تازہ ترینخبریںسپیشل رپورٹ

گرمی کی غیرمعمولی شدت سے بھارت، پاکستان میں ہزاروں ہلاکتوں کا خدشہ

پیرس سے شائع ہونے والی ایک تحقیق میں ماحولیاتی تبدیلی کے ماہرین نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو پچھلے دو ماہ سے گرمی کی تباہ کن لہر نے لپیٹ میں لیا ہوا ہے جو غیرمعمولی ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی تیزی سے جاری ہے جس سے صورت حال شاید زیادہ خراب ہو۔

غیر ملکی خبر ایجنسی اے ایف پی کے حوالے سے بتایا گیا کہ رواں ہفتے شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ عالمی درجہ حرارت میں بغیر کسی اضافے کے بھی جنوبی ایشیا میں بھی کیلیفورنیا طرز کے ایک بڑے زلزلے کے خطرات ہیں۔

بھارت اور پڑوسی ملک پاکستان میں مارچ اور اپریل میں شدید گرمی کے باعث ایک ارب سے زیادہ لوگوں کو 40 ڈگری سینٹی گریڈ (104 فارن ہائیٹ) کے جھلسانے والے گرمی کا سامنا رہا جبکہ سال کے گرم ترین دنوں کا آنا بھی باقی ہے۔

ماحولیاتی سائنسی تحقیق کرنے والے غیر منافع بخش ادارے برکلے ارتھ کے بڑے سائنسدان رابرٹ روہڈے نے ٹوئٹ میں بتایا کہ اس گرمی کی لہر سے ہزاروں لوگ ہلاک ہوسکتے ہیں۔

اضافی اموات کی تعداد خاص طور پر ادھیڑ عمر تنگ دست افراد زیادہ ہوسکتی ہے، جو بظاہر واضح ہوگی۔

بھارت کی وزارت ارتھ سائنس کے مطابق بھارت میں گرمی کے باعث شرح اموات میں 1980 سے 60 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔

عالمی ماحولیاتی ادارے کے چیف پیٹری تالاس نے کہا کہ ہم پہلے ہی زرعی پیدوار، پانی، توانائی کی رسد اور دیگر شعبوں میں اثرات صاف طور پر دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہوا کا معیار خراب ہوچکا ہے اور زمین کے بڑے حصے کو آگ کے شدید خطرات لاحق ہیں۔

پچھلے ہفتے بجلی کی طلب میں ریکارڈ سطح تک ہونے والے اضافے کے بعد بجلی کا بلیک آؤٹ ہوا، یہ اس خطرے کی نشان دہی ہے کہ اگر درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوا تو کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

یہ ماحولیاتی سائنس دانوں کے لیے حیران کن نہیں ہے۔

امریکا کی ہوائی یونیورسٹی کے پروفیسر کمیلو مورا نے کہا کہ مجھے یہ بات غیر متوقع لگتی ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو اس پر حیرانی ہوتی ہے حالانکہ ہم کتنے عرصے سے آنے والی آفات کے خطرات سے آگاہ کر رہے ہیں۔

دنیا کا یہ خطہ اور زیادہ تر ٹروپیکل علاقے گرمی کی لہر سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

مورا نے بینچ مارک تجزیے 2017 میں بتایا کہ دنیا کی تقریبا نصف آبادی کو مہلک گرمی کو 2100 تک ہر سال 20 یا اس سے زیادہ دنوں کے لیے سامنا کرنا ہوگا حالانکہ اگر عالمی درجہ حرارت 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے رکھا جائے جس کو پیرس معاہدے کے تحت بنیادی ہدف رکھا گیا ہے۔

امپیریل کالج لندن کے گرانتھم انسٹیٹیوٹ کے سربراہ فریڈریک اوٹو نے سوال اٹھایا کہ کس حد تک ماحولیاتی تبدیلی کو زمین کے بھڑکتے ہوئے درجہ حرارت کے لیے وجہ ٹھہرایا جاسکتا ہے، جس کی صورت حال اب بھارت اور پاکستان میں بہتر ہورہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم یہ جاننے کے لیے اب بھی کام کر رہے ہیں کہ گرمی کی یہ خاص لہر کتنی شدید ہو سکتی ہے اور اس کے کتنے امکانات ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک شدید گرمی کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی بڑا گیم چینجر ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ جو گرمی ہم ابھی دیکھ رہے ہیں اگر کم نہیں ہوئی تو یہ 2 ڈگری اور 3 ڈگری سینٹی گریڈ کی دنیا میں معمول کے مطابق ہوگا۔

