Editorial

معاشی امورپر فوری فیصلوں کی ضرورت!

 پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) کے درمیان مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کو پاکستان کی سیاسی صورتحال سے جوڑاجارہا ہے کہ اسلام آباد میں سیاسی حالات ہی مذاکرات کے نتائج کا تعین کریں گے۔ معیشت کی صورتحال کو بہتر بنانے کے جن بڑے اور سخت فیصلوں کی فوری ضرورت ہے بظاہر حکمران جماعت یہ فیصلے لینے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتی ہے اور حکمران جماعت کے بعض سنیئر ارکان بھی بغیر واضح حمایت کے، یہ فیصلہ لینے سے گریزاں ہیں کیوں کہ معیشت سے جڑے یہ فیصلے عامۃ الناس سے جڑے ہیں اور حکومت کسی بھی صورت عوام کو معاشی لحاظ سے مزید آزمائش میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی ، یہی وجہ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ابتک معیشت کے لیے فوری توجہ طلب امور تاخیر کا شکار ہورہے ہیں، ذرائع ابلاغ کے مطابق سیاسی قیادت سے منظوری ملنے میں تاخیر کی وجہ سے وزارت خزانہ کو بجٹ خسارے کے اعداد و شمار پر اتفاق کر نا مشکل ہو رہا ہے جس کا بر اہ ر است انحصار بجلی اور ایندھن کی سبسڈی کے بارے میں کسی بھی فیصلے پر ہے کیوں کہ آئندہ مالی سال میں بجلی کے ٹیرف میں مطلوبہ ایڈ جسٹمنٹ اور اس فرق کو پُر کرنے کے لیے بجٹ سبسڈی کے معاملے پر بھی ابہام ہے ۔بجٹ خسارے ،
محصولات کے ہدف ، بجلی کی سبسڈ ی واپس لینے کے منصوبے اور مہنگائی واقتصادی ترقی کے تخمینوں پر اختلاف پایا جاتا ہے اور یہ اختلاف صرف اسی صورت میں دور ہو سکتے ہیں جب فیول پر سبسڈی اور اگلے مالی سال کے ٹیکس اقدامات کے بارے میں صورتحال واضح ہو جائے مگر ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہورہی ۔ حکومت کی معاشی ٹیم اپنی قیادت کی طرف سے بڑی منظوری ملنے کا انتظار کرتے کرتے گذشتہ روز دوحہ روانہ ہوچکی ہے ۔ ایک روز قبل ہی ایوان صنعت و تجارت کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اگلی حکومت کے لیے جال بچھایا، عدم اعتماد کے ڈر سے پٹرولیم قیمتیں سستی کردیں، نئی سرکار کو سرمنڈواتے ہی اولے پڑے، اب مشکل آن پڑی ہے تو پھر قربانی دینا پڑے گی۔ لاڈلی حکومت اور لاڈلے کو مقتدر ادارے نے 75سالہ تاریخ میں مثالی سپورٹ دی۔ ایسی ہماری حکومت کو 30 فیصد سپورٹ ملتی تو پاکستان راکٹ کی طرح اوپر جارہا ہوتا اور اب آپ کے سامنے سب کچھ ہے۔
بلاشبہ ملک کی معاشی حالت ایسی ہے کہ سخت فیصلوں کے بغیر اس بحران سے نکلنا ممکن نہیں اور ہم معاشی بحران پر بات کرتے ہوئے بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ قومی قیادت اِس نازک موڑ پر تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر فیصلے کرے اور سبھی خلوص نیت سے
اپنا اپنا حصہ ڈالیں، یہ وقت پیٹ پر پتھر باندھ کر مستقبل بچانے کا ہے ،اسی لیے سیاست ایک طرف معیشت کو بچانے کے لیے مشکل فیصلے کریں اور ان پر عمل درآمد بھی خلوص نیت کے ساتھ کیا جائے۔ ریاست کا سربراہ کاروباری حضرات سے کہنے پر مجبور ہے کہ خدارا حکومت کو حل بتائیںکہ اِس بحران سے کیسے باہر نکلیں،
اِس سے بھی معاشی صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔حکومت کی اتحادی جماعتوں نے معیشت کے لیے سخت فیصلوں میں حکومت کا پورا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے اور اس کے بعد حکومت نے بعض درآمد اشیا کی درآمد پر پابندی یا ٹیکس میں اضافے جیسے اقدامات اٹھائے ہیں یعنی  ایک دورانئے کے لیے لگژری آئٹمز پر پابندی عائد کی گئی ہے تاکہ ڈالرکی قیمت قابو میں آسکے، اول تو ہم ان لگژری اشیا کی درآمد کے ہمیشہ سے مخالف رہے ہیں کہ جس قوم کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہو اِس قوم کی محدود آبادی کے لیے لگژری اشیا کی فراوانی ظلم سے کم نہیں، ملک کو معاشی استحکام کی ضرورت ہے ہم کہنے پر مجبور ہیں کہ حکمران اپنے پیٹھ پر پتھر باندھیں اور قوم کو بھی دکھائیں کہ ہم نے اپنے حصے کا کام کرلیا ہے، آپ بھی کریں۔ موجودہ حکومت معیشت کے لیے سخت فیصلے کیوں نہیں کرپارہی کیوں کہ اتحادی جماعتوں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور میں سرفہرست ہی روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی ہے اور بلاشبہ یہ سیاسی جماعتیں اپنے اقتدار کے ادوار میں عوام کو کسی نہ کسی صورت میں ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات کرتی آئی ہیں خواہ معاشی حالات کیسے بھی تھے، اگرچہ اِس وقت اتحادی جماعتیں وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کو مشکل فیصلوں میں ساتھ دینے کی یقین دہانی کراچکے ہیں مگر پھر بھی حکومت کو شاید وہ چھتری میسر نہیں آرہی جس کی اُسے فیصلوں کے بعد یقیناً ضرورت پیش آئے گی مگر کیا کریں،ہمیں مشکل آن پڑی ہے تو پھر قربانی دینا پڑے گی اور پوری قوم کو قربانی دینا پڑے گی۔غریب پاکستانیوں کی حالت زار دیکھیں کہ لوگوں کے پاس خوراک کے لیے پیسے نہیں، ادویات کی قیمتیں کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہیں،
پٹرولیم مصنوعات اور توانائی کے دیگر ذرائع بہت مہنگے ہوچکے ہیں اور حکومت قومی خزانے سے پیسے شامل کرکے لوگوں کو ریلیف فراہم کررہی ہے اب معیشت کو کھڑاکرنے کے لیے ریلیف فراہم کرنے والے تمام دروازے بتدریج اور بالترتیب بند کرنا پڑیں گے، مگر عوام کی حالت زار اور ان سخت فیصلوں پر سیاسی ردعمل کا کون سامنا کرے گا؟ مگر یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں ہم نے معیشت کے حوالے سے جتنی بھی غلطیاں کرنا تھیں خوب جی بھر کرلی ہیں، اب اگر ہم اکٹھے ہو کر بطور قوم دن رات محنت کریں گے تو ہی اگلے پانچ سے دس سال میں ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہے ، کیونکہ ملک تب بنتے ہیں جب قومی بقاء کے معاملے پر سب ایک ہوتے ہیں۔ تمام سٹیک ہولڈرز معیشت کے
لیے ایک میز پر آئیں اور خلوص نیت و دل و جان سے ایسے فیصلے کریں جو ہمیں بحران سے نکالیں اور جلد ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button