بلاول بھٹو کادورہ امریکہ .. روشن لعل
اس وقت پاکستان کو معاشی دلدل سے نکالنے کی کوشش کرنا اپنا سیاسی مستقبل اور سیاسی مفادات کو دائو پر لگانے جیسا کام ہے اسی طرح بیرونی دنیا کے سامنے کوئی موقف پیش کر تے ہوئے پاکستان کو سرخرو کرنے کی کوشش کرنا بھی ایک بہت بڑا اور سخت امتحان ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بحیثیت وزیر خارجہ پاکستان ا پنے حالیہ امریکی دورے کے دوران اس بڑے اور سخت امتحان کے اہم مرحلے سے گزر کر پاکستان پہنچ چکے ہیںاور وہ یہ سطور شائع ہونے تک ایک مزید امتحان کے لیے چین روانہ ہو چکے ہوں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے امریکی حکام سے ملاقاتوں سے قبل نیویارک میں اقوام متحدہ کے تحت منعقدہ عالمی فوڈ سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کی۔ پاکستانی میڈیا نے جس طرح سے بلاول کی امریکی حکام سے ملاقاتوں کو اہمیت دی اس طرح ان کی فوڈ سکیورٹی کانفرنس میں شرکت اور وہاں کیے گئے خطاب کو مناسب کوریج دینا نہ جانے کیوں ضروری تصور نہیں کیا۔امریکی حکام سے ملاقاتوں کی طرح بلاول کافوڈ سکیورٹی کانفرنس میں خطاب بھی بہت اہم تھا۔ پاکستان کے نوجوان وزیر خارجہ نے فوڈ سکیورٹی کانفرنس میں زور دیا کہ انسانوں کی خوراک تک رسائی کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہونی چاہئیں اور یہ رکاوٹیں اسی وقت ختم ہوں گی جب خوراک کی فراہمی، خوراک کی برآمدات پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں گی اور ذخیرہ اندوزی سمیت خوراک کی فراہمی کے سلسلے میں موجود تمام شکوک و شبہات اور قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہوگا۔ بلاول نے وہاں اس بات پر بھی زور دیا کہ خوراک کی بہتر ترسیل کے لیے ٹرانسپورٹ کے نظام سمیت خوراک کی فراہمی کے سلسلہ کے تمام مراحل کو فعال رکھنابھی بہت ضروری ہے۔ فوڈ سکیورٹی کے سلسلہ میں کی گئی اپنی تقریر کے دوران بلاول نے یہ اصرار بھی کیا کہ اقوام متحدہ کے تحت فوری طور پر خصوصی فوڈ ایمرجنسی فنڈبھی قائم کیا جانا چاہیے۔بلاول کی تقریر میں پیش کی گئی مذکورہ سفارشات کو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پاکستان جیسے دیگر ممالک کے مفادات کے تحفظ کے لیے کہی گئی باتیں بھی تصور کیا گیا۔
قبل ازیں عالمی کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہوئے وہ جس دبنگ لہجے میں اپنا موقف پیش کرتے رہے اس کے ثبوت یوٹیوب پر موجود ہیں۔ بلاول کو 2018 میں ورلڈ اکنامک فورم کے ڈی ووس میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کی خصوصی دعوت دی گئی تھی۔ وہاں انہوں نے مختلف پروگراموں میں شرکت کے دوران جس مہذب انداز میں اپنا موقف پیش کیا اس کی نہ صرف پاکستانی بلکہ انڈین میڈیا نے بھی تعریف کی تھی۔ بلاول کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقاریر بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ یاوہ گوئی کی بجائے اپنی تمام تر توجہ ان باتوں پر مرکوز رکھتے ہیں جو وقت کی ضرورت ہوتی ہیں ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بلاول قومی اسمبلی میں وہ باتیں کرتے ہیں جو پہلے کسی نے نہ کی ہوں اور اسی وجہ سے پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ انکے کہے ہوئے کچھ الفاظ یہاں سیاسی اصطلاحات کے طور پر استعمال ہونے لگتے ہیں۔ بلاول جس طرح قومی اسمبلی میں خطاب کرتے رہے یا جس انداز میں انہوں نے ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کے دوران اپنے موقف کا اظہار کیا ، اس کے برعکس حالیہ دورہ امریکہ کے دوران وہ ایک مختلف بلاول نظر آئے۔ بلاول کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران ایسا لگا جیسے وہ اپنا موقف پیش کرنے کے لیے لفظوں کا چنائو انتہائی احتیاط سے کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بلاول اگر شعوری طور پر لفظوں کے چنائو میں احتیاط برت
رہے تھے تو ان کے اس عمل کو قابل تحسین تصور کیا جانا چاہیے کیونکہ ایسا کام تو وہی نکتہ رس انسان کر سکتا ہے جسے احساس ہو کہ موچی گیٹ پر تقریر کرنے اور کسی عالمی سیمینار میں خطاب کرنے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اس طرح کا باریک بین انسان ہی بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے کہ بین الاقوامی فورم پر فراہم ہونے والے مواقع کو مقامی فورم پر دستیاب ہونے والے وقت سے کس حد تک مختلف انداز میں استعمال کرنا چاہیے۔ بلاول نے امریکہ میں شاید اس احساس کے تحت بھی نپے تلے رویے کا مظاہرہ کیاکہ وہ جس ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں اس کے متعلق بیرونی دنیا میں کس قسم کے جائز یا ناجائز شکوک شبہات پائے جاتے ہیں۔ شاید اسی احساس کی وجہ سے بلاول نے سابق پاکستانی وزیر خارجہ کی طرح امریکہ میں کوئی ایسی بڑھک نہیں ماری جس کا بعد ازاں دفاع کرنا مشکل ہو جائے۔