زمین کے موجودہ درجہ حرارت کی سطح صنعت کاری سے قبل کی سطح کے مقابلے میں اوسطاً 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہے۔

نیشنل کاربن میں کمی کا وعدہ جو پیرس معاہدے میں کیا گیا تھا، اگر پورا ہوجاتا ہے تب بھی دنیا 2.8 ڈگری سے زیادہ گرم ہو جائے گی۔

انٹرگورنمنٹ پینل آن کلائمنٹ چینج (آئی پی سی سی) نے حالیہ لینڈمارک رپورٹ میں بتایا کہ بھارت اور پاکستان میں زیادہ گرمی کی شدید لہروں کو طویل دورانیے اور کثرت کے ساتھ ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

امپریل کالج لندن کے محقیق ماریان زیک رایا نے کہا کہ انسانی سرگرمیوں کے باعث عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے پہلے ہم نے بھارت میں 50 برسوں میں ایک بار شدید گرمی دیکھی۔

انہوں نے کہا کہ اب زیادہ بلند درجہ حرارت کی توقع چار سال میں ایک بار ہونے کا امکان ہے جبکہ مزید بڑھتا عالمی درجہ حرارت آنے والے عشروں میں کثرت سے شدید گرمیوں کا باعث بنے گا۔

سائنس ایڈوانسز کے نئے مطالعے کے مطابق صورت حال بہت جلد زیادہ خراب ہوسکتی ہے۔

وکی تھامسن کی زیرقیادت برسٹل یونیورسٹی کی ٹیم نے 1960 سے اب تک دنیا میں گرمی کی شدید لہروں کی درجہ بندی کی ہے تاہم ان کا بینچ مارک زیادہ درجہ حرارت نہیں بلکہ یہ تھا کہ گرمی کی لہر کی توقع کے مقابلے میں کتنی زیادہ گرم تھی۔

حیران کن طور پر جنوبی ایشیا اس فہرست میں تقریبا اوپر موجود ہے۔

تھامسن نے وضاحت کی کہ ہم اس کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ درجہ حرارت مقامی سطح پر معمول سے کتنا مختلف تھا، بھارت اور پاکستان میں اب تک گرمی کی تمام لہریں زیادہ شدید نہیں تھیں۔

اس پیمائش کے اعتبار سے 6 دہائیوں میں گرمی کی شدید لہریں جنوب مشرقی ایشیا میں 1998میں ریکارڈ کی گئی تھیں۔

تھامسن نے کہا کہ انڈیا میں اس کے مساوی گرمی کی شدید لہر کا مطلب درجہ حرارت کا ملک کے بڑے حصے میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہونا ہے۔

شماریاتی حساب سے بھارت میں کسی بھی وقت گرمی کی شدید لہر کا امکان ہے، شدید گرمی اس وقت مزید مہلک ہوسکتی ہے جب بلند درجہ حرارت نمی کے ساتھ ہو، اپنی ہی یارڈاسٹک کے ساتھ مکس اسٹیم باتھ جو نم بلب (ڈبلیو بی) کے درجہ حرارت کے مانند ہے۔

جب جسم میں گرمی زیادہ ہوتی ہے تو دل اپنی رفتار بڑھا کر خون جلد کو بھیجتا ہے جہاں پسینہ اس کو ٹھنڈا کردیتا ہے لیکن گرمی اور نمی کے باعث ٹھنڈا کرنے والا یہ قدرتی نظام کام بند کر دیتا ہے۔

مورا نے کہا کہ اس کو سورج کی تپش کی طرح سمجھا جائے لیکن یہ آپ کے جسم کے اندر ہوگی۔

نم بلب کا جو درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ ڈبلیو بی ہو وہ صحت مند بالغ نوجوان کو 6 گھنٹوں کے اندر ختم کر سکتا ہے، پچھلے ہفتے بھارت کے شہر ناگپور میں مختصروقت کے لیے 32.2 ڈبلیو بی ریکارڈ کیا گیا تھا۔

انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹروپیکل میٹرولوجی کے ماحولیاتی سائنسدان راکسی میتھیو کول نے کہا کہ صرف ایک ڈگری سینٹی گریڈ کے ردعمل میں ہم شدید گرمی کی لہریں، سیلاب، طوفان اور خشک سالی دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے لیے عالمی درجہ حرارت میں دوگنا اضافے کے اثرات کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button