ColumnHabib Ullah Qamar

لاپتہ افراد کی جدائی کا غم … حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

بھارت کے غاصبانہ قبضہ کے بعد مقبوضہ کشمیر کی سرزمین پر جس قدر انسانی حقوق کی پامالیاں ہوئی ہیں وہ تاریخ انسانیت کا سیاہ ترین باب ہے۔ ایک طرف نو لاکھ بھارتی فوج کے ہاتھوں جہاں نہتے کشمیریوں کی عزتیں، جان و مال اور املاک محفوظ نہیں وہیں لاپتہ افراد کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے۔ 1990ء کے اوائل میں بھارتی فورسز کی جانب سے کشمیری نوجوانوں کو تحریک آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں زبردستی گھروں سے اٹھا کر جیلوں میں ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوااور تیس سال کے عرصہ میں دس ہزار سے زائد لوگوں کو حراست میں لیکر سرے سے لاپتہ کردیا گیا جن کا کسی پولیس اسٹیشن یا جیل میں کوئی ریکارڈ نہیں ۔بھارتی فورسز اور نیم فوجی دستوں کے اہلکار دن کے اُجالے میں کشمیریوں کو زبردستی اغواء کر کے لیجاتے رہے لیکن بعد میں ان کی گرفتاری سے ہی انکار کر دیتےاور آج تک ان کے اہل خانہ کو کچھ نہیں بتایاجارہا کہ ان کے پیارے کس فوجی کیمپ یا جیل میں رکھے گئے ہیں۔ ان کی صحت کیسی ہے؟ وہ زندہ بھی ہیں یا اس دار فانی سے رخصت ہو چکے ہیں،کسی کو کچھ پتا نہیں ۔ ان کے اہل خانہ اور عزیز و اقارب پچھلی دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں مگر ہر جگہ سے انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس وقت جہاںمقبوضہ کشمیر میں لاکھوں شہداء کے لواحقین، یتیم اور بیوائیں موجود ہیں وہیں پر لاپتہ کئے گئے ہزاروں کشمیریوں کے لواحقین ایک مسلسل عذاب اور شدید غم کی کیفیت میں ہیں۔ آج کتنی ہی بہنیں ہیں جو خو د کو نہ تو بیوہ کہلا سکتی ہیں اور نہ ہی شادی شدہ تصور کر سکتی ہیں۔

