Ali HassanColumn

خاتون کا خود کش حملہ … علی حسن

علی حسن

سندھ کے صوبائی وزیر جامعات اینڈ بورڈز اسماعیل راہو کا کہنا ہے کہ چینی اساتذہ کو فول پروف سکیورٹی دی گئی تھی اور چینی ڈائریکٹر کو اساتذہ کی نقل وحرکت محدود بنانے کے لیے خط لکھا تھا۔پروفیسر زبیر نے سکیورٹی کے معاملے پر خود بری الزمہ ہونے کے لیے معاملہ چینی کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر کے سر ڈال دیا ہے۔کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے  دو ڈائریکٹرز ہیں ، جن میں ایک پاکستانی و جامعہ کے ذمہ دار جبکہ دوسرے منتظم کا تعلق چین سے تھا۔ پاکستانی ڈائریکٹر کنفیوشس انسٹیٹیوٹ ڈاکٹر محمد ناصر نے سکیورٹی ایڈوائزر پروفیسر زبیر کو خط لکھا کہ چینی اساتذہ کی سکیورٹی کو فول پروف بنایا جائے۔جواب میں ڈاکٹر محمد زبیر نے 31 مارچ کو کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر کے نا م خط لکھا جس میں خود کو بحیثیت سکیورٹی انچارج بری الزمہ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے چینی اساتذہ جامعہ کراچی کے گیسٹ ہائوس اور انسٹیٹیوٹ سے بغیر رینجرز و پولیس کی سکیورٹی کے باہر آتے جاتے ہیں اور اگر اس حوالے سے کوئی نقصان ہوا تو جامعہ کراچی اس کی ذمہ دار نہیں ہو گی۔

