ColumnMazhar Ch

پاکستانی معیشت کے اتار چڑھائو …. مظہر چودھری

مظہر چودھری

گذشتہ سات دہائیوں میں متعددڈرامائی اتار چڑھائو کاشکار رہنے والی پاکستانی معیشت ایک بار پھر انتہائی گراوٹ کا شکارہے۔ایک طرف ڈالر کی پروازرُکنے کا نام نہیں لی رہی تو دوسری طرف کرنٹ اکائونٹ خسارے کو قابو میں لانا مشکل ہو گیا ہے۔ ملک کامجموعی درآمدی بل مالی سال 2022کے ابتدائی دس ماہ میں 46فیصد اضافے کے بعد 65 ارب ڈالر سے زائد ہوچکاہے۔ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے درآمدی بل میں ماہانہ ایک ارب ڈالر کی کمی لانے کے لیے 80سے زائد مصنوعات کی درآمدات پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے تاہم معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کومشکل ترین صورت حال سے بچنے کے لیے مزید کئی بڑے معاشی فیصلے کرنے کے ساتھ ساتھ فوری طور پر آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا۔اگرچہ ہمارے ہاں ماضی میں آئی ایم ایف کے پروگرامز لینے سے بھی مہنگائی سمیت معاشی معاملات میں گڑ بڑ دیکھنے میں آئی لیکن ماہرین کے مطابق موجودہ صورتحال میں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے سے ملکی معیشت کے ڈیفالٹ ہونے کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔حالیہ دنوں میں دیوالیہ ہونے والا سری لنکا بھی اب اپنی معیشت کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کا پیکیج لینے پر مجبور ہو گیا ہے حالانکہ دیوالیہ ہونے سے پہلے سری لنکن حکام بار بار کہتے رہے کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے بھارت یا چین سے فنڈز لے کر معاشی صورت حال کو سنبھالا دے لیں گے۔معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پاجائیں گے کیوں کہ جو ممالک عام طور پر آئی ایم ایف سے معاشی پیکجز لیتے ہیں، اگر وہ ڈیفالٹ کرجائیں تو اس ملک کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی بھی بدنامی ہوتی ہے۔

ملکی معیشت کے اتار چڑھائو کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی پوری تاریخ میں معاشی ترقی کے ریلے آتے رہے اوردلچسپ طور پرجمہوری ادوار کی نسبت فوجی حکومتوں میں زیادہ آئے۔عام طور پر اگر ایک ملک ایک مرتبہ درمیانی آمدنی کی سطح عبور کر لیتا ہے تو پھر وہ نچلی سطح پر نہیں جاتا ۔عالمی معاشی ماہرین کے نزدیک پاکستان اس حوالے سے ایک نادر کیس ہے کہ وہ کئی بار درمیانے درجے کی آمدنی کے ملکوں میں شامل ہو کر پھر سے نیچے پھسل جاتا ہے۔سابقہ نوازشریف حکومت سے پہلے کی معاشی ترقی کا جائزہ لیا جائے تو فوجی حکومتوں میں معاشی شرح نمواوسطاً چھپن فیصد سے زیادہ رہنے کے بعد جمہوری ادوار میں3سے 4 فیصد سے بھی کم ہوتی رہی ہے۔

ملکی تاریخ کے جمہوری ادوار میں ایسا صرف نواز حکومت کے دور میں دیکھنے میں آیاجب ملک کی معاشی شرح نمو5.8فیصد تک پہنچی۔ فوجی ادوار میں معاشی شرح نمو بہتر رہنے کی سب سے بڑی وجہ امریکی مالی و فوجی امداد ہے۔ قریباً تمام فوجی ادوار میں پاکستان نے مروجہ رجحانات سے ہٹ کر راستے اختیار کیے۔ ایوب خان نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننے سے پہلے بطور فوجی سربراہ اور وزیردفاع امریکی حکام سے مذاکرات کے بعد پاکستان کوسیٹو اور سنٹو جیسے معاہدوں میں شامل کروا کے امریکہ سے دفاعی معاہدہ کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ایوب خان کے دور کے پہلے نصف میںہونے والی 5.25فیصدکی تیز شرح ترقی اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت دنیا کے تمام ترقی پزیر ممالک کے مقابلے میں زیادہ تھی لیکن تمام تر ترقی کے باوجود ایوبی دورکے اختتام پر ہم ایک طرف اندرونی خلفشار کا شکار تھے تو دوسری طرف اس نام نہاد ترقی کے ثمرات ملک کے صرف22خاندانوں تک محدود تھے۔

