Editorial

معاشی بحران ، سخت فیصلوں کی ضرورت

وفاقی حکومت نے ایک بار پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھاتے ہیں تو گناہ گار ہوتے ہیں نہیں بڑھاتے تو بھی گناہ گار ہوتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے عوام پر بوجھ ڈالنے سے انکار کر دیا ہےتاہم مستقبل میں تبدیل شدہ حالات کے پیش نظر پٹرولیم قیمتوں پر نظرثانی کرسکتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو وعدے کئے وہ پورے کرنا مشکل ہیں، 18مئی کو آئی ایم ایف کے پاس جا رہا ہوں، سبسڈی کے حوالے سے دوبارہ بات چیت کریں گے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے اگرچہ فوری پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے امکان اور خبروں کو رد کیا ہے لیکن ساتھ ہی عندیہ بھی دیا ہے کہ مستقبل میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے لیے نظرثانی بھی کی جاسکتی ہے۔ مفتاح اسماعیل نے بطور وزیر خزانہ ذمہ داریاں سنبھالنے کے فوراً بعد فرمایا تھا کہ عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف سےملکی مفادات کے خلاف وعدے کئے اور وہ معاشی سطح پر بارودی سرنگیں بچھا کر گئے۔ معاشی سطح پر مشکل ترین حالات ملنے کےباوجود وزیراعظم شہباز شریف بضد ہیں کہ عوام کی توقعات کے برخلاف کوئی اقدام نہیں کرنا اور ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنےکےساتھ ساتھ عوام کو روزگار فراہم کرنا ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے،
ملک کے موجودہ معاشی حالات ایسے ہیں کہ حکومت تمام تر کوششوں کے باوجود عوام کو ویسا ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں آرہی جیسا ریلیف وہ دینا چاہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نئی حکومت کی تجربہ کار ٹیم پچھلی حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرنے پر مجبور ہے، لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ معاشی صورتحال میں معیشت کو وینٹی لیٹر سے اُتارنے کے لیے سخت معاشی اقدامات ناگزیر ہیں مگر اِس کے لیے ضروری ہے کہ جو بھی فیصلہ کیا جائے وہ قومی سطح پر اتفاق رائے سے کیا جائے، مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ہر شعبے کی تجربہ کار ٹیم موجود ہے،
پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں میں بھی مختلف شعبوں کے ماہرین موجود ہیں اِس لیے معاشی بحران سے کس طرح نمٹا جائے اور ملک کو دوبارہ ترقی کے ٹریک پر لایاجائے یہ فیصلہ تمام جماعتوں کی مشاورت سے کیا جانا چاہیے اور ہمیں یقین ہے کہ ایسا کیا بھی جائے گا کیوں کہ نئی حکومت نے ابتک جتنے بھی اہم فیصلے کیے ہیں وہ سبھی اتحادی جماعتوں کی قیادت سے باہمی مشاورت کے بعد کیے ہیں، ہم خدانخواستہ دیوالیہ نہیں ہورہے لیکن اگر ہم نے سخت فیصلے نہ کیے تو سری لنکا اورافغانستان کی طرح ہم بھی مشکل معاشی صورتحال سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جانے کے بعد جب نئی حکومت کی معاشی ٹیم نے ملک کے معاشی حالات کی عوام کے سامنے منظر کشی تبھی عام
پاکستانیوں کی آنکھ کھل جانی چاہیے تھی کہ ملک معاشی لحاظ سے کن چیلنجز کا سامنا کررہا ہے اور ماضی کے فیصلوں نے معیشت کو کیسے وینٹی لیٹر پر منتقل کیا ہے، معیشت کے حالات ٹھیک نہیں اور نئی حکومت کو بھی معیشت کے لیے سخت ترین فیصلے کرنا پڑیں گے ، معیشت کی پوری منظر کشی اور اِس سے نمٹنے کے لیے متفقہ لائحہ عمل قوم کے سامنے لایاجائے کہ ہم جن معاشی مسائل میں جکڑے ہوئے ہیں اُن میں قطعی ممکن نہیں کہ کسی بھی شعبے کو ریلیف دیا جائے کیوں کہ آج دنیا میں ڈالر کی بڑھتی قدر کی وجہ سے عالمی معیشت بتدریج سست روی کا شکار ہو رہی ہے ،
ڈالر کی بڑھتی قیمت کے نتیجے میں دوسری کرنسی کی قدر میں کمی ہوتی ہے یوں نتیجتاً کم و بیش تمام ممالک اپنی معیشت کو بچانے کے لیے مختلف اقدامات کرتے ہیں تاکہ ان کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر قابو میں رہیں مگر ہر نئے دن چھوٹی معیشتوں کو بڑے امتحانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہم بھی ڈالر کی بلند پرواز کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں، روپے کی مسلسل گراوٹ کی وجہ سے درآمدی بلوں میں اضافہ ہورہا ہے اِس لیے ہمارے معاشی ماہرین اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اِس پر متفق نظر آتے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی جاری رکھنے کا فیصلہ غلط ہے اور صرف پٹرول پر ہی سبسڈی ختم کرنے سے معیشت کی اُکھڑی سانس بحال نہیں ہوگی بلکہ اِس کے لیے ہر شعبے کو اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا ،جن شعبوں میں بلاضرورت درآمدات کی جارہی ہیں اُن پر قابو پایاجائے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر کی سطح بلند ہونا شروع ہو۔ انفرادی کی بجائے اجتماعی کاوشیں کی جائیں، ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے سیاسی بحران کا پہلے خاتمہ کیا جائے تاکہ ہم سب سے پہلے معاشی خطرات سے نمٹ سکیں اور اِس دوران قومی قیادت کی ہر لحاظ سے مخلصانہ کوشش سامنے آنی چاہیے۔ قوم کو بتایا جائے کہ خزانے کی صورتحال کیا ہے، اپنے پیٹ پر ہم نے پتھر باندھ لیاہے  ملک کو بچانے کے لیے آپ کو بھی پتھر پیٹ پر باندھنا پڑے گا، خلوص نیت سے اٹھائے جانے والے ہر قدم پر قوم کو اعتماد میں لیا جائے
جس طرح عوام پاکستان وطن عزیز کے چپے چپے کی حفاظت کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے کو تیار ملتے ہیں یقیناً معاشی جنگ جیتنے کے لیے بھی تیار ملیں گے، لیکن گذارش پھر یہی ہے کہ معاشی فیصلے ملک و قوم کے وسیع مفاد اور مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے کیے جائیں اور پھر اُن کا تسلسل بھی بلارکاوٹ برقرار رکھا جائے تاکہ ہم معاشی بحران سے باہر نکل سکیں۔ اِن دگرگوں معاشی حالات سے بطور قوم اجتماعی کوششوں سے ہی نکلنا آسان ہوگا اور ہمارے سامنے ایران سمیت کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں کہ قوموں نے معاشی بحرانوں اور پابندیوں کا سامنا جوانمردی اور بلند حوصلوں کے ساتھ کیا اور سرخرو بھی ہوئے، آج ہمیں بھی سچ کی کڑوی گولی نگلنے کی ہمت کرنا پڑے گی کہ ہمارے ملک کو ہماری قربانیوں کی ضرورت ہے، وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کو چاہیے کہ وہ اِس سنگین معاشی مسئلے پر اتحادیوں سے جلد ازجلد مشاورت کریں اور ملک و قوم کے لیے جو بھی فیصلے ناگزیر ہوں وہ قوم کے سامنے لائے جائیں تاکہ ہم معاشی بحران سے باہر نکل سکیں۔

جواب دیں

Back to top button