ColumnM Anwar Griwal

ذرا ناران تک ! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

گرمی کی شد ید لہرنے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، ہر طرف سے ہائے وائے کا ہنگامہ تھا ، چرند پرند بھی گرمی سے بے حال و بے زار اور پریشان تھے،چولستان خشک سالی کاشکار ہو رہا تھا ، جانور مررہے تھے ۔ چولستان کے کنارے آباد شہر بہاول پور سے ہم گوجرہ کے لیے نکلے کہ بھتیجے ڈاکٹر ایازشادی کے بندھن میں بند ھ رہے تھے، یہ الگ کہانی ہے کہ شدید گرمی کے موسم کا شادی کے دنوں کا انتخاب کیونکر کیا گیا۔ یہ تقریب سعید بھگتانے کے بعد مزید آگے جانے کامنصوبہ پہلے ہی تیار ہو چکا تھا ۔ اسلام آبادمیں ایک شب بسری کے بعد اگلے روز ناران کے لیے روا نہ  ہوئے تو دل و دماغ میں تازگی اور ٹھنڈک کا احساس تھا ، تروتازہ تصورات کے ساتھ عازم سفرہوئے پہلی خوشی  اوراطمینان یہ تھا کہ راستہ خوب صورت بھی ہے ، خوش گوار بھی اورخوش اطوار بھی ہے۔ سڑک ہموار، سبزہ چہار اطراف اور موسم میں نمی کا احساس ۔

