
ُٓہمارا پانی کہاں گیا؟ … روشن لعل
اس وقت پاکستان میں پانی کی دستیابی اور فراہمی کا مسئلہ انتہائی گھمبیرشکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ مسئلہ کیوں گھمبیر ہوا،اس کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں مگر افسوس کہ ان وجوہات پر غور کرنے کی بجائے پوائنٹ سکورنگ کرتے ہوئے یہ مسئلہ گھمبیر سے گھمبیر تر بنایا جارہا ہے۔یاد رہے کہ 2006 پاکستان کے اپنے اداروں کی تیار کردہ پاکستان سٹریٹجک کنٹری اینوائر مینٹل رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جنہیں مستقبل قریب میں پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مستقبل میں پانی کی قلت کس حد تک ہو سکتی ہے اسے یوں بیان کیا گیا تھا کہ پاکستان میں سالانہ دستیاب پانی کی مقدار جو1951ء میں 5000 کیوبک میٹر فی کس تھی 2006ء میں 1100 کیوبک میٹر فی کس رہ گئی ہے۔ اس وقت آبادی میں اضافے کی 1.09 فی صدشرح کو معیارمقرر کرتے ہوئے یہ اندازہ لگایا گیا تھاکہ 2010 ءمیں پاکستان کی آبادی 173 ملین اور 2025 ء میں 221 ملین ہو جائے گی۔ آبادی میں ہونے والے متوقع اضافے سے یہ اخذ کیا گیا تھاکہ 2010 ء میں دستیاب پانی کی مقدار 1000 کیوبک میٹر فی کس ہو گی جو 2025 ء میں کم ہو کر 700 کیوبک میٹر فی کس رہ جائے گی۔
آبادی میں اضافے کے بعد یہاں پانی کی تقسیم کے نظام کو بھی ہر کسی کے حق کے مطابق پانی فراہم نہ ہونے کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ ملک کی مختلف اکائیوں کے درمیان پانی کی تقسیم ہر کسی کے حق کے مطابق نہ ہونے کا مسئلہ 2010 کے سیلاب کے دوران ریکارڈ کیے گئے پانی کے بہائو کے اعدادوشمار کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ مذکورہ سیلاب کی بنیادی وجہ 30 جولائی 2010 کو تربیلا ڈیم سے خارج کیا جانے والا 603000 کیوسک پانی کا ریلا تھا۔ جب پانی کا یہ ریلا جناح بیراج پر پہنچا تو وہاں اس کا بہائو897691 کیوسک ہوگیا کیونکہ تربیلا اور جناح بیراج کے درمیان دریائے کابل اور دریائے سواں کا پانی بھی اس کا حصہ بن چکاتھا۔
کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ یہاں پانی کے بہائو میں اضافہ کی وجہ دریائے کرم کے پانی کا دریائے سندھ میں شامل ہو نا تھا۔ چشمہ بیراج سے تونسہ بیراج تک حالانکہ دریائے گومل کا پانی دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے مگر مذکورہ دونوں بیراجوں کے درمیان فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ چشمہ بیراج سے نکلنے والے ریلے کا بہائو تونسہ بیراج پر 934000 کیوسک رہ گیا ۔ صوبہ پنجاب کے ، تونسہ بیراج سے خارج ہونے والا پانی صوبہ سندھ کے گدو بیراج پر پہنچ کر مزید کم ہو جانا چاہیے تھا مگر حیرت انگیز طور پر گدو بیراج پر پانی کا بہائو زیادہ ہو کر 1148200 کیوسک ہو گیا۔ کہا جاسکتا ہے کہ گدو بیراج پر پانی کے بہائو میں اضافہ کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ دریائے چناب کے پنجند ہیڈورکس سے خارج ہونے والا پانی کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہوا ہوگا۔ ایسا ہونا ممکن تھا لیکن جب دریائے چناب کے پنجند ہیڈورکس سے خارج ہونے والا پانی تونسہ سے خارج ہونے والے ریلے کے کوٹ مٹھن پر پہنچنے سے دو دن پہلے ہی وہاںسے بہہ چکا تھا توپھر دریائے چناب کے پانی کی وجہ سے گدو بیراج پر پانی کے بہائومیں اضافہ ممکن نہیں رہا تھا۔ گدو بیراج سے خارج ہونے والا پانی سکھر بیراج پر پہنچ کر کم ہوتے ہوئے 1124000 کیوسک ہوگیا۔ پانی کا یہ ریلا جب سکھر بیراج سے کوٹری بیراج پر پہنچا تو وہاں اس کی مقدار کم ہو کر 939000 کیوسک رہ گئی۔