیک گنتی کرنے کے علاوہ دکھا بھی دیگا، دھرنے میں صرف رات نہیں ہوگی کہ روشنیوںکی چکاچوند میں سب کچھ گڈ مڈ ہوجائے ، دن بھی نکلے گا جو گرم ہونے کے علاوہ ہر گذرتے لمحے کے ساتھ مزید گرم ہوگا، اس گرمی میں ایک نہیں کئی ہزار کے چہروں سے میک اپ اُتر جائے گا، اصل شکل سامنے آجائے گی، دیکھنا یہ ہے کہ گھاٹے کا سودا کس کس کو گوارا ہے۔
فائیو سٹار آراستہ و پیراستہ ڈیزائنر کنٹینر میں قیام و طعام تو پرانی بات ہوگئی، اس مرتبہ عام آدمی کے ساتھ کھلے آسمان تلے مٹی و دھول میں شانے سے شانہ ملاکر چلنا ہوگا، یہ نہیں ہوسکتا کہ قوم خاک چھان رہی ہو اور قائد ایئر کنڈیشنڈ وہیکل میں بیٹھ کر نیو ریاست مدینہ کا نقشہ بنارہا ہو، اب تو ثابت کرنا ہوگا کہ سب برابر ہیں کوئی کسی سے بالاتر نہیں، سوٹے کے نیچے سب کے سر آنے ضروری ہیں۔
لانگ مارچ اور دھرنے میں موسم گرما کے سبب سفری غسل خانے اور سفری بیوٹی پارلر کا انتظام ضروری ہوگا، یہ سہولت میسر نہ ہوئی تو بیشتر شرکا لانگ مارچ کا ارادہ ملتوی کرکے لاہور میں ڈیفنس اور لبرٹی، کراچی میں زمزمہ جبکہ پشاور میں حیات آباد پر ہی دھرنے کو کافی سمجھ کر وہاں ڈیرہ ڈالتے نظر آئیں گے، کوئٹہ اس سعادت سے محروم رہتا نظر آرہا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ، عظیم و بہادر رہنما کی طرف سے لانگ مارچ سے قبل اس اعلان سے مایوسی ہوئی کہ قائد لانگ مارچ و دھرنا کو اگر کچھ ہوگیا تو اُسے انصاف دلادینا، ان کے چاہنے والے اس سوچ میں ڈوبے ہیں کہ وہ تو اس آس پر در بدر ہونے کے لیے ساتھ چلے تھے کہ قائد انہیں انصاف دلائے گا، قوم جس کے شانے پر سر رکھ کر روکر دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا سوچ رہی تھی وہ خود کسی کا شانہ تلاش کررہا ہے۔
گرفتاریوں کے خوف نے اچانک آن لیا ہے، پہلے تو بزعم خود یہ یقین تھا کہ کوئی انہیں گرفتار کرنے کا تصور نہیں کرسکتا کیوں کہ وہ حکومت سے باہر آکر بہت خطرناک ہوچکے ہیں لیکن اب سرکار کے بدلے تیور دیکھ کر اپنی آخری پناہ گاہ، خیبر میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں، ساتھیوں کو اسلام آباد سے دور رہنے کا پیغام دیاگیا ہے۔ اقتدار میں آنے سے قبل دیئے گئے دھرنے کے موقعہ پر پہلی بیگم ساتھ چھوڑ چکی تھی، دوسری سے افہام و تفہیم جاری تھی، بچے کچھ چھوٹے تھے لہٰذا دھرنے میں شریک نہ ہوسکے، اس مرتبہ تو خیر سے بچے جوان ہوچکے ہیں، بیگم سے تعلق استوار ہے، ملک بھر میں ہر ووٹر اور اس کے اہل خانہ کو زور دے کر اس آزادی مارچ میں شامل ہونے کی تاکید کی جارہی ہے، لیکن اپنی بیوی اور بچوں کو اس عظیم مارچ اور دھرنے کا حکم ابھی تک جاری نہیں کیاگیا، انہیں میوزک پسند نہیں یا صرف قوم کے بیٹے بیٹیوں کو نچوانا ہی جدوجہد ہے، ان کی زندگیوں کی کوئی قیمت نہیں جبکہ اپنے بچوں کی زندگی کی حفاظت کی خاطر انہیں فی الحال دوررکھنا ہے، زمانہ اقتدار آیا تو وہ ساتھ ہوں گے مگر کہاں، اقتدار تو بہت دور جاچکا، آوازیں اسے نہ دو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button