تازہ ترینخبریںصحتصحت و سائنس

شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کو یہ ٹیسٹ کروانا ضروری ہے

آپ کے خون کی ایک بوتل کسی کی جان بچا سکتی ہے کیونکہ تھیلسیمیا کے مریضوں کو خون کے عطیات نہ ملنے کے باعث متعدد مریضوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہیں۔

کسی والدین کے معصوم بچے تھیلیسیمیا جیسے مرض کا شکار ہوں تو والدین کے کرب کا اندازہ صرف وہی افراد کرسکتے ہیں جو صاحب اولاد ہوں یا درد دل رکھتے ہوں۔

تھیلیسمیا کے مریضوں کو صرف 15 دن کے اندر ہی خون کی ایک بوتل لازمی درکار ہوتی ہے تاکہ ان کی سانس کی ڈور ٹوٹ نہ جائے۔

ویسے تو سرکاری اسپتالوں میں بڑے پیمانے پر تھیلیسیمیا کے مریضوں کا علاج کیا جارہا ہے تاہم یہ خدمات نجی اور فلاحی شعبے بھی خوش اسلوبی سے ادا کر رہے ہیں جہاں تھیلسمیا سے متاثرہ افراد اور بچوں کو بلا معاوضہ خون کی فراہمی ممکن بنائی جاتی ہے۔

ڈاکٹر ثاقب انصاری نے کہا کہ پاکستان میں ایک لاکھ سے زائد بچے تھیلیسیمیا کا شکار ہیں جن کی زندگیاں مشکلات کا شکار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے بھی خون کے عطیات دینے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی آگئی تھی جس میں اب بہتری آنے لگی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہر سال ان مریضوں میں 15ہزار کا اضافہ ہوتا ہے، ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایک بار خون دینے سے تین مریضوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔

ڈاکٹر ثاقب انصاری نے بتایا کہ ریڈ سیلز سے تھیلیسیمیا کے مریضوں پلیٹ لیٹس سے ڈینگی اور کینسر کے مریض شفایاب ہوتے ہیں جبکہ پلازمہ سے ہیموفیلیا کے مریضوں کی زندگی بچائی جاسکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button