ہزاروں بچے جو کل تک اپنے والدین کے دامن میں سویا کرتے تھے آج وہ اپنے والد کی شفقت سے محروم ہیں مگر وہ اپنے آپ کو یتیم بھی نہیں کہلوا سکتے۔ 2000ء میں ایک بھارتی فوجی کیمپ کے ایک کونے کھدرے سے بڑی تعداد میں جوتے اور کپڑے برآمد ہوئے تو پہلی بار شک و شبہ کا اظہار کیا گیا کہ جن لوگوں کے کپڑے اور جوتے برآمد ہوئے ہیں انہیں قتل کر کے اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کے اخبارات میں بھی یہ خبریں شہ سرخیوں سے شائع ہوئیں کہ بوسنیا اور کوسووو کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھی اجتماعی قبروں کا انکشاف ہوا ہے۔ میڈیا میں یہ موضوع زیر بحث آنے پر اس وقت کے وزیر اعظم واجپائی نے ایک ٹیم بھی تشکیل دی کہ یہ مقبوضہ کشمیر جاکر اس معاملے کی تحقیقات کرے مگر بعد میں کہہ دیا گیا کہ ایسی کسی خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی اور بات آئی گئی ہو گئی۔ بھارتی فوجی افسروں اور جرنیلوں کی طرف سے محض ترقیوں اور تمغوں کے حصول کے لیے  نہتے کشمیری نوجوانوں کو اغواء کر کے انہیں فرضی جھڑپوں میں شہید کرنے کا سلسلہ بہت زیادہ بڑھا تو پھر یہ باتیں چھپی نہ رہ سکیں اور انکشاف ہوا کہ ہزاروں کشمیریوں کو اب تک ان اجتماعی قبروں میں دفن کیاجاچکا ہے۔ یہ کام بھارتی فوج کی بجائے کسی مسلمان ملک کے سپاہیوں نے کیاہوتا تو پوری دنیا اکٹھی ہو کر اس پر حملہ آور ہو جاتی
لیکن اس قدر ہولناک انکشافات کے بعد محض چند ایک مذمتی بیانات پر ہی گزارا کیا گیا اور اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت کسی عالمی ادارے نے کوئی خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا جس سے بھارتی فوج کے حوصلے بڑھے اور نہتے کشمیریوں کی نسل کشی کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ جب مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی قبروں کاانکشاف ہوا تو مقامی کشمیریوں میں ایک موہوم سے امید پیدا ہوئی کہ شاید اب ان کے پیاروں کا کوئی پتا چل سکے مگر بھارت سرکار نے اپنے ہی بنائے ہیومن رائٹس کمیشن کو کہہ دیا کہ ان ہزاروں قبروں کو نہیں کھولا جاسکتا۔
بھارتی حکمران خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا علمبردار گردانتے ہیں لیکن انہیں ذرہ بھر بھی خیال نہیں آیا کہ مقبوضہ کشمیر میں موجود، وہ ہزاروں نیم بیوائیںسالہا سال سے اپنے خاوندوں کے انتظار میں ہیں اور شادی بھی نہیں کر سکتیں، ان کے دلوں پر کیابیت رہی ہو گی؟کشمیری قوم سوال کرتی ہے کہ کیا انہیں وہ نیم یتیم بچے نظر نہیں آتے جن کے والدین کو بھارتی فورسز نے جرم بے گناہی میں ان کی آنکھوں کے سامنے گرفتار کیااور اب وہ ان کا ایک بار دیدار کرنے کے لیے ترس رہے ہیںاور کیا انہیں ان بوڑھے والدین کا کوئی خیال نہیں جن کے بڑھاپے کی لاٹھی کوزبردستی چھین لیا گیا؟ جن کی شہادت کا علم ہو جائے اور قبر میں دفن کردیاجائے قانون قدرت کے تحت ان کے پیارے انہیں بھول جاتے ہیں مگر لاپتہ  افراد کے لواحقین تو ہر روز صبح شام مرتے ہیں اور ایک نہ ختم ہونے والے غم میں مبتلا ہیں۔ کسی شخص کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کر دینا دنیا کا سب سے بڑا جرم تسلیم کیاجاتا ہے اور یہ ان تمام ملکی اور عالمی قوانین کے خلاف ہے جن پر خودبھارت نے بھی دستخط کررکھے ہیں۔دنیا کے مہذب اقوام کا وتیرہ ہے کہ کسی کو بھی گرفتار کرلینے کے بعد اس پر عدالت میں مقدمہ چلایا جاتا ہے لیکن غاصب بھارت اس ضمن میں ایک انتہائی غیر مہذب ملک کا کردار ادا کررہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں لاپتہ افراد کے لواحقین نے ایک تنظیم بھی بنا رکھی ہے جس کے تحت آئے دن احتجاجی مظاہرے کئے جاتے ہیں۔ خواتین، بچے اور بوڑھے سڑکوں پر نکل کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں ، میڈیاکے ذریعے عالمی برادری کے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر کسی طرف سے ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔
دوران حراست لاپتہ کئے گئے نوجوانوں کے والدین اپنے دلوں میں حسرتوں کے ساتھ خاموش احتجاج اور مزاحمت کی صدائیں بلند کرتے کرتے آہستہ آہستہ اس دنیا سے رخصت ہورہے ہیں۔ کئی مائیںآج بھی اپنے بیٹوں کی تلاش میں آنسو بہا رہی ہیں۔ گمشدہ نوجوانوں کو تلاش کرنے والی مائیں یہ دہائی دے رہی ہیں کہ ان کے بیٹے آخر کہاں گئے؟ کیا انہیں زمین کھاگئی یا آسمان نگل گیالیکن کوئی ان کی باتوں کا کوئی جواب دینے والا نہیں ۔ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں لاپتا افراد کے لواحقین کی تنظیم کی چیئرپرسن پروینہ آہنگر نے بتایاکہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اپنے بیٹوں کے انتظار کا داغ سینے میں لیے کئی والدین چل بسے ہیں۔کسی کا بیٹا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کاطالب علم تھا ، کوئی ٹیچر تھا تو کوئی کسی اور سرکاری محکمہ میں ملازم تھا۔ انہیںگھروں سے اٹھایا گیا مگر بعد میں ان کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ ان کے والدین اور نیم بیوائیں بھارتی فوجی کیمپوں، جیلوں اور پولیس اسٹیشنوں کی خاک چھانتی رہیں لیکن کچھ پتہ نہ چلنے پر وہ ان کے آخری دیدار کی خواہش دل میں سمائے منوں مٹی کے تلے جا پہنچیں۔
بہت سی مائیں ایسی ہیں جو رو رو کر اپنی آنکھوں کی بینائی کھو چکی ہیں۔حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، میر واعظ عمر فاروق، جے کے ایل ایف کے سربراہ محمد یٰسین ملک،شبیر احمد شا ہ اور آسیہ اندرابی سمیت دیگر تمام کشمیری تنظیموں کے سربراہان اقوام عالم، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی پر زور دیتے آرہے ہیں کہ وہ جموں کشمیر میں دس ہزارسے زائد لاپتہ  افراد کی بازیابی میں مدد کریں اور بھارت پر دبائو ڈالیں کہ وہ لواحقین کو ان کے بارے میں معلومات فراہم کرے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں؟ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان جسے کشمیریوں کے وکیل ہونے کی حیثیت حاصل ہے اور ہزاروںمسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کے دور حکومت میں جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم دن بدن بڑھتے جارہے ہیں، اس انتہائی حساس اور اہم مسئلہ پر کسی صورت خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ کشمیریوں کے اصل وکیل ہونے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ فرض بھی ہے اور ان پر قرض بھی، جو ہر صورت ادا کرنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button