ColumnZameer Afaqi

قبل از وقت انتخابات کا شور کیوں؟ ۔۔۔۔ ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

جب سے موجودہ حکومت خان حکومت کو ہٹا کر برسر اقتدار آئی ہے ،اپوزیشن کی تیسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین قبل ازوقت انتخابات کو ہی تمام سیاسی مسائل کا حل قرار دے رہے ہیں ، عمران خان کا کہنا ہے کہ اس وقت جہاں ملک کھڑا ہے ،سوائے قبل از وقت الیکشن کے کوئی چیز نظر نہیں آرہی۔ وہ ایسا کیوںکہہ کر رہے ہیں اس پر مارکیٹ میں چلنے والی افواہوں اور ان کے پیچھے  وجوہات کو دیکھا جائے تو وہ ان کے بیان کو تقویت دیتی ہیں، لیکن زمینی حقائق کیا ہیں کیا قبل از وقت الیکشن ضروری ہیں ،ہونے چاہئیں یا نہیں۔مختلف حلقوں میں یہ بحث و مباحثہ جاری ہے اور یہ سوال ہر کسی کی زبان پر ہے۔

پی ٹی آئی کے مختلف رہنمائوں سے لیکر گلی محلے کے کارکنوں کے بیانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پارٹی میں اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اگر الیکشن قبل از وقت نہ ہوئے تو پھر خان دوبارہ کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکے گا اس لیے وہ اس مطالبے کو شد و مد سے ہر فورم پر دہرا رہے ہیں، دوسری طرف پی ٹی آئی کے اندر یہ سوچ بھی نظر آرہی ہے کہ حکومتی اتحاد اس وقت نہایت مشکل حالات سے گزر رہا ہے، اس لیے موجودہ حالات میں انتخابات سے پی ٹی آئی وہ فائدہ حاصل کر سکتی ہے جو وہ دو ہزار تیرہ میں حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔

اس وقت زیادہ اہم مسئلہ جو آئینی اور قانونی پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے وہ مردم شماری کے نتیجے میں نئی حلقہ بندیوں کا ہے۔ جب تک آئین میں ترمیم کر کے نشستیں بڑھانے کی منظوری نہیں دی جاتی، نئی حلقہ بندیاں موجودہ تعداد کے اندر ہی کرنا ہو ں گی۔

ادھرفری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن )کا کہنا ہے کہ قبل از وقت انتخابات کی راہ میں آئینی اور قانونی پیچیدگیاں ہیں۔پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال اور آئینی بحران پر فافن نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور قبل ازوقت انتخابات کے انعقاد پرمتعدد آئینی، قانونی اور آپریشنل چیلنجز کی نشاندہی کی ہے۔فافن کا کہنا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا سے الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری ہوناابھی باقی ہے جب کہ خواتین ووٹرز کی کم رجسٹریشن بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔فافن کے مطابق موجودہ صورت حال میں سیاسی جماعتوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے کارکنان کو کنٹرول کریں تاکہ سیاسی اختلافات پرتشدد واقعات میں تبدیل نہ ہوجائیں۔فافن کے مطابق قبل از وقت انتخابات کی راہ میں بہت سی آئینی اور قانونی پیچیدگیاں ہیں،

سب سے بڑا مسئلہ کسی بھی الیکشن کی قانونی حیثیت کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا مکمل ہونا ہوتا ہے جب کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا سے الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری ہونا ابھی باقی ہے۔قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نگران حکومت میں آئین کے آرٹیکل 213 (2بی) کے تحت الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری غیرواضح ہے کیوں کہ اس کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو تقرری کا عمل شروع کرنا ہوتا ہے جس کے لیے صرف سینیٹرز پر مبنی خصوصی کمیٹی بنائی جاتی ہے۔
ایک اور آئینی اور قانونی مسئلہ یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی موجودہ حلقہ بندی 2017 کی مردم شماری کے ضمنی نتائج کی بنیاد پر ہے۔ اسی طرح الیکشنز ایکٹ، 2017 کی حالیہ ترامیم پر عمل درآمد جو کہ ای وی ایمز کے استعمال سے متعلق ہے، وہ بھی غیر واضح ہے۔

خواتین کی ووٹرز کی حیثیت سے کم رجسٹریشن بھی اہم مسئلہ ہے، قریباً ایک کروڑ 13 لاکھ 70 ہزار خواتین اب بھی ووٹرز کی حیثیت سے غیررجسٹرڈ ہیں۔اگر تین ماہ کے اندر انتخابات کا کہا جاتا ہے تو الیکشنزایکٹ کے سیکشن 39 کے تحت الیکٹورل رولز کو الیکشن پروگرام کے اعلان سے 30 روز قبل منجمد کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح لاکھوں خواتین ووٹ کے حق سے محروم ہوجائیں گی۔

