
سیاست نہیں ، جنگ …. امتیاز عاصی
امتیاز عاصی
بسا اوقات سیاست دان سیاسی مخالفت میں اس حد تک چلے جاتے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔آج کی سیاست کو ذاتیات کی سیاست کا نام دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔مہذب معاشروں میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ سیاست دان اخلاقی حدوں کو عبور کر جائیں۔تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے اور اقتدار سے ہٹائے جانے کے دورانیے پر غور کیا جائے تو بعض سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے بیانات پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ سیاست دانوں کے منفی رویہ سے عوام کے مسائل جوں کے توں اور سیاست دان آپس میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ہم پیپلز پارٹی کے سنیئر رہنما او ر وفاقی وزیر سید خورشید شاہ کے اس بیان سے متفق ہیں کہ سیاست نے سیاست کامقصد ختم کر دیا ہے۔ سیاست اس طرح ہو رہی ہے جیسے جنگ لڑی جا رہی ہو۔سید خورشید شاہ نے سانحہ مدینہ منورہ پر پی ٹی آئی کے رہنمائوں کے خلاف مقدمات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سانحہ کا مقدمہ مدینہ منورہ میں ہی درج ہو نا چاہیے تھا۔
سید خورشید شاہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں وہ سکھر سے کئی مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔گذشتہ دور میں اپوزیشن لیڈر اور کئی مرتبہ وفاقی وزیر رہ چکے ہیں ۔موجودہ حکومت میں وہ وفاقی وزیر ہیں۔انہوں نے درست کہا ہے کہ سیاست ایسے ہو رہی ہے جیسے جنگ لڑی جا رہی ہو۔تحریک انصاف کے اقتدارمیں آنے اور اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سیاسی ماحول اس قدر پراگندا ہو چکا ہے کہ اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ۔مدینہ منورہ کے واقعہ پر ہر آنکھ آشک بار ہے۔اگرچہ یہ سانحہ بارگاہ رسالت مآب ﷺ کے قریب تو پیش نہیں آیا ۔قابل غور بات یہ ہے اس سے قبل مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے قریب کی ویڈیوز موجود ہیں جس میں مسلم لیگ نون کے کارکن اپنے قائد میاں نواز شریف کے حق میں نعرے بازی کر رہے ہیں۔ زائرین نواز شریف اور شہباز شریف کے حق میں نعرے بازی کرتے نہ تو مقدمہ کا اندراج ہوتا اور نہ ہی اتنا شورغوغا ہوتا۔ہم مسلمان تو روضہ اقدس پر درود سلام پیش کرتے ہوئے روضہ اقدس کی طرف پشت کرنے کا تصور نہیں کر سکتے ۔
بارگاہ رسالت مآب ﷺ تو مسلمانوں کے دلوں کو منور کرنے کا مقام ہے جہاں شاہ و گداسبھی نگاہیں نیچی کئے سلام پیش کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلام ﷺ کا ارشاد ہے اگر تمہیں اس حقیقت کا علم ہوجائے تو مدینہ منورہ تمہارے لیے خیروبرکت کی جگہ ہے۔ سرکار دوعالم ﷺ نے احد پہاڑ جو مسجد نبوی سے کئی میل دور مسافت پر واقع ہے اسے جنت کا پہاڑ قرار دیا ہے۔گویا ہم مسلمانوں کے لیے مدینہ منورہ کا چپہ چپہ ادب واحترام کی جگہ ہے۔آج سیاست دانوں کو اپنی جماعت کے کارکنوں کو اخلاقیات کا درس دینے کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے کے خلاف مقدمات کوئی اچھا شگون نہیں ۔سیاست دان جس طرح دست وگریبان ہیں پہلے کبھی نہیں تھے۔اقتدار تو آنے جانے والے چیز ہے اگر سیاست دان اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھ کربیانات دیں گے تو اس کے معاشرے پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے ۔ سیاست دان بیانات دیتے وقت اخلاقی اقدار کو بھلا دیں گے تووہ عوام پر کوئی اچھے تاثرات نہیں چھوڑیں گے۔
ہمیں افسوس ہے کہ جب کوئی جماعت اقتدار میں آتی ہے تو اپنی ناکامیوںکا ملبہ جانے والی جماعت پر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔ایک طرف وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پی ٹی آئی دور کو معاشی لحاظ سے بدترین دور قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف حماد اظہر ان کے بیانات کو رد کر رہے ہوتے ہیں۔ عوام کس کی بات پر یقین کریں ۔سیاست دانوں کو سچ بولنے کی عادت ڈالنی چاہیے ۔عوام کو بیوقوف بنانے سے کیا حاصل ہو گا۔اسلام میں جھوٹ بولنے کی سخت ممانعت ہے لہٰذا سیاست دانوں کو جھوٹ بولنے سے گریز کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان سفارتی خط والے معاملے پر کمیشن بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے ۔وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ حکومت نے اس معاملے پر کمیشن بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بہت اچھی بات ہے ۔ اگر تحقیقاتی کمیشن سپریم کورٹ کے کسی معزز جج کی سربراہی میں قائم کر دیا جائے تو کوئی حلقہ اس پر معترض نہیں ہوگا۔موجودہ حکومت اور تحریک انصاف دونوں کی بہتری اسی میں ہے کہ ملک وقوم کی ترقی کے لیے کام کریں۔پی ٹی آئی والوں کو بھی آئندہ انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے۔ عمران خان کو اپنے اقتدار کے دوران اپنے اور پرایوں کی تمیز ہو چکی ہے۔سیاسی جماعتوں کو عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے پر انتخابی دھاندلی کا الزام لگانے سے ملک کو کوئی فائدہ نہیںہوتا۔سیاست دانوں کو اختلافات سیاست تک محدود رکھنے چاہئیں کسی کی ذاتی زندگی کو سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہیے۔ملک کے عوام اتنے باشعور ہو چکے ہیں ،انہیں اچھے اور برے کی خاصی تمیز ہو چکی ہے۔کوئی مانے نہ مانے سابق وزیراعظم عمران خان نے عوام کو باشعور کر دیا ہے جس کا نتیجہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں یقینی ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ سید خورشید شاہ اپنے خلاف نیب مقدمہ کے باوجود اس سلسلے میں لب کشائی سے گریز کرتے ہیں۔سیاست دانوں کا عدلیہ پر اعتماد ہونا چاہیے، ملک میں ابھی اتنی اندھیر بھی نہیں کہ کسی کو بلا وجہ سزا دے دی جائے۔مجھ جیسے انسان کو عدلیہ پر اتنا اعتماد ہے، اگر عدلیہ آزاد نہ ہوتی تو شاید ہم کب کے تختہ دار پر چڑھ چکے ہوتے ۔یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مہربانی اور آزاد عدلیہ کی بدولت ممکن ہے ہم موت کی کال کوٹھڑی سے آزاد ہو چکے ہیں۔سیاسی جماعتیں اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں انہیں ماحول پر خراب نہیں کرنا چاہیے ۔مثبت تنقید جمہوریت کا حسن ہے لیکن تنقید برائے تنقید کو جمہوریت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے۔اقتدار میں آنے یا ہٹائے جانے میں اداروں کو ملوث نہیں کرنا چاہیے۔آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل اور اداروں کی قربانیوں کی بدولت سکھ کا سانس لے رہے ہیں ۔سیاست دان اپنی گوشمالی خود کریں تو کسی پر تنقید کی ضرورت نہیں رہتی۔