ColumnImran Riaz

 عمران خان کی پیش قدمی اور ریاست کی خامو شی … عمران ریاض

عمران ریاض

عمران خان جارحانہ انداز سے حکومت اور ریاست پر حملہ آور ہیں لیکن ریاست اور حکومت نے جواباً بڑی دفاعی اور محتاط حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے،  عمران خان ایسی کئی ریڈ لائنز پار کر چکے ہیں جن کو ماضی میں کسی سیاست دان نے پار کرنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ بہرحال پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی سیاست دان نے فوج کی حاضر سروس قیادت کو براہ راست اس قدر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہو۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اگر اس وقت وہ اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لاکر نئے الیکشن کرانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ مقبولیت کی انتہا اور بیانیے کی بدولت بڑی آسانی سے واضح اکثریت حاصل کرلیں گے اور پھر رواں سال نومبر سے قبل حکومت بنا کر اگلا آرمی چیف اپنی مرضی کا لگا کر وہ آئندہ دس سال مزید حکومت کرسکیں گے۔ اس ٹارگٹ کے حصول کے لیے وہ ہر حد تک جارہے ہیں بعض باخبر حلقوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں ریاستی سسٹم کے اندر سے بھی بہت طاقتور افراد کی حمایت حاصل ہے اور اسی حمایت کی وجہ سے عمران خان بے خوفی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور ریاست کے اہم عہدیداروں کو چیلنج بھی کر رہے ہیں۔

اگرچہ میاں محمد شہباز شریف کی قیادت میں بنے والی اتحادی حکومت ایک ماہ میں ایسے اقدامات نہیں اٹھا سکی جن سے حکومت کی تبدیلی کا کوئی اثر عوام تک پہنچا ہو بلکہ الٹا پنجاب میں پیدا ہونے والے آٹے کے بحران نے آٹے کی قیمت میں اضافہ کر دیا ہے اور روٹی جو بنیادی ضرورت ہے،
اب مہنگی ہوگئی ہے۔ اگرچہ وزیراعظم شہباز شریف کی آنیاں جانیاں جاری ہیں لیکن بے سود۔ دوسری طرف پنجاب میں گورنرعمر سرفراز چیمہ اور صدر علوی نے مل کر اپنے قائد عمران خان کے حکم پرایک علیحدہ آئینی بحران کی کیفیت پیدا کی ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف گورنر عمرسرفراز چیمہ کو بر طرف کیے جانے بعد بھی یہ بحران کسی نہ کسی صورت موجود ہے۔ حمزہ شہباز ابھی تک اپنی کابینہ تک تشکیل نہیں دے پائے اور صوبے کے معاملات کو عملی طورپر بیورو کریسی ہی دیکھ رہی ہے تو جناب ایک طرف یہ صورتحال اور دوسری طرف عمران خان کی مسلسل چڑھائی اور گولہ باری جارہی ہے۔ وہ حکومتی اتحاد اور امریکہ کو چھوڑ کو چھوڑ چھاڑ کر آجکل پاک فوج کی قیادت کے درپے ہیں، کبھی کسی کو میر جعفر قرار دے رہے ہیں تو کہیں اپنی سیاسی جنگ کو حق و باطل کی جنگ قرار دیکر قوم کے مذہبی جذبات کو ہوا دے
رہے ہیں جیسے بھی لیکن امریکہ اور فوج مخالف ان کا چورن بک ضرور رہا ہے۔ اس کو عمران خان کی خوش قسمتی سمجھیں یا قوم کی بد نصیبی دو ماہ قبل تک جو عوام انہیں اپنی بدحالی کا ذمہ قرار دیتے ہوئے ان سے جان چھڑانے کی دعائیں کر رہی تھی وہ سب کچھ بھول بھال کر ایک مرتبہ پھر ان سے امید لگا رہے ہیں۔ بہرحال عمران خان نے ایبٹ آباد کے جلسے میں تو حد ہی کردی جب میر جعفر کی بات کرتے ہوئے انہوں کھلم کھلا اشارہ پاک فوج کی قیادت کی جانب کیا۔ افواج پاکستان نے اِس بات کا سخت نوٹس لیا اور اب ریٹائرڈ فوجیوں کی طرف سے عمران خان کے اس بیان کا سخت ردعمل آیا ے۔ عمران خان نے جو حدیں پھلانگی ہیں اس کی قیمت تو انہیں ادا کرنا پڑے گی، بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ جو آپ کا ساتھ دے وہ مومن وہ حق اور سچ ہے اور آپ کا ساتھ نہ دے تو وہ غدار اور دوزخی ٹھہرے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں سیاست کا۔اگر فوج نے نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کیا ہے تو عمران نے نیوٹرل رہنے کو کیا کیا معنی پہنائے اور کس کس سے تشبیہ دی؟
اگرچہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بہت پہلے ہی عمران خان کی باتوں کا نوٹس لینا چاہیے تھا ، بہرحال اب لگتا ھے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے الزامات کا جواب دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ویسے یہ ہے بھی کس قدر غلط بات کہ آپ صرف اس لیے میر جعفر اور میر صادق سے تشبیہ دیں کہ وہ غیر آئینی طور پر آپ کی سیاست میں آپ کے ساتھ کیوں کھڑے نہیں ہوئے؟ چلتے چلتے آخر میں ایک بات کہنا چاہتے ہیں کہ عمران خان نے جس قدر حدود پھلانگی ہیں اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا ۔بھٹو کی پھانسی اور بینظیر کی شہادت کے بعد اور شریف خاندان نے جیلیں کاٹنے اور جلا وطنی کے باوجود وہ ریڈ لائن کبھی پار نہیں  کی جو ریڈ لائن عمران خان صرف فوج کے نیوٹرل ہونے پر بار بار پار کررہے ہیں۔ اگر کسی کا خیال ہے  کہ عمران خان کی مقبولیت کے سامنے شاید کوئی چیز نہیں ٹھہر سکے گی تو لوگ نوٹ کرلیں مئی کے آخری دنوں تک اس مقبولیت کو ایسا ریورس گیئر لگے گا کہ بس ۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button