Editorial

وزیراعظم کا معاشی چیلنجز پر قابو پانے کا عزم

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ لگژری آئٹمز کی درآمد پر پابندی کے فیصلے سے ملک کے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو گی۔ہم کفایت شعاری اپنائیں گے ۔مالی طور پر مضبوط افراد کو اس کوشش میں تعاون کرنا چاہیے  تاکہ کم مراعات یافتہ طبقہ کو وہ بوجھ نہ اٹھانا پڑے جو پی ٹی آئی کی حکومت نے اُن پر ڈالا ہے۔ہم عزم اور لگن کے ساتھ مل کر چیلنجوں پر قابو پا لیں گے۔ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے پارٹی رہنماؤں کے ساتھ معاشی و سیاسی امور پر مشاورت کی۔
ایک روز پہلے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے پابندی کی لپیٹ میں آنے والی اشیا کی تفصیلات اور اُس سے متعلق فیصلوں سے آگیا اور ساتھ ہی واضح کیا کہ لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی کے نفاذ کے بعد اِن کی مختلف ذرائع سے سمگلنگ کے خدشے کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی حکومت نے ٹھوس اقدامات کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پابندی کو فیصلے پر من و عن عمل درآمد کرایا جاسکے۔ بلاشبہ ملک کے معاشی حالات بہت بدتر اور خطرناک نہج تک پہنچ چکے ہیں اِن سے نکلنا قومی سطح پر اجتماعی کوششوں کے بغیر قطعی ممکن نہیں ،
سیاسی تفریق کے بغیر سب کو اکھٹا ہونا پڑے گا وگرنہ یہ معاشی بحران ٹلنے والا نہیں۔ موجودہ حکومت ہاتھ کھڑے کرکے چلی جاتی ہے اور نگران حکومت آجاتی ہے یا اُس کے بعد نئی منتخب حکومت، مگر کوئی بھی اِس بحران سے ملک و قوم کو فوری نہیں نکال سکتا اِس لیے نہایت ضروری ہے کہ موجودہ حکومت اپنے تجربات کی بنیاد پر اس معاشی بحران سے باہر نکلنے کے لیے ایسی  ٹھوس حکمت عملی تیار کرے جس کو تسلسل سے جاری رکھا جائے اور اس میں کہیں بھی سیاست کا تڑکا نہ لگایا جائے تاکہ اِس معاشی بحران سے نکلا جاسکے۔ معاشی ماہرین بارہا کہہ چکے ہیں کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی بحران روز بروز شدت اختیار کرتا جارہا ہے کیوں کہ معیشت براہ راست ملک میں سیاسی استحکام سے جڑی ہوئی ہے اور جب بے یقینی کی صورتحال ہوگی تو سرمایہ کار بھی مارکیٹ میں سرمایہ کاری سے گریز کریں گے کیونکہ سیاسی بے یقینی کا مطلب سرمایہ ڈبونے کا رسک سمجھا جاتا ہے۔
پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے کا سلسلہ جاری ہےاور  14 پیسے کے اضافے کے بعدڈالر200روپے14پیسے پر بند ہوا اور رواں کاروباری ہفتے میں امریکی ڈالر 7 روپے 61 پیسے مہنگا ہوچکا ہے، اعدادو شمار کے بعد نئی حکومت آنے کے بعد
سے امریکی ڈالر 17 روپے 21 پیسے مہنگا ہوچکا ہے جبکہ رواں مالی سال ڈالر کی قیمت میں 42 روپے 59 پیسے کا اضافہ ہوچکا ہے
تاہم کئی دنوں کے بعد سٹاک مارکیٹ سے اچھی خبر آئی اور جمعہ کے روز پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کا مثبت دن رہا اور 100 انڈیکس 117 پوائنٹس اضافے سے 43100 پر بند ہوا۔ بازار میں 18 کروڑ 99 لاکھ شیئرز کے سودے ہوئے اور شیئرز بازارکے کاروبار کی مالیت 3 ارب 83 کروڑ روپے رہی جبکہ مارکیٹ کیپٹلائزیشن 23 ارب روپے بڑھ کر 7143 ارب روپے ہے۔ڈالر اور سٹاک مارکیٹ کی صورتحال کسی بھی ملک کی معاشی حالت اور استحکام کو ظاہر کرتی ہے جیسا کہ اِن دنوں ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکام سٹاک مارکیٹ اور ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے سے نظر آرہا ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت کے اختتام کے بعد سیاسی بحران کم ہونے کی وجہ سے بڑھ رہا ہے اور ہر طرف غیر یقینی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ نئی حکومت سیاسی بحران سے نمٹے یا معاشی بحران سے، اگرچہ دونوں محاذوں پر حکومت اپنا دفاع کررہی ہے، ایک طرف معاشی بحران سے نبرد آزما ہے تو دوسری طرف سیاسی محاذ پر بھی ڈٹی ہوئی ہے لیکن اس حقیقت کو تسلیم کیاجاناچاہیے کہ ہماری قومی سیاست میں یہ معمولی بات ہے، کوئی بھی منتخب حکومت ہو اس کو پوری توجہ سے ملک و قوم کے مسائل حل کرنے اور اپنے منشور پر آسانی سے عملدرآمد کا کبھی موقعہ میسر نہیں ہوتا، ماضی کا تسلسل آج بھی جاری ہے اور موجودہ حکومت کو سابق وزیراعظم عمران خان کی احتجاجی تحریک اور فوری الیکشن کے مطالبے کا سامنا ہے،
ملک کے کم و بیش تمام بڑے شہروں میں وہ جلسے کرکے اپنے مطالبات دھراچکے ہیں۔ موجودہ حکومت ایک طرف معاشی بحران کی وجہ سے سخت فیصلوں پر مجبور ہے تو دوسری طرف عوام کی معاشی مشکلات بھی اِس کے سامنے ہے، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات مہنگے کرنے سے ملکی معیشت تو قدرے مستحکم ہوگی لیکن عوام پر بوجھ آئے گا مگر حکومت نہیں چاہتی کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفان سے نبرد آزما عوام کو مزید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے۔ پس صورتحال ایسی ہے کہ  فوری نوعیت کے کئی اہم اقتصادی فیصلے نہیں ہو پا رہے کیوںکہ جو بھی فیصلہ ہوگا اِس کا بوجھ عوام پر لازماً پڑے گا
اِس لیے معاشی صورتحال کی سنگین میں سیاسی عدم استحکام مسلسل اضافہ کررہا ہے اور اِس عدم استحکام کے  ملکی معیشت پر فوری اثرات تو مرتب ہوہی رہے ہیں مگر وسط مدتی اور طویل مدتی اثرات بھی مرتب ہوں گے ۔ صرف توانائی کے شعبے میں معمولی سی چھیڑ چھاڑ کے اقتصادی گروتھ پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور نتیجہ غربت کی صورت
میں نکلے گالہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں یہی ہے کہ اجتماعی کوششوں سے ملک کو معاشی بحران سے نکالا جائے وگرنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button