ColumnJaved Farooqi

حمزہ شہباز کامیاب وزیراعلیٰ ہوں گے ؟ جاوید فاروقی

جاوید فاروقی

شریف فیملی کے ایک اور چشم و چراغ حمزہ شہباز بالآخر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے ہیں۔ تحریک انصاف اور چودھری پرویز الٰہی نے ان کا راستہ روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ ان کے انتخاب کو پہلے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرکے دس دن تک روکے رکھا، پھر جب 16 اپریل کو ہنگامہ خیز اجلاس میں وہ تحریک انصاف کے بائیکاٹ کے بعد یک طرفہ طور پر وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے تو ان کے انتخاب کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے ان کے حلف کو پندرہ روز تک لٹکائے رکھا۔ کبھی سیکرٹری اسمبلی کی طرف سے الیکشن کی غیرشفافیت کی رپورٹ اور کبھی یہ کہ الیکشن ہوا ہی نہیں۔ اور آخر میں جب عدالت کے تیسرے حکم پر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویزاشرف حمزہ شہباز کا حلف لینے لاہور کے لیے روانہ ہونے والے تھے تو گورنر عمرسرفراز چیمہ نے چند گھنٹے پہلے سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا استعفیٰ مسترد کرکے ان کی وزارت اعلیٰ اور کابینہ بحال کرنے کی ایک غیرمعمولی چال چل دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گورنر عمرسرفرازچیمہ نے وہ استعفیٰ مسترد کیا جسے پی ٹی آئی کے صوبائی وزراء اور سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے خود گورنر ہاؤس پہنچ کربا اصرار اس وقت کے گورنر چودھری محمدسرور سے منظور کروایا تھا۔ چودھری سرور بھی اس استعفے کے حوالے سے یہی اعتراض کررہے تھے کہ یہ تکنیکی طورپر درست نہیں، اس میں گورنر کی بجائے وزیراعظم کو ایڈریس کیا گیا ہے اور یہ رولز کے مطابق ہاتھ سے لکھا ہوا بھی نہیں۔ لیکن اس وقت تحریک انصاف اور چوہدری پرویز الٰہی بہت جلدی میں تھے۔ اور ان کے مطابق چودھری سرور استعفے کو لٹکا کر مسلم لیگ نون کو درپردہ فائدہ پہنچا رہے تھے۔ لیکن پھر ایسا وقت آیا کہ نئے گورنر عمر چیمہ کو بھی چودھری سرور والا موقف اختیار کرتے ہوئے استعفیٰ مسترد کرکے عثمان بزدار کو بحال کرنا پڑا۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ پنجاب اس لحاظ سے دوسرے صوبوں سے مختلف رہا ہے کہ اسے بیس سال کے دوران نسبتاً بہتر اور مستحکم حکمران ملے ہیں۔ عمران خان حکومت کے ساڑھے تین سالوں کے علاوہ اس دوران ملک کے اندر سیاسی پولرائزیشن بھی کم رہی۔ اور یہاں جو بھی وزیراعلیٰ بنا اسے حکومت کرنے میں فری ہینڈ ملا۔ خود عمران سرکار میں بھی عثمان بزدار کو اگرچہ ہمیشہ ایک ڈمی وزیراعلیٰ کے طور پر لیا گیا لیکن انہیں وزیراعظم عمران خان کی مکمل آشیرباد حاصل رہی اور وہ اپنی ہمت، استطاعت کے مطابق مکمل اختیارات کے ساتھ کام کرتے رہے۔ گشتہ بیس سال کا جائزہ لیں توچودھری پرویزالٰہی2002 سے 2007 تک پنجاب کے حکمران رہے۔ تو اس دوران انہیں جنرل پرویز مشرف کی مضبوط ترین حکومت کی سیاسی چھتری میسر تھی اور انہوں نے ایک مضبوط وزیراعلیٰ کے طور پر کام کیا اور بلاشبہ بہت کمال ڈیلیور کیا۔ ان کے دور عوامی فلاح کے کئی منصوبوں کو مخالف حلقوں سے بھی پذیرائی ملی۔ اس کے بعد 2008 میں شہبازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو پہلے تین سال پیپلزپارٹی ان کے ساتھ شریک اقتدار تھی لیکن پھر وہ بھی کابینہ چھوڑ گئی اور شہباز شریف نے بھرپور انداز سے نہ صرف 2013 تک بلکہ اس کے بعد اگلی ٹرم میں بھی وزیراعلیٰ منتخب ہوکر پنجاب میں دس سال تک مسلسل وزارت اعلیٰ کا نہ صرف ریکارڈ قائم کیا بلکہ حکمرانی کا ایک نیا ٹرینڈ بھی دیا۔ انرجی، صحت، روڈ انفراسٹرکچر اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں کھربوں روپے کے میگا پراجیکٹس اپوزیشن کی شدید تنقید کے باوجود بڑی جرأت مندی سے مکمل کئے۔ اس طرح یہ پندرہ سال پنجاب میں تعمیر و ترقی کے حوالے سے بڑے اہم رہے ہیں۔اب اگر نئے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز شریف کی بات کریں تو اگرچہ کامیابی کے لیے انہیں کڑے چیلنج درپیش ہیں لیکن ان کی سیاسی ٹریننگ کو مدنظر رکھتے ہوئے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ پنجاب میں گورننس کے منہ زور گھوڑے کو کنٹرول کرلیں گے۔ حمزہ شہباز اپنے تایا نوازشریف کی طرح کم گواور گہری شخصیت کے مالک ہیں تو والد کی طرح پرجوش بھی ہیں۔ شہباز شریف کے دس سالہ دور کو قریب سے دیکھنے والوں کو معلوم ہے کہ ان سالوں میں حمزہ شہباز رکن قومی اسمبلی ہوتے ہوئے عملی طور پر پنجاب کے تمام انتظامی اور سیاسی امور میں اپنے والد کی بھرپور معاونت کرتے تھے۔ وہ نہ صرف تمام بیوروکریسی کے ساتھ مختلف منصوبوں پر ہمہ وقت رابطے میں رہتے بلکہ پنجاب میں ارکان اسمبلی کے تمام معاملات حمزہ شہباز ہی دیکھتے تھے۔پنجاب کی بیوروکریسی کے ساتھ دہائیوں تک کام کرنے کی وجہ سے حمزہ شہباز ایک
بہتر ٹیم بنا لیں گے جبکہ ارکان اسمبلی میں بھی ملک احمد، عمران گورایہ، رانا مشہود، خواجہ عمران نذیر، خواجہ سلمان رفیق، خلیل طاہر سندھو جیسی شخصیات ان کی کورٹیم کا حصہ ہیں اور پہلے بھی کابینہ میں کام کرچکے ہیں۔ حمزہ شہباز کے لیے سب سے بڑا چیلنج صوبے میں مہنگائی ہے جس کی بڑی وجہ بیڈ گورننس ہے۔ سابق حکومت کا یہ موقف ایک حد تک درست تھا کہ مہنگائی ایک عالمگیر مسئلہ ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ سابق صوبائی حکومت میں مڈل میں اور ریٹیلر نے جہاں عوام کا استحصال کیا وہیں بڑے صنعتکاروں اور بزنس مینوں نے کارٹیل بنا کر خوب مال بنایا لیکن حکومت ان کے خلاف کچھ نہ کرسکی۔ گندم اورآٹے کی سمگلنگ، چینی کی بے وقت ایکسپورٹ سے جو بحران پیدا ہوئے ان سے بچا بھی جاسکتا تھا لیکن ایک مضبوط حکمران نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ حمزہ شہباز خود کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔مہنگائی میں پسے ہوئے عوام کو کس طرح ریلیف دینا ہے یہ انہیں اور ان کی ٹیم کو پتہ ہونا چاہیے ۔ آخر میں ایک اہم پہلو جس کی اہمیت کو ہماری حکمران کلاس یکسر بھلا بیٹھی ہے اس کی نشاندہی کرنا چاہوں گا۔ وہ یہ کہ ہمارے ہاں خراب گورننس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سکیورٹی کے بہانے حکمران عوام سے بہت دور ہوگئے ہیں۔ منتخب نمائندوں اور عوام میں فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔ عثمان بزدار جیسی غیرمعروف شخصیت نے بھی وزیر اعلیٰ بن کر خود کو وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے سکیورٹی حصار میں بند کرلیا اور عوام سے کوئی رابطہ نہ رکھا۔ حمزہ شہباز کوچاہیے کہ وہ اس روایتی سیاست کے خول کو توڑیں۔ ہفتے میں کم از کم دو دن عوام کے ساتھ رابطے کے لیے رکھیں۔لاہور کے مال روڈ، لبرٹی مارکیٹ، فیصل آباد کے گھنٹہ گھر، پنڈی کے راجہ بازار اور ملتان حسین آگاہی بازار میں عوام صوبے کے وزیراعلیٰ کو اچانک اپنے درمیان پائیں تو اس کے بہت خوشگوار اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ حمزہ شہباز کی اہم سیاسی اننگ شروع ہوئی ہے۔ انہیں مرکز میں اپنے والد کے وزیراعظم ہونے کی وجہ سے بہت بڑا ایڈوانٹیج حاصل ہے۔ انہیں اس آئیڈیل صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھرپور کارکردگی دکھانا ہوگی  جو ان کے لیے قطعا مشکل نہیں۔ حمزہ شہباز مسائل میں گھرے پنجاب کے عوام کو ڈیلیور کریں گے تو سراہے جائیں گے۔  بصورت دیگر تنقید کا حق ہم محفوظ رکھتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button