ColumnImtiaz Ahmad Shad

کیا ہم غلام ہیں؟ ۔۔۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

قانون فطرت ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے،بعد میں ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں یاکرد یئے جاتے ہیں کہ وہ غلامی کا طوق پہننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ لیفٹیننٹ کرنل ہیرالڈ آرتھر ڈین برطانوی ہند کے ایک سرکاری منتظم تھے، انھوں نے 1895 میں مالاکنڈ میں بطور پولیٹیکل ایجنٹ کے کام کیا اور وہ اس صوبے کے 1901 میں پہلے چیف کمشنر تھے۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں کو غلام بنانے کے بڑے ماہر تھے۔انفرادی اور اجتماعی سطح پر وہ انسانی سوچ کو اس حد تک تبدیل کرنے کی مہارت رکھتے تھے کہ لوگ ان کی غلامی کو باعث شرف تصور کرتے۔کرنل ڈین کے مطابق کسی طاقتور قوم کو بغیر جنگ کیے غلام بنانے کے کچھ مخصوص طریقے ہوتے ہیں۔

ایسی قوم کو بیرونی حملوں سے نہیں بلکہ اندرونی سازشوں سے توڑا جا سکتا ہے۔ اس طرح نہ تو خون خرابا ہوتا ہے نہ جائیدادوں کا نقصان۔ بس یہ طریقہ سست اور صبر آزما ہوتا ہے۔ کسی قوم کو بغیر جنگ کے غلام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں کے ذہن کنٹرول کیے جائیں۔ جب تک کسی انسان کا ذہن آزاد ہو گا وہ غلامی کو قبول نہیں کرے گا۔ اگر کوئی عوام کا زندگی کے بارے میں نظریہ اور اقدار اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتا ہے تو وہ عوام کی سمت بھی کنٹرول کر سکتا ہے اور انہیں بڑی آسانی سے غلامی یا تباہی کی طرف بھی دھکیل سکتا ہے۔

اس کے بقول قوم چند ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اور غلام بنانے کے لیے ان ستونوں کو توڑنا ضروری ہوتا ہے۔سب سے پہلے وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ افراد کو حقیقت کے علم سے دور رکھا جائے،میڈیا اس کے لیے بہترین اور موثر ذریعہ ہے۔میڈیا کو کنٹرول کر کے عوام کو کسی بھی واقعہ کی غلط رپورٹنگ دی جاتی ہے۔ رنگ آمیزی کے ساتھ جھوٹ کو اس قدر دوہرایا جاتا ہے کہ لوگ اسے ہی سچ سمجھنے لگتے ہیں۔میڈیا کی مدد سے معاشرے میں عدم رواداری کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اختلافات کو ہوا دے کر ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے۔ قومی اور اخلاقی قدروں کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ یہ کام اس وقت اور بھی آسان ہو جاتا ہے جب لوگوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ، بے فکر، سمجھ بوجھ سے عاری اور حقیقت حال سے بے خبر ہوتی ہے۔

کرنل ڈین کا کہنا ہے کہ غلامی کے لیے کسی بھی قوم کی نئی اوراگلی نسلوں کو بگاڑناضروری ہے اور یہ کام آسان بھی ہے۔اس مقصد کے لیے سب سے پہلے سکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ انگریزی کہاوت ہے کہ تاریخ ایک ہتھیار ہے۔ دشمن کو تاریخ سے دور کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ اسے نہتا کرنا۔اس کام کے لیے بے معنی ناول، فلمیں، ڈرامے اور سوشل پلیٹ فارمز کی دلچسپیاں لوگوں کو با آسانی تاریخ سے دور کر کے دفاع کو کمزور کر دیتی ہیں۔ بچوں کو ایجوکیشن کے نام پر غلط تعلیم دی جاتی ہے اورتاریخ مسخ کرکے پڑھائی جاتی ہے۔ انہیں آہستہ آہستہ وہ اصول سکھائے جاتے ہیں جو خودی اور خودداری ایسے قیمتی اثاثے کو ان کی روح سے نکال دیتے ہیں۔اس عمل سے ایسی ذہن سازی کی جاتی ہے کہ وہ مذہبی اور اخلاقی قدروں کو شخصی آزادی کی راہ میں رکاوٹ قرار دینا شروع کردیتے ہیں۔ بقول شیخ سعدیؒ درست علم سے دوری غلامی کی مہر ثبت کر دیتی ہے۔جب نئی نسل کو اس سوچ کے ساتھ پروان چڑھایا جاتا ہے تو پھراسے قومی اور سیاسی نظریات  سے بھٹکایا جاتا ہے تاکہ وہ کسی وقت بھی بطور مہرہ بآسانی کام آسکیں۔