سب کچھ ویسے ہی پایا جیسےسنا ، سوچا اور دیکھا تھا ۔اب اسلام آباد سے نکل کر ہزارہ موٹر وے کی سہولت نے سیاحوں کے لیے بہت آسانی پیدا کردی ہے ، تاہم مانسہرہ میں کچھ دقت ہوتی ہے، اس دقت کی شدت میں پہلے اور بعد والی سڑک سے کمی آجاتی ہے ۔ بالاکوٹ میں چونکہ 2005  کے بڑے زلزلے میں بے حد تباہی پھیلی تھی، جس کی وجہ سے وہاں بہت سی عمارات دوبارہ تعمیر کی گئی ہیں، شہر میں موسم اگرچہ بہت سہانا نہیں ہوتا مگر دریائے کنہار کاجوبن اور شہر کی خوبصورتی اپنی جگہ موجود ہے۔ کوئی بالا کوٹ سے گزرے اور شہدائے بالا کورٹ کو سلام پیش نہ کرے ممکن نہیں ۔ ہم وقت کی کمی وغیرہ کی وجہ سے شاہ اسماعیل شہیداو رسید احمد شہید کے ہاں حاضر تو نہ ہو سکے مگر گزرتے ہوئے انہیں بہت یاد کیا اور انہیں سلام عقیدت پیش کیا ۔
بالاکوٹ سے ابھی گزرے ہی تھے کہ تیز ہوا نے ہمارا استقبال کیا ، ہوا کے ساتھ ہی گرجتے برستے بادل پہنچ گئے اور بارش شروع ہو گئی ، ایک طرف سرسبزپہاڑ ، دوسری طرف دریائے کنہار او راو پر سے بارش ۔یہ منظر  اس لیے بھی منفر داور مختلف تھا کہ ہم لوگ شدید ترین گرمی کے علاقے سے آئے تھے ۔اس بارش کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کرگرمی کا تصور دم تو ڑ گیا ، دوسرا یہ کہ درخت اور پہاڑبارش سے دھل گئے اور سبزے پر نکھار آ گیا ۔ سڑک بھی ایسی ہے کہ میدانی علاقے کا عام آدمی بغیر پریشانی اور کسی مشکل سے گاڑی چلا تا جائے ۔ ہم لوگ سفر کرتے گئے ، آبشا روں کے انتظار میں آگے بڑھتے گئے ،برفیلی چوٹیوں کو دیکھنے کی خواہش میں سفر جاری رہا۔ کیوائی کے مقام پر کہ جہاں سے سیاح لوگ شوگراں اورسری پائے وغیرہ کے مزید خوبصورت اور ٹھنڈے مقامات کے لیے مزید چڑ ھائی پر جاتے ہیں ،
آبشارموجود ہے ، اسی آبشار پر کیا موقوف کہ جتنے  جھرنے اورآبشاریں دکھائی دیں، سب پر مافیا نے قبضہ جما رکھا ہے ، آبشا رکے قدرتی ماحول کو انہوں نے مصنوعی بندوبست کے ساتھ کمرشل بنایا ، اس کو کچھ پھیلائو دیا، سیڑھی کی طرح اس کی درجہ بندی کی، پانی اوپرسے نیچے درجہ بدرجہ گرتا ہے اور آبشار کا منظر نامہ تشکیل پاتا ہے، مگرافسوس کہ ہر درجہ پر قبضہ گروپ نے چارپائیاں اور کرسیاں وغیرہ رکھ کر را ہگیروں کو بیٹھنے اور کھانے پینے کی پیش کش کر رکھی ہے ۔لوگ جوتے اُتار کر بیٹھتے ہیں ، ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور منہ مانگے دام کھانے پینے کی اشیا کے دیتے اور اپنے تئیں خوش ہو کر سفر جاری رکھتے ہیں ۔اگر یہ مافیا اور قبضہ گروپ ان جھرنوں اور آبشاروں پراپنی لالچ اور ہوس کے جال نہ بچھائے تو یہ خوبصورت ترین مناظر دیکھنے کے لیے مسافر یہاں گھنٹوں رکے ر ہیں اور مناظر فطرت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے رہیں ۔ کیونکہ یہ کمرشل بندوبست کسی بھی جھر نے یا آبشار کے اطراف میں بھی کیا جاسکتا ہے ۔
کاغان سے ناران تک کا راستہ نہایت درجے خراب اورخستہ ہے ، چونکہ اس راستے میں ایک عددڈیم زیر تعمیر ہے ، جس کی وجہ سے باقی سڑک کی تکلیف بھی انسان کویاد نہیں رہتی،کیونکہ ہر درددل رکھنے والا پاکستانی جب کسی جگہ ترقیاتی کام ہوتے دیکھتا ہے تو دل سے دعا دیتا ہے ، کہ یا اللہ ! تیرا شکر ہے ، یہ پاکستان یونہی ترقی کرتا رہے مگر جب کسی جگہ ڈیم وغیرہ بننے کی خبر سامنے آتی ہے تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے ، خوشی ہو اہو جاتی ہے ، دعاؤں میں اضافہ ہو جاتا ہے ، اللہ کرے یہ ڈیم بھی جلدمکمل ہو کر پاکستانی کی خوشحالی میں اپنا کردارادا کرے اور یہاں سڑک بھی بہترین تعمیر ہو کہ سیاحت کو مزید فروغ ملے ۔ جنت نظیر مناظر سے لطف اٹھاتے ہم شام کونا ران پہنچے تو شدید سردی نے ہمارا استقبال کیا ، اللہ تعالی کی شان ، کہ شدید ترین گرمی سے آئے اور شدید سردی کا سامنا کرنا پڑا ، یہ تو اندازہ تھا کہ موسم خوشگواراورٹھنڈا ہو گا مگر یہ تصور نہیں تھا کہ ٹھنڈک سے یہ حال ہو جائے گا۔اسے غنیمت سمجھ کر قبول اور برداشت کیا ۔ اس دوران خبر آئی کہ اسلام آبا دمیں بھی بارش نے گرمی کی شدت پر پانی ڈالا ہے ، محکمہ موسمیات نے مزید پیش قدمی کرتے ہوئے خوشخبری دی کہ پنجاب بھر میں بھی آئند ہ چند روز میں بارش آئے گی اور گرمی کے توڑ کا اہتمام ہوگا ۔
ناران سے آگے نکلتے ہی دوسری دنیا سے واسطہ پڑتا ہے، حسین ترین مناظر دیکھتے ہی انسان سبحان اللہ کا نعرہ بلند کرتا ہے ، قدم قدم پر نئے مناظر لمحہ لمحہ دلکش صورت حال، دریا، برفیلی چوٹیاں، چھوٹے چھوٹے گلیشیئر،جھرنے اور آبشاریں یوں دعوت نظارہ دیتی ہیں ، کہ ایک ایک منظر کو دیکھتے گھنٹوں گزار دیئے جائیں۔ درخت تو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں عام ہیں مگر سرسبز پہاڑوں کے لیے یہی خطہ مخصوص ہے ، پہاڑوں پر سبزے کا قالین بچھا نگاہوں کو بھا تا ہے۔ ناران جائیں اور جھیل سیف الملوک کا ذکر نہ ہو یہ بھی ممکن نہیں، جھیل کے ذکر کے ساتھ ہی قبضہ مافیا کا ذکر بھی ضروری ہے کہ صرف جیپوں پرہی وہاں تک جایا جا سکتا ہے ، سڑک بنے گی، نہ بننے دی جائے گی، نہ کوئی حکومت یہ بنا سکے گی ۔اگر حکومت چاہے تو جیپ والوں کوم تبا دل روزگار دے کر یہاں سڑک بنائی جاسکتی ہے مگر ملکی اور عوامی مفادکو دیکھتا کون ہے ؟ بہر حال پاکستان کا یہ خطہ بلاشبہ جنت نظیر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button