یہ پاکستانی نام نہاد ذمہ دار اہلکاروں کی پختہ عادت ہے کہ وہ اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کے لیے ذمہ داری کسی اور پرڈال دیتے ہیں۔ جیسا اس کیس میں ہوا حالانکہ  ڈاکٹر زبیر کی ذمہ داری بنتی تھی کہ انہیں چینی اساتذہ کے پیچھے پڑکر ان کی سکیورٹی کا انتظام کرنا چاہیے  تھا۔ کیا انہیں اندازہ نہیں تھا کہ چینی شہریوں کا معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے، کیا انہیں ہتھیلی کا چھالہ بنا کر نہیں رکھا چاہیے؟۔
6 اپریل کو کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ناصر نے وائس چانسلر کے ایڈوائزر برائے سکیورٹی ڈاکٹر محمد زبیر کو جوابی خط لکھاکہ بحیثیت پاکستانی آپ اور ہم سمجھتے ہیں کہ پاک چین دوستی بہت بلند ہے، اس لیے چینی انسٹیٹیوٹ کے اساتذہ کی سکیورٹی و حفاظت کرنا ہماری اولین ترجیح ہے تاہم جامعہ کراچی کے سکیورٹی ایڈوائزر نے معاملے کو سیریس ہی نہیں لیا۔ اپنے لوگوں کی موت کے بعد چینی وزارت خارجہ نے جامعہ کراچی دھماکے پر غم و غصے کا اظہار کیااور کہا ہے کہ چینی شہریوں کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہیے۔
یہ ساری گفتگو خاتون حملہ آور کے منگل کے روز 26 اپریل کو کئے جانے والے خودکش حملہ کے بعد کی جارہی ہے جس میں جاںبحق افراد کی شناخت ڈائریکٹر کنفیوشس ہوانگ گیوپنگ، ڈنگ موپینگ، چین سائی اور خالد کے نام سے ہوئی، دھماکے کے تین زخمی نجی ہسپتال لائے گئے ،زخمیوں میں دو پاکستانی اور ایک چینی باشندہ ہے ۔ شادی شدہ بچوں والی خاتون حملہ آورنے وین کے قریب دھماکہ کر کے خود کو اڑا لیا۔ کنفیو شش سینٹر میں کافی عرصہ سے چینی زبان سکھائی جاتی ہے جہاں گلگت اور دیگر علاقے کے لوگ زبان سیکھتے ہیں۔ اس سینٹر کی گاڑی کو نشانہ بنانے والی حملہ آور خاتون رکشے میں آئی، ریکی کے بعد گاڑی کو ٹارگٹ کیا اور اب سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹی جارہی ہے۔ یہ ہمارا وتیرہ بن گیا ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے بلوچستان اور کراچی میں ہونے والا واقعہ پہلا نہیں
لیکن ہر واقعہ کے بعد جوش پیدا ہوتا اور ابال اٹھتا ہے لیکن بعد میں سب کچھ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ سکیورٹی  نظر انداز ہو ہی جاتی ہے کیوں کہ جب پولیس اور دیگر ذمہ دار لوگ اپنی ڈیوٹی کی جگہ موبائل فون سے ہی کھیل رہے ہوں تو نتیجہ یہی ہو سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے آئی جی پولیس کو سی پیک اور غیر سی پیک سے متعلقہ منصوبوں کے تحت سندھ میں مقیم چینی شہریوں کا سکیورٹی آڈٹ کر کے رپورٹ دینے کی ہدایت کی اور یہ بھی فرمایا کہ چین کی شراکت داری پسند نہیں، اس قسم کی سوچ اور کرداروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹاجائے گا۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلق اور خصوصاً شراکت داری سی پیک کے معاملے پر کئی ممالک خوش نہیں۔ بھارت تو ویسے بھی بلوچستان میں جس طرح ملوث ہے اس سے سب ہی واقف ہیں۔افغانستان کے موجودہ ذمہ داران بھی پاکستان سے غیر مطمئن ہیں۔ حالانکہ پاکستان نے ان کے لیے بہتے کچھ کیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پرجاری بیان میں بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ نے چینی باشندوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کی اور کہاکہ یہ چینیوں پر خاتون حملہ آور کا پہلا خودکش حملہ تھا،حملہ بلوچ خاتون شاری بلوچ عرف برمش نے کیا، خاتون خودکش بمبار نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر 12بجکر 10 منٹ پر ٹوئٹ کیا جس میں’’ رخصت آف آوران ( یہ بلوچستان کا علاقہ ہے جو دہشت گردی کے سرخیلوں کا بڑا ٹھکانہ ہے)سنگت‘‘ (سنگت عام طور پر ایسے گروپ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جن کے درمیان گہری ذہنی ہم آہنگی ہوتی ہے)کے الفاظ لکھے گئے ہیں۔ بی ایل اے نے خاتون بمبار کی تصویر بھی جاری کی ہے جس میں وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ بیٹھی وکٹری کا نشان بنائے ہوئے ہے۔ جامعہ کراچی میں خودکش حملہ کرنے والی حملہ آور شاری بلوچ 6 ماہ قبل کراچی منتقل ہوئی، تفتیشی زرائع کے مطابق خودکش حملہ آور خاتون ایم فل کی طالبہ رہی ہے ،شاری بلوچ کا شوہر ڈاکٹر ہے، خودکش بمبار شاری بلوچ کے والد سمیت کئی رشتے دار سرکاری ملازمین ہیں،خودکش حملہ آور درمیان میں ایک بار اپنی بہن کی شادی کے لیے آبائی شہر گئی تھی۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ خودکش حملہ کرنے والی خاتون بلوچستان میں سرکاری سائنس ٹیچر تھی جس کی تعلیم بلوچستان میں ہی مکمل ہوئی اور کمیونٹی ذرائع کے مطابق 30 سالہ شاری بلوچ عرف برمش بلوچستان کے شہر تربت میں نظر آباد کی رہائشی تھی، جس کا شوہر ہیبتان بشیر ڈاکٹر ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ملزمہ نے لگ بھگ 2 سال قبل کالعدم بی ایل اے کے مجید بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی تھی جس کے بعد اسے خودکش حملے کے لیے تیار کیا گیا۔ مجید بریگیڈ بلوچستان میں کارروائیوں کرنے والوں نے مجید لونگا نامی شخص کے نام پر قائم کی تھی ۔ مجید نے اس وقت کے وزیر اعظم بھٹو پر حملہ کیا تھا جس میں وہ مارا گیا تھا۔ملزمہ کے خاندان کا کہنا ہے کہ انہیں دہشت گردی کے واقعے کے بارے میں میڈیا سے پتہ چلا، جس کے بعد سے خاندان کے افراد خاموش ہیں جو سکیورٹی خدشات کے باعث میڈیا سے بات نہیں کر رہے۔ سوشل میڈیا پر یہ پروپیگنڈا بھی کیا گیا کہ شاری بلوچ کے خاندان کے بعض افراد لاپتہ ہوئے تھے اس لیے اس نے انتقامی طور پر ایسا کیا ہوگا۔ حکام کے مطابق شاری بلوچ کے خاندانی ذرائع کے مطابق ایسا کبھی نہیں ہوا، درحقیقت خاندان کے بیشتر افراد کے سرکاری ملازمتوں میں ہونے کی وجہ سے آج تک کسی فرد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔
شاری بلوچ کے خاندان میں لگ بھگ تمام افراد تعلیم یافتہ ہیں جو اچھے و پرکشش سرکاری عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں اور بیشتر ابھی بھی سرکاری ملازمتیں کر رہے ہیں۔ اگریہ اطلاعات درست ہیں تو پھر وہ خاتون کیوں کر مجبور ہوئی کہ اس نے اپنی جان دے دی۔ کیا دو معصوم بچوں کی ماں کی اس انداز میں ذہن سازی کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی جان پر کھیل جائے۔ کیا کوئی ماں اتنی سنگ دل ہو سکتی ہے؟ لاپتہ ہوجانے والے افراد کے ساتھ بلوچستان کے طول و عرض میں ہمدردی پائی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی کئی وڈیو موجود ہیں جن میں ایسی خواتین کو گفتگو کرتے دکھایا گیا ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کے باپ، بھائی وغیرہ لا پتہ ہیں۔ لاپتہ افراد کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ، سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ایک سے زائد بار انہیں بر آمد کرنے کی ہدایت کر چکے ہیں لیکن نتیجہ خیز کوئی بات سامنے نہیں آتی ہے۔
پاکستان کے مقتدر حلقوں اور حکمرانوں کو سنجیدگی کے ساتھ یہ بات سوچنا ہو گی کہ لا پتا افراد کی وجہ سے بلوچستان کا زخم ناسور میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اگر یہ ناسور بن گیا تو پھر ختم تو نہیں ہوگا۔ تو پھر کیا ہوگا۔ لاپتا ہوجانے والے لوگ گمراہ ہی سہی اور پاکستان کی ذمہ دار ایجنسیوں کے خیال میں بھارت کے ہی آلہ کار ہیں لیکن وہ ہیں تو پاکستانی شہری۔ حکام کو انہیں عدالتوں میں پیش کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ ہر حال میں گفتگو کرنا چاہیے اور انہیں کسی بھی قیمت پر غیر موثر کرنا چاہیے تاکہ بلوچستان پاکستان کے جسم کا وہ حصہ نہیں بن پائے جہاں پاکستان کے دشمن جب چاہیں اسی حصہ پر چوٹ ماریں۔
شاعر نے خوب کہا ہے:اساں اجڑے لوک مقدراںدے، ویران نصیب، سوالات نہ پچھ، توں شاکر آپ سیانا ا یں، ساڈا چہرہ پڑھ، حالات نہ پچھ ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button