ادھر دانشوروں کے گروپ’’فیئر‘‘نے اپنے ’’فیئر ٹاک‘‘پروگرام میں فوری الیکشن سے پہلے الیکشن ریفارم اور نئی حلقہ بندیوں کی تجویز دی ہے۔ دانشور کے گروپ ’’فیئر‘‘ کے زیر اہتمام چیئر مین فیر گروپ اینکر عبدالباسط خان کے گھر عید ملن پارٹی اور ملک کے اہم مسائل پر فیئر ٹاکک ا اہتمام کیا گیا جس میں ملک کے معروف اور ممتاز دانشوروں،سینئر صحافیوں،کالم نگاروں،اینکرزاور کاروباری شخصیات نے شرکت کی، ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کے تناظر میں شیر علی خالطی نے سوال اٹھایا کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قبل از وقت ا نتخابات کے بارے آپ کی کیا رائے ہے جس پر شرکاء کی اکثریت نے گفتگو کرتے ہوے قبل از وقت الیکشن کی تجویز یا مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے الیکشن کاانعقاد اپنے وقت پر کرانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملکی معاشی حالات اس کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ فوری الیکشن کرائے جائیں شرکاء کی اکثریت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ موجودہ حکومت کو سب سے پہلے الیکشن ریفارم پر توجہ دینے کے ساتھ نئی حلقہ بندیاں کرانی چاہئیں تاکہ صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے،

شرکاء نے یہ بھی کہا کہ اگر آئندہ انتخابات میں ماضی کے طرح مداخلت ہونی ہے تو پھر الیکشن جلد ہوں یا دیر سے کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ ماضی کی طرح یہ انتخابات بھی متنازعہ قرار پائیں گے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے صاف شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔

شرکاء نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ملک کے تمام مسائل کا حل جمہوری استحکام میں ہے، جمہوریت ہی واحد طرز حکومت ہے جس کے ذریعے سے ہم ملک کو تعمیر و ترقی میں آگے لے جا کر دنیا کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات قائم کر سکتے ہیںالبتہ چند شرکا نے فوری انتخابات کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ملکی سیاسی صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ فوری انتخابات کروا کر ملک میں سیاسی استحکام لایا جاے۔ ’’فیئر ٹاک‘‘ میں گفتگو کر نے والے شرکاء میں شیر علی خالطی،حامد ولید،ڈاکٹر قیس اسلم، ڈاکٹرایم علی حمزہ،عبدالباسط خان،ضمیر آفاقی، عبدالباسط، راناذولفقار،عمران یوسف،عاصم حسین، شاہد نذیر، ضیامحمود خان، الماس جویندہ قابل ذکر تھے۔

بعد ازاں اس امر پر بھی اتفاق کیا گیا کہ ’’فیئرٹاک‘‘ کے ذریعے ملکی و بین الاقوامی اہم مسائل پر گاہے بگاہے گفتگو کے ذریعے حکومتی زمہ داروں کو ملکی بہتری کے لیے تجاویز دیتے رہنا چاہیے تاکہ ہمارا ملک بہترین طرز حکومت کا حامل بن کر عوام کی خدمت کر سکے اور دنیا کے ساتھ آبرو مندانہ تعلقات قائم کر سکے۔

ملکی سیاسی صورت حال بارے فکر مند صرف فیئر جیسے تھنکر گروپ ہی نہیں دیگر تھنک ٹینک، دانشور اور بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین بھی حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اپنی اپنی جگہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ضرورت بھی اس امر کی ہے۔ ہمیں بحیثیت پاکستانی ہر طرح کے تعصبات، تفرقات اور اختلافات کو بھلا کر ملکی سلامتی ،ترقی اور یکجہتی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لیڈروں کو اس بات کا احساس دلاتے رہنا چاہیے کہ آپ کے نفرت پر مبنی بیانات، تقریریں عوام میں مزید تقسیم اور غصے کا باعث بن رہی ہیں جس پر قابو پانا انتہائی ضروری ہے ورنہ یہ ’’ لسانی آگ‘‘ ہمارا سب کچھ جلا کر بھسم کر دے گی پھر کسی کا گریبان اور گھر نہیں بچے گا جہاں اس کی تپش نہیں پہنچے گی بلکہ دانشوروں کے گروپ میں یہ باتیں بھی ڈسکس ہو رہی ہیں کہ مذہبی کارڈ کے بڑھتے ہوئے سیاسی استعمال سے ہم آنے والی حکومتوں اور نسلوں کی راہ میں کانٹے بچھا رہے ہیں اس لیے سیاست میں نفرت ،تقسیم ا ور مذہبی کارڈ کا استعمال بالکل نہ کیا جائے بلکہ ملکی معاشی اور سماجی حالات کو بدلنے کے لیے اپنی توانائیاں خرچ کی جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button