وفاقی شرعی عدالت نے سود کے نظام سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ سود سے پاک بینکاری دنیا بھر میں ممکن ہے، ملک سے ربا کا خاتمہ ہر صورت کرنا ہوگا، بینکوں کا ہر قسم کا انٹرسٹ ربا ہی کہلاتا ہے، قرض کسی بھی مد میں لیا گیا ہو اس پر لاگو انٹرسٹ ربا کہلائے گا۔
وفاقی شرعی عدالت نے سود کیخلاف درخواستوں پر 19 سال بعد فیصلہ سنا دیا۔ وفاقی شرعی عدالت کے جج جسٹس سید محمد انور نے سود سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی بینکنگ کا ڈیٹا عدالت میں پیش کیا گیا، سود سے پاک بینکاری دنیا بھر میں ممکن ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے سود سے پاک بینکنگ کے منفی اثرات سے متفق نہیں، معاشی نظام سے سود کا خاتمہ شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اسلامی بینکاری نظام رسک سے پاک اور استحصال کیخلاف ہے۔ ملک سے ربا کا خاتمہ ہر صورت کرنا ہوگا۔ ربا کا خاتمہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول ربا کے زمرے میں آتا ہے۔ بینکوں کا ہر قسم کا انٹرسٹ ربا ہی کہلاتا ہے، فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ قرض کسی بھی مد میں لیا گیا ہو اس پر لاگو انٹرسٹ ربا کہلائے گا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 2002 میں مقدمہ شریعت کورٹ کو دوبارہ فیصلے کیلئے بھجوایا تھا۔ وفاقی شرعی عدالت نے رواں ماہ 12 اپریل کو ملک میں سودی نظام سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت نور محