Ali HassanColumn

منحرفین کے بارے میں تشریح … علی حسن

علی حسن

پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کی تاریخ پرانی ہے لیکن اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں نے کبھی جمہوریت کے استحکام کے لیے اپنی ذمہ داری سنجیدگی سے پوری نہیں کی بلکہ سیاسی جماعتوں نے تو قوانین کو اپنے مفادات میں ہی استعمال کیا۔ آئین میں دی گئی ڈیفیکشن کلاز کو مستحکم کرنے کی بجائے اسے ’’ہر ضرورت مند ‘‘ نے کمزور کیا تاکہ جس پارٹی کے ٹکٹ پر وہ منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچے ،اس سے انحراف کی صورت میں انہیں ہر ممکن تحفظ دینے کی کوشش کی گئی۔ وجہ صاف ظاہر رہی ہے کہ انحراف کرنے والے اکثر حکومتی پارٹی کی حمایت میں ہی اپنے ووٹ دیتے ہیں۔ انحراف کے قانون کی پکڑ سے محفوظ رہنے کے لیے فارورڈ بلاک بنانے کی رسم بھی چلتی رہی ہے۔ حالانکہ یہ طریقہ کار قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہی قرار دی جاسکتی ہے۔ یہ سارا کھیل کسی نظریہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذاتی مفادات کی تابع رہا ہے۔ ایسے لوگوں پر سیاست کے دروازے ہی کیوں بند نہیں کئے جا سکتے؟ جب وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو متحدہ حزب اختلاف نے تحریک انصاف کے کئی اراکین کی حمایت بھی حاصل کرلی ۔ اس حمایت کے پس پشت معاملہ کیاتھا، یہ تو جتنے منہ اتنی باتیں تھیں۔ اسی معاملہ پر صدر پاکستان عارف علوی نے منحرف اراکین سے متعلق آئین کے آرٹیکل 63

اے کی تشریح کے لیے ایک ریفرنس سپریم کورٹ میں داخل کیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ اگرپارلیمنٹ ہی جمہوری قدروں اور اخلاقی حدود کا خیال رکھتی تو یہ نوبت ہی نہیں آتی کہ انحراف کرنے والے اراکین کو اسلام آباد میں سندھ ہائوس میں پناہ دی جاتی یا لاہور کے ہوٹلوں میں چھپایا جاتا۔ اس ملک میں سیاسی جماعتوں کا صرف اور صرف یہی خیال ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ حکومت پر قابض رہیں یا حکومت کرنے والی سیاسی جماعت کو کوئی بھی حربہ اختیار کر کے گرادیں۔ ماضی میں ہوتا آیا ہے کہ پارٹی سے اختلاف رکھنے والے اراکین پارٹی میں فارورڈ بلاک بنانے کا دعویٰ کر کے اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دیتے رہے ہیں۔اس طرح وہ جمہوریت کی خدمت نہیں کررہے ہوتے۔ عدالتی فیصلے میںکہا گیا کہ اگر کوئی منحرف رکن پارٹی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتاہے تو وہ ووٹ، عدم اعتماد، آئین میں ترمیم ، منی بل میں شمارنہیں ہوگا۔آرٹیکل 17سیاسی جماعتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے اپنی جماعتوں کو ایسے کلب بنا رکھا ہے جن میں جس کی جب مرضی آئے ایک دروازے سے پارٹی میں داخل ہو جائے اور جب مرضی آئے دوسرے دروازے سے نکل جائے۔ آنے اور جانے والوں کا کوئی نظریہ، اصول نہیں ہوتا بلکہ اخلاقی جواز بھی نہیں ہوتا۔ منحرفین کو بھی اندازہ تو ہو ہی گیا ہوگا کہ عام طور پر لوگ ان کے اس رویہ کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ منحرفین کی تلاش اکثر حکمران سیاسی جماعتوں کو اسی وقت ہوتی ہے جب بر سر اقتدار جماعت دو تہائی اکثریت نہیں رکھتی ۔ جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے اختلافی فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 63 اے میں دیے گئے نتائج کافی ہیں، کوئی انحراف کرے توڈی سیٹ ہونے کے بعد اس کی نشست خالی تصورہوگی۔آئین پاکستان پارلیمانی جمہوریت سے متعلق مکمل کور فراہم کرتا ہے اور یہ رکن قومی اسمبلی کا حق نہیں ، یہ سیاسی جماعت کا بنیادی حق ہے کہ رکن جماعت کی پالیسی کے مطابق فیصلہ کرے۔ صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں 58 دن تک زیر سماعت رہا۔ سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا کہنا تھاکہ سپریم کورٹ نے عوام کے ووٹ بیچنے والوں کے ووٹ رد کردیے، اب عدالت عظمیٰ سے درخواست ہے کہ وہ شریف فیملی کے خلاف کرپشن کیسز خود سنے۔

وزیراعظم شہباز شریف کو اتحادی جماعتوں نے سخت فیصلوں پر ساتھ دینے کی یقین دہانی کروادی ہے اور اِس اجلاس کے دوران آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی گفتگو ہوئی جبکہ اتحادی جماعتوں نے عزم ظاہر کیا کہ وہ پنجاب میں ممکنہ سیاسی بحران سے نمٹنے کو تیار ہیں۔اجلاس کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر فوری قانونی رائے لی جائے۔ اس اجلاس میں آئندہ الیکشن کے لیے انتخابی اصلاحات جلد مکمل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

ایک طرف سپریم کورٹ آرٹیکل کی تشریح کر رہا ہے تو دوسری طرف اپنے اقتدار میں آنے کے سات آٹھ روز کے اندر ہی حکومت نے سیاستدانوں اور بیورو کریسی کے خلاف نیب اختیارات تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ذرائع کے مطابق کرپشن کے نام پر نیب کارروائی کے دائرہ کار میں تبدیلی کے لیے نیب آرڈیننس میں 31 ترامیم تیار کرلی گئیں۔ اختیارات میں تبدیلی کے بعد کرپشن مقدمات میں نااہلی 10 کے بجائے 5 سال کے لیے ہوگی، 5 سال بعد الیکشن لڑا جاسکے گا۔ سوال یہ ہے کہ نا اہلی دس کی بجائے پانچ سال کیوں، کیوں نہیں تا حیات نا اہلی۔ کسی خائن ، بدعنوان شخص کو الیکشن لڑنے کا موقع کیوں دیا جائے۔ آرڈیننس میں تبدیلی کے بعد نیب کا ملزم کو گرفتار کرنے کا ا ختیارختم کردیا جائے گا اور عدالتی منظوری کے بعد ہی نیب ملزم کو گرفتار کرسکے گا۔جو تجاویز تیار کی گئی ہیں ان کے مطابق 5 سال سے زائد پرانی ٹرانزکشن یا اقدام کے خلاف نیب انکوائری نہیں کرسکے گا، ملزم کے بجائے نیب کو ثبوت فراہم کرنا ہوگا، ورنہ انکوائری شروع نہیں ہوسکے گی۔ وزیراعظم، کابینہ ارکان اور کابینہ کمیٹیوں کے فصلوں پر نیب کارروائی نہیں کرسکے گا۔

ترامیم کی منظوری کے بعد کرپشن کیس میں سزا پر اپیل کا حق ختم ہونے تک عوامی عہدے پر فائز رہا جاسکے گا۔ یہ ساری ترامیم ایسی ہیں جو بدعنوانی کے مرتکب افراد کے لیے ہی فائدہ مند ہوگی۔ اس سے تو بہتر یہ ہے کہ نیب کے قانون ہی کو ختم کر کے خائن اور بدعنوانی کرنے والوں کو کھلی چھٹی ہی کیوں نہ دے دی جائے۔ نیب کے اختیارات میں کٹوتی کے علاوہ وفاقی حکومت نے چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) جسٹس (ر) جاوید اقبال کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔ نیب ترمیمی آرڈیننس کی میعاد 2 جون کو ختم ہورہی ہے، جس میں موجودہ چیئرمین نیب کو اگلے چیئرمین کی تعیناتی تک کام جاری رکھنے کی شق شامل کی گئی تھی۔ جب آرڈیننس ختم ہو جائے گا تو موجودہ چیئرمین نیب اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکیں گے۔ جسٹس(ر) جاوید اقبال عارضی انتظام کے تحت اس وقت بطور چیئرمین نیب کام کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت میں شامل تمام جماعتوں کو نیب سے یہ شکایت رہی ہے کہ اس نے سابقہ حکومت کے اشاروں پر حکومت مخالف سیاسی رہنمائوں کو مختلف حربے ا ختیار کرتے ہوئے نہ صرف مقدمات میں پھنسایا بلکہ انہیں قید میں بھی رکھا گیا۔

سا بق وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ اب عدالت عظمیٰ سے درخواست ہے کہ وہ شریف فیملی کے خلاف کرپشن کیسز خود سنے۔ موجودہ حکومت میں شامل رہنمائوں کو نیب کو بے اثر کرنے اور انتخابی اصلاحات کرنے کی جلدی ہے۔ بظاہر یہ لوگ انتخابی اصلاحات بھی وقتی مفادات کے لیے کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اگر سیاست دان اور سیاسی رہنماء پاکستان میں جمہوریت کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو وقتی فائدوں کواپنے ذہنوں سے نکال کر مستقبل کے فائدوں کے بارے میں سوچیں تو بہت ہی بہتر ہوگا اور ملک کی خدمت ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button