جنرل ضیاء کے دور میں بھی معاشی ترقی کی شرح اوسطاً 6فیصد سے زیادہ رہی ۔اس دور میں بھی مروجہ رجحان سے ہٹ کر راستہ اختیار کیا گیا۔ افغان جہاد کے نام پرپاکستان نے امریکی پراکسی وارلڑی۔ ضیاء دور میںایک طرف امریکی مالی و فوجی امداد سے پاکستانی معیشت کو استحکام ملتا رہا تو دوسری طرف مختلف انداز میں ملنے والی سعودی امداد سے پاکستان کی مجموعی معاشی صورتحال کافی بہتر رہی۔مشرف دور میں اگرچہ شرح نمو 7فیصد کی بلند سطح پر رہی لیکن شرح نمو میں یہ اضافہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف لانچ کی گئی امریکی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بننے کے بعد ہوا۔نائن الیون کی جنگ کی وجہ سے پیرس کلب اور دوسرے مالیاتی اداروں نے پاکستان کے قریباً سارے بیرونی قرضے 10سال کے لیے ملتوی کر دئیے۔ مشرف دور میں امریکہ سے ملنے والی براہ راست مالی و فوجی امداد، انتہائی سازگار شرائط پر قرضوں کی سہولت اور مغربی منڈیوں تک رسائی کی وجہ سے معاشی شرح نمو پاکستان کی تاریخ میں سب سے بہتر رہی۔ زرداری حکومت میں معاشی شرح نمو انتہائی کم رہنے کی بڑی وجہ عالمی مالیاتی اداروں کا مشرف دور میں ملتوی کیے گئے قرضہ جات کی سود سمیت واپسی کامطالبہ تھا۔

مشرف دور میں ملنے والی غیرمشروط امریکی امداد زرداری دور میں مشروط کردی۔مختصر یہ کہ ہمارے ہاں غیر معمولی حالات و واقعات کی بنا پر آمرانہ ادوار میںترقی کی شرح زیادہ رہی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ محض بیرونی قرضوں اور غیر ملکی امدادکے بل بوتے پر ہونے والی یہ معاشی ترقی پانی کے بلبلے سے زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوئی ۔آئی ایم ایف اور مارشل لاء کے بارے ایک بات مشترک کہی جا سکتی ہے کہ یہ جس ملک میں ایک بار آ جائیں ، وہاں ان کا آنا جانا لگا ہی رہتا ہے۔ قیام پاکستان کے صرف تین سال بعد پاکستان آئی ایم ایف کا ممبر بنا اور اس وقت سے لے کر اب تک کل 22مرتبہ آئی ایم ایف جا چکا ہے۔ آئی ایم ایف اپنے طور پر بحران کا شکار معیشت کو درست ڈگر پر لانے کے لیے کڑی شرائط عائد کرتی ہے لیکن اکثر اوقات یہ کڑی شرائط قرضے میں جکڑے ہوئے ملک کی معاشی حالت سدھارنے کی بجائے اسے مزید بگاڑنے کا باعث بن جاتی ہیں۔ شرح سود بڑھانے سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ ٹیکس بڑھانے اور حکومتی اخراجات کم کرنے سے عوامی سہولیات میں کمی آنے سمیت بے روزگاری بڑھتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ قومی اداروں کی نجکاری کی شرط سے بے روزگاری بڑھنے سمیت ملکی اثاثے غیر ملکیوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ عالمی سرمائے کی ملک میں آمدورفت سے تما م پابندیاں ہٹانے کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے جبکہ عالمی مالیاتی اداروں کو زیادہ سے زیادہ آزادی دینے سے ملکی صنعتیں مفلوج ہو جاتی ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے مسلط کی گئی کڑی شرائط پر عمل درآمد سے ملکی معیشت کو تو کسی حد تک سنبھالا دینا ممکن ہو جاتا ہے تاہم معیشت کویہ سنبھالا مہنگائی اور غربت میں اضافے سمیت عام آدمی کے معیار زندگی میں کمی کی قیمت پر ہی ملتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button