ColumnKashif Bashir Khan

سب سمیٹنا ہو گا …. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

عمران خان نے میانوالی میںبھرپور جلسے سے اپنےآزادی مارچ کی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔دوپہر کے باوجود لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی اور عمران خان کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کروائی۔پاکستان کی سیاست میں اس وقت بہت کڑواہٹ ہے۔ سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان گھمسان کی جنگ لڑی جا رہی ہے، لیکن اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ عمران خان نے بطور سیاست دان اس ملک کی سیاست پرقابض روایتی خاندانوں کو ایسی گزند پہنچائی ہے کہ جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔

مالی طور پر دنیا بھر کے امیر خاندانوں میں شمار ہونے والے شریف اور زرداری خاندان کا اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں بہت بری طرح استقبال کیا جا رہا ہے اور اکثریتی حکومت کو گھر بھیج کر اقتدار پر قبضہ کرنے کے باوجود عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ گیارہ اپریل کے بعد پاکستان میں کوئی بھی حکومت موجودنہیں۔

موجودہ حکومت امپورٹڈ حکومت کا طوق گلے میں لٹکائے پھر رہی ہے اور کسی قسم کا تاثر قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ اب نوبت یہ پیش آ چکی ہے کہ میاں شہباز شریف کو شانگلہ میں ایک سرکاری جلسے کا انعقاد کرانا پڑا۔اس سے پہلے مریم صفدر نے فتح جنگ میں جلسہ کیاجو بہت بری طرح فلاپ ہوا لیکن اس ناکام جلسے میں بھی مریم صفدر نے ایک حاضر سروس جنرل کے خلاف گفتگو کی جس کے بعد انہیں شانگلہ جلسے میں شرکت سے روک دیا گیا اور میاں شہباز شریف کو خود شانگلہ جلسے میں شرکت کرنی پڑی۔

اس جلسے میں جو تقریر کی گئی اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور جو دعوے وہ اس سرکاری جلسے میں کرتے رہے ان کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ عمران خان کی صوبہ خیبر پختونخوا میں موجود حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش ہے اور موجودہ سیاسی صورتحال میں ایسی کسی کوشش کا اس حکومت کو فائدہ نہیں مل سکتا۔کاش شہباز شریف سندھ میں جا کر وہاں کے عوام کی بدترین حالت پر بول سکتے لیکن ایسا نہیں ہو گا کیونکہ وہاں جس سیاسی جماعت کی حکومت ہے وہ تو شہباز شریف کو اقلیت میں ہونے کے باوجود اقتدار میں لائےلیکن اندر کی خبر یہ ہے کہ جس (ن) اور (ش)کی بات شیخ رشید بہت عرصے سے کرتے چلے آ رہے تھے اس کا عملی مظاہرہ شانگلہ کے جلسے میں دیکھنے کو ملا اور وزیر اعظم کو خود جلسے میں جا کر تقریر کرنا پڑی۔

پوچھنے والے تو یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کی حمایت کرنے والی پی پی پی اور دوسری سیاسی جماعتیں صوبے کی خودمختاری میں دخل دینے پر خاموش کیوں ہیں؟ویسے بھی عوام جانتے ہیں کہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا میں صحت کارڈ کے بعد تمام شہریوں کا علاج مفت ہوتا ہے اورایسے میں وزیر اعظم کا شانگلہ میں مفت ادویات کی فراہمی کے اعلان کو کیا کہا جائے گا؟

اس حقیقت کو ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ اس اتحادی حکومت کو عوام ماننے کو تیار نہیں ہیںجس کاثبوت واپڈاکے چیئرمین لیفٹیننٹ (ر) تجمل حسین (جو مختلف ڈیمز پر بہت مہارت سے کام کر رہے تھے) کا اپنے عہدے سے اس بناء پر کام کرنے سے انکار ہے کہ میں موجودہ حکومت کی ترجیحات کی بناپر ان کے ساتھ کام نہیں کرسکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جنرل(ر)تجمل حسین کا استعفیٰ پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہے۔کچھ افسران بالا (جن کا تعلق پولیس اور دوسرے اداروں سے ہے) کی جب مجھ سے بات ہوئی تو تمام ہی یہ کہتے ہوئے پریشان دکھائی دیئے کہ جو حکومت مرکز اور پنجاب میں لائی گئی ہے،

ان کے ساتھ کام کرنا بہت ہی مشکل ہے۔اقتدار نے ایک بہت بڑی دراڑ شریف خاندان میں پیدا کر دی ہے اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ افواج پاکستان کے خلاف جو کچھ بولا گیا وہ اداروں اور ایک حاضر سروس جنرل کے خلاف ایسا زہر تھا کہ جو ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جا سکتا ہے۔

ملکی سیاست میں اس وقت شدید طلاطم برپا ہے جس کی زد میں تمام حکومتی و ریاستی ادارے ہیں اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ نظام آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ایسے میں رانا ثنا اللہ کے بیانات اور اقدامات پاکستان میں سیاست کی تلخی کو ایسی آگ میں بدل سکتی ہے جو سب کچھ جلا کر بھسم کر دے گی۔ وزیر داخلہ کو اس قسم کی بیان بازی کرنے سے قبل بارہا سوچنا چاہیے کہ ملک میں نہ تو نوے کا ماحول ہے اور دوسرا، اس وقت عوام کی بہت ہی بڑی تعداد کی ناپسندیدگی کا مرکز موجودہ حکومت ہے جو صرف دو ووٹوں کے سہارے کھڑی ہے اور الیکشن کمیشن کو بے پناہ عوامی اور تحریک انصاف کے دباؤ پر 26 اراکین اسمبلی کو آج نہیں تو کل دی سیٹ کرنا ہی پڑے گا۔ گویا مرکزی اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں ندی کے گیلے اور کمزورکنارے پر کھڑی ہیں۔

ملکی سالمیت کے تناظر میں عمران خان کے جلسوں میں عوام کی جوک در جوک شرکت سے زیادہ عمران خان کاجارح ہونا میرے لیے پریشان کن ہے۔عمران خان کا بیانیہ اور باتیں اس وقت عوام کے دلوں میں تیرہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔عوام کی طاقت بڑی طاقت ہوتی ہے اس طاقت کے حامل سیاسی رہنما پر عوام کو کنٹرول کرنے کی بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ عمران خان کو اس عوامی طاقت کو اپنی حکومت واپس لانے کے لیے نہایت عقلمندی اور مہارت سے استعمال کرنا ہو گا۔

عمران خان کی میانوالی میں تقریر جذبات اور جارحیت سے بھرپور تھی اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ جارحیت مزید بڑھتی دکھائی دے گی۔ملکی بدترین سیاسی حالات کی لپیٹ میں تمام ہی ریاستی ادارے آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ریاستی اداروں کو ملک بچانے کے لیے اور تازہ عوامی مینڈیٹ کی فراہمی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہی ہو گا۔اداروں کو فوراً اپنا رول ادا کرنا ہو گا کہ ہم خانہ جنگی کے متحمل نہیں ہو سکتے اور کہیں دیر نہ ہو جائے۔ نظام بکھر چکا اور اسے فوری سمیٹنا ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button