جس ملک کو توڑنا مقصود ہو اس کی حکومت میں اپنے نظریات کے حامی افراد داخل کر دیے جاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ لوگوں کا حکومت پر انحصار بڑھایا جاتا ہے۔ جب اعلیٰ عہدوں یاسطح پر ایسے لوگ آ جاتے ہیں تو دشمنوں کے ایجنٹوں کو اس ملک میں کارروائیاں کرنے کی چھوٹ مل جاتی ہے اور جب حکومت کی اعلیٰ ترین سطح پر اپنے لوگ داخل کرلیے جاتے ہیں تو اگلا وار اس ملک کی فوج کو کمزور کرنا ہوتاہے، مثلاً فوجی بجٹ میں کٹوتی کرکے یا پابندیاں لگا کر،فوج پر الزام تراشیاں کر کے اس کا مورال اور کارکردگی گرائی جا سکتی ہے اور پھر فوج اور عوام کو مدمقابل لا کھڑا کیا ہے۔

نفرت اور حقارت کی تیز ہوائیں چلائی جاتی ہیں جس سے ملک میں بدامنی اور بے چینی کا راج ہوتا ہے۔گھمسان کے اس رن میں جذبہ حب الوطنی ختم کرکے ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ عام لوگ وطن کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ہر لحاظ سے حب الوطنی کے جذبات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔کسی قوم کو متحد رکھنے میں سب سے اہم کردار ثقافت اور زبان کا ہوتا ہے۔اگر قانون سازی کر کے یا سماجی دبائو ڈال کر ثقافت اور زبان کو بگاڑ دیا جائے تو اس ملک کی جڑیں ہل جاتی ہیں۔ جس قوم کو توڑنا مقصود ہو اس کی عام رائج زبان کو سرکاری زبان نہیں بننے دیا جاتا اور کثیر الثقافتی معاشرے کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ جس کی زندہ مثال ہے کہ پاکستان کی آزادی کو 75سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر آج بھی قانون انگریزی زبان میں بنایا جاتاہےاورانصاف کے اداروں کی زبان بھی انگریزی ہے۔کسی بھی قوم کو غلام بنانے کا مضبوط اور پائیدار طریقہ یہ ہے کہ اس کی معیشت پر مکمل کنٹرول کر لیا جائے۔

جب معیشت مضبوط ہوتی ہے اور لوگ خوشحال ہوتے ہیں تو حکومت بھی انہیں اپنی مرضی سے ہانک نہیں سکتی۔ اس لیے لوگوں کو غلام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں معاشی طور پر کمزور کیا جائے۔ لوگوں کا حکومت پر انحصار بڑھانے کے لیے فلاحی منصوبے اور عوام کے لیے قرضے شروع کیے جاتے ہیں جو حکومتی شرائط پر ملتے ہیں اور اس طرح لوگ حکومت کے محتاج ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ان فلاحی کاموں کے نام پر بڑے بڑے قرضے لیے جاتے ہیں جنہیں ادا کرنے کے لیے ٹیکس بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس طرح عوام کی جیب سے ہی پیسے چرا کر عوام کو ہی محکوم بنایا جاتا ہے۔ جب ملک پر قرضہ بڑھ جاتا ہے تو کرنسی کی قوت خرید بھی گر جاتی ہے۔ آمدنی کا بڑا حصہ سود ادا کرنے پر خرچ ہونے لگتا ہے اور معیشت تباہ ہو جاتی ہے۔

ایک امریکی سماجی اور سیاسی رہنما ـسائول ڈیوڈ النسکی کے مطابق  دور جدید میں غلام زنجیروں میں نہیں بلکہ قرض میں جکڑے جاتے ہیں، اسی طرح کسی بھی ریاست کو کنٹرول کرنے کے لیے النسکی نے 8اصول بیان کیے ہیں۔ اس کے مطابق ہیلتھ کیئر مراکزپر مکمل کنٹرول سے عوام کو کنٹرول کیاجاسکتا ہے۔اس کے بقول غربت بڑھانی چاہیے کیونکہ غریب لوگوں کو قابو کرنا آسان ہوتا ہے۔ اگر آپ غریبوں کو سامانِ زندگی فراہم کریں گے تو وہ آپ سے نہیں لڑیں گے۔تیسرے نمبر پر قرض کی لت ڈالنا ضروری ہے۔ اگر قرضے بہت بڑھ جائیں تو ٹیکس بڑھایا جاسکتاہے۔ اس سے غربت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اسلحے پر کنٹرول کر کے کسی بھی ریاست کو پولیس اسٹیٹ بنانا ممکن ہو جاتا ہے۔

عوام کی زندگی کے اہم معاملات (خوراک، گھر، آمدنی) پر کنٹرول، تعلیم اور مذہب کو اپنی منشا کے مطابق ڈھالنا جب کہ عوام کو امیر اور غریب میں تقسیم کرنا کسی بھی ریاست اور اس کے باشندوں کو غلام بنانے کے لیے بنیادی اقدامات ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button