ColumnRoshan Lal

ماں ، ممتا اور اولاد …. روشن لعل

روشن لعل

مائوں کا عالمی دن دنیا کے اکثر ملکوں میں ہر برس مئی کی دوسری اتوار کو منایا جاتا ہے۔ یہ سطور جو مائوں کے عالمی دن سے ایک دن قبل تحریر کی جارہی ہیں، مائوں کا دن منائے جانے کے ایک دن بعد پڑھی جائیں گی۔ گو کہ زیر نظر کالم مائوں کے عالمی دن کی نسبت سے لکھا جارہا ہے مگر اس میں ماں اور اولاد کے تعلق کے متعلق جس اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے اس کا بیان کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے ۔ ’’ماں‘‘ ایک ایسا موضوع ہے جسے عورت کے وجود سے علیحدہ رکھ کر نہ دیکھا جاسکتا ہے اور نہ غور کیا جاسکتا ہے ۔اقوام عالم کا ابہاموں سے بھر پور ماضی یہ رہا ہے کہ دنیا کی قدیم تہذیبوں میں ’’ماں‘‘ کو تو ’’ماتا دیوی‘‘ کے مقام پر فائز کر دیا گیا مگر ماں کا کردار ادا کرنے والی عورت کو مکمل انسان ماننے سے ہی انکارکیا جاتارہا۔ آج کا دور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ماضی قریب اور بعید کے مقابلے میں ایک تبدیل شدہ دور ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے دور میں عورت روشن خیال مردوں کے تعاون سے ماں کا کردار بھر پور طر یقے سے نبھاتے ہوئے خود کو ہر شعبے میں کام کرنے کا اہل ثابت کر چکی ہے۔ مختلف شعبوں میں اعلیٰ سے ادنیٰ درجے تک احسن طریقے سے کام کرنے والی عورتوں نے جس طرح خود کو بہترین مائیں ثابت کرنے کی مثالیں قائم کی ہیں اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگریہاں  ہمارا موضوع یہ ہے کہ ایک ماں کا اپنی اولاد پر ایسا کونساجنیاتی (Genetic) اثر ہوتا ہے جو ان کا باپ ان پر نہیں ڈال سکتا۔
اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ بچے کی نشوونما، تعمیر اور ترقی میں ماں سے بہتر کردار کوئی بھی نہیں ادا کر سکتا۔ پیدائش سے لے کر بلوغت تک ماں اپنے بچے کی نشوونما کے لیے کئی دوسرے لوازمات کے ساتھ اپنے بے مثال پیار کا جوہر بھی استعمال کرتی ہے۔ ماؤں پر قدرت کی طرف سے یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش اس طرح کریں کہ ان کی زندگی اور مستقبل محفوظ تر ہوجائے۔ ماں کا یہ کردار تو ہر کسی پر آشکار ہے لیکن ماں کے بچے پر خاص جنیاتی اثر سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔

اگر عام لوگوںسے یہ پوچھا جائے کہ بچہ اپنی ماں کا زیادہ ہوتا ہے یا باپ کا، تو ان کی اکثریت زیادہ سوچے سمجھے بغیر فوراً اپنا وزن باپ کے پلڑے میںڈال دے گی۔ بظاہر یہ جواب درست لگتا ہے مگر سائنسی تحقیق کے مطابق اسے مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔
دراصل اس سوال کا صحیح جواب اتنا آسان نہیں جتنا لگتا
ہے۔ یہ سوال اور اس کا جواب اس وجہ سے پیچیدہ ہیں کیونکہ صرف گنے چنے لوگوں کوہی یہ علم ہے کہ جینیاتی طور پر ایک بچہ باپ کے مقابلے میں ماں کا اثرزیادہ رکھتا ہے ۔ماں کا یہ اثر بچوں کے خلیوں میں (mitochondria) مائٹوکونڈریا نامی اس جُز کی وجہ سے ہوتا ہے جو وہ صرف اپنی ماں سے حاصل کرسکتے ہیں ۔ سائنسدان اِس جُز مائٹو کونڈریا کو خلیات کے اندر توانائی پیدا کرنے والی فیکٹریاں قرار دیتے ہیں ۔ دماغ اور پٹھوں کے ٹشوز کو نشوو نما کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں یہ مطلوبہ توانائی اسی وجہ سے ملتی ہے کیونکہ ان کے خلیات مائٹوکونڈریا سے بھرے رہتے ہیں۔ سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ مائٹوکونڈریا کے بغیر خلیہ خوراک سے ہر گز توانائی پیدا نہیں کر سکتااس لیے وہ سائنسی اور تکنیکی طور پر بچے پر ماں کے باپ سے زیادہ جنیاتی اثر کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ بیان صرف جانوروں کے لیے درست ہے کیونکہ پودوں اور فنگس کے معاملے میںبھی مائٹوکونڈریا آتا تو والدین میں سے کسی ایک کی طرف سے، مگر ضروری نہیں کہ یہ صرف مادہ کی طرف سے آتا ہو۔
ماں کے حق میں جانے والی مذکورہ سائنسی تحقیق سے اگر بچوں پر باپ کے حق کو برتر سمجھنے والے لوگوں کو صدمہ پہنچا ہے تو ان کی تسلی کے لیے اس بات کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ ویسے تو سائنسدانوں کی مائٹوکونڈریا کے حوالے سے اب تک کی جانے والی تحقیق سے یہی ثابت ہوا ہے کہ کسی انسان کو مائٹو کونڈریا اس کی ماں کی طرف سے ہی وراثت میں ملتا ہے تاہم کثیر سائنسی تحقیق کے دوران پدرانہ  مائٹو کونڈریل ، ٹرانسمیشن کی بھی ایک مثال سامنے آچکی ہے۔
سائنسی تحقیق کے مطابق تو اب کوئی ابہام نہیں رہنا چاہیے کہ انسانی بچہ زیادہ ماں کا ہوتا ہے یا باپ کا، مگر عام لوگوں کا ایک مسئلہ ہے کہ وہ سائنسی تحقیق کے مطابق نہیںبلکہ بچوںکے رویوں کامشاہدہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ بچہ ماں یا باپ میں سے کس پر زیادہ گیا ہے۔ گو کہ اس طرح کے مشاہدات کے ذریعے بچوں کے متعلق اخذ کردہ نتائج کو اکثر سائنسی تسلیم نہیں کیا جاتالیکن بعض سائنسدانوں کے مطابق اس طرح کے نتائج کو مطلق غیر سائنسی بھی نہیں کہا جاسکتا جو سائنسدان اس طرح کے نتائج کو نیم سائنسی تصور کرتے ہیں انہیں انسانی کرداروں کی رنگا رنگی نے اس طرح سوچنے کی طرف مائل کیاہے۔ انسانی کرداروں کے تنوع نے سائنسدانوں کو یہ سوچنے پر اُکسایا کہ انسانی شخصیت فطرت سے بنتی ہے یا پرورش کا نتیجہ ہوتی ہے اور مزید یہ کہ کسی کا ڈی این اے (جینز) اس کی شخصیت پر کس حد تک اثر انداز ہوتا ہے ۔ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لیے محققین نے جڑواں بچوں، گود لیے ہوئے بچوں اور دیگر بچوں کی خاندانی زندگی کے مطالعے میںکئی دہائیاں صرف کیں۔
اس مطالعے سے وہ یہ سمجھنا چاہتے تھے کہ بچوں کی شخصیت پر کتنا جینیاتی اور کس حد تک ماحولیاتی اثر ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے دوران سا ئنسدانوں نے خاص طور پر جڑواں بچوں کو اپنا مرکز نگاہ بنایا۔ اپنی تحقیق کے لیے انہوں نے ایک جیسے اور مختلف نظر آنے والے ایسے جڑواں بچوں کے رویوں کا مشاہدہ کیا  جن کی پرورش ایک ہی جگہ یا مختلف مقامات اور ماحول میں کی گئی تھی۔ تحقیق کے بعد اخذ کردہ نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ ایک چھت کے نیچے یا مختلف مقامات پر پرورش پانے والے ایک جیسے جڑواں بچوں کی شخصیات اور رویے بہت حد تک ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے۔ سائنسدانوں نے ایسے نتائج سے یہ اخذ کیا کہ بچوں کی شخصیت کی کئی خصوصیات جینز کی مرہون منت ہوتی ہیں ۔
مذکورہ نتائج کے باوجود سائنسدان یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ماحول بچوں کی شخصیت کی تشکیل میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔ جڑواں بچوں کے مطالعہ کے بعد یہ اندازہ پیش کیا گیا کہ ہم شکل جڑواں بچوں کی شخصیت میں قریباً 50  فیصد اور غیر ہم شکل جڑواں بچوں میں صرف 20 فیصد خصوصیات یکساں ہوتی ہیں۔ ان نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے بلا جھجھک یہ کہا جاسکتاہے کہ جنیاتی وراثت ہی نہیں بلکہ ماحولیاتی عوامل بھی بچوں کی شخصیت کی تشکیل پر اثر انداز ہوتے ہیںمگر ان دونوں عوامل میں اولاد پر ماں کی جینز اور اس کی ممتا کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button