تازہ ترینخبریںکاروبار

کیا موجودہ حکومت بھنگ کی قانونی کاشت کی اجازت دے گی؟

پاکستان کے قبائلی ضلع لوئر اورکزئی سے تعلق رکھنے والے  کاشتکار حکومت کے طرف سے بھنگ کے قانونی اجازت ملنے کے انتظار میں ہیں۔

کاشتکاروں کے مطابق انھیں آئندہ دنوں میں حکومت کے فیصلے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔

خیبرپختونخوا کے تین اضلاع یعنی خیبر کی وادی تیراہ، اورکزئی اور کرم کے مخصوص علاقوں میں بھنگ کاشت کی جاتی ہے، اور اس سے بننے والی چرس ناصرف اندورن ملک بلکہ بیرون ملک سمگل کی جاتی ہے۔

دیگر ممالک میں بھنگ کے اجزا سے خوراک، ملبوسات، ادویات اور تعمیراتی سامان کی تیاری ہوتی ہے جو بھنگ سے بننے والی چرس کے مقابلے میں کافی زیادہ آمدن دیتی ہے۔

اس بنیاد پر خیبر پختونخوا حکومت نے سنہ 2021 میں ضلع خیبر کی وادی تیراہ، اوکرزئی اور کرم میں بھنگ کی قانونی کاشت اور اور اس سے چرس اور دیگر نشے بنانے کے بجائے اس کے مفید استعمال کے حوالے سے سروے کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کی ذمہ داری پشاور یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی کو دی گئی تھی۔

شعبہ فارمیسی سے منسلک پروفیسر  نے بتایا کہ جون 2021 سے تینوں اضلاع میں بھنگ کے حوالے سے سروے کا آغاز ہوا اور جدید طریقہ کار اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے چھ ماہ کی قلیل مدت میں کل رقبے پر بھنگ کے کاشت اور چرس کی سالانہ پیدوار کے حوالے سے معلومات جمع کر کے دسمبر 2021 میں خیبر پختونخوا اکنامک زون کے پاس جمع کیا گیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس تحقیقاتی کام پر ایک کروڑ 43 لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔

جن علاقوں میں سروے ہوا تھا وہاں سے تعلق رکھنے والے کاشتکار پراُمید تھے کہ صوبائی حکومت رواں سال بھنگ کے کاشت کے لیے تمام مسائل اور سرکاری کارروائی مکمل کر لے گی تاہم مذکورہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا۔

سروے رپورٹ میں حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ چرس سے ‘سی بی ڈی’ تیل کشید کرنے اور بھنگ کے تنے سے مختلف اشیا تیار کرنے کے لیے بھنگ کی کاشت والے تین اضلاع میں چھ کارخانے لگائے جائیں جس سے چھ ہزار افراد کو براہ راست کام کے مواقع میسر ہوں گے۔

اوپن مارکیٹ میں سی بی ڈی تیل کی فی لیٹر کی قیمت 1250 سے 1500 امریکی ڈالر ہے جبکہ ساڑھے تین کلو چرس سے ایک لیٹر تیل نکلتا ہے۔ سی بی ڈی تیل کی اچھی قیمت کی وجہ سے اس کو’گرین گولڈ’ یعنی سبز سونا بھی کہا جاتا ہے۔

رپورٹ میں بھنگ کے بیج میں بنیادی تبدیلیوں کی تجویز پیش کی گئی ہے کیونکہ موجودہ فصل میں نشے کا عنصر یعنی ‘ایچ ٹی سی’ کی مقدار 43 فیصد ہے جو بہت زیادہ ہے۔

موجودہ بیج سے بننے والے بھنگ کے پودے کی لمبائی نو سے دس فٹ ہوتی ہے جبکہ تجویز کردہ بیج کے پودوں کی لمبائی پندرہ سے سولہ فٹ ہو گی۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان تینوں اضلاع میں ذرائع آمد و رفت کو بہتر بنانے، سکول، کالج اور گیس کی فراہمی کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔

صوبائی حکومت نے بھنگ کے ادویات میں استعمال اور تحقیقاتی کام کی ذمہ داری پشاور یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی، مارکیٹنگ و بزنس پلان کے مد میں منیجمنٹ سٹڈیز، مشینری کی تنصب کے ماحول پر اثرت کے حوالے سے شعبہ ماحولیات، جغرافیائی معلومات کے لیے شعبہ ارضیات ، قانونی حیثیت کے جائزے کی ذمہ داری لا کالج اور لوگوں میں سماجی شعور اُجاگر کرنے کے ذمہ داری شعبہ سوشیالوجی کے حوالے گیا گیا تھا۔

اس پوری تحقیقاتی عمل میں پشاور یونیورسٹی کے مذکورہ شعبوں میں زیر تعلیم خیبر، کرم اور اورکزئی کے طلبہ نے حصہ لیا۔

خیبر پختونخوا اکنامک زون کے چیف ایگزیکٹیو  کے مطابق بھنگ کے حوالے سے ابتدائی رپورٹ کو سمال انڈسٹری ڈویلیپمنٹ بورڈ اور پلاننگ اینڈ ڈویلیپمنٹ کو نظرثانی کے لیے بھیج دیاگیا ہے۔

اُنھوں نے کہاکہ مذکورہ اداروں اور اکنامک زون کے تجاویز کی حتمی رپورٹ نہ صرف ادارے کی ویب سائیٹ پر دستیاب ہوگی بلکہ اس حصے میں سرمایہ کاری اور معاشی مواقع پیدا کرنے کے لیے عملی اقدامات شروع کیے جائیں گے۔

خیبر، اورکزئی اور کرم میں بھنگ کے قانونی کاشت میں تاخیر کے حوالے سے صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کے ساتھ رابطہ کیا گیا مگر ان کے طرف سے کوئی جواب ملا تاہم صوبے کے ایک اعلی عہدیدار نے بتایا کہ بھنگ کے قانونی کاشت میں تاخیر کی ایک وجہ قومی بھنگ پالیسی کی منظوری میں رکاوٹیں ہیں۔

انھوں نے کہا صوبائی سطح پر تحقیق کا کام مکمل ہو چکا ہے تاہم اس حوالے سے متعلقہ اداروں کے ساتھ مشاورت کا عمل جاری ہے جو کہ جلد مکمل ہونے کے بعد صوبے میں بھنگ کے کاشت قانونی انداز میں شروع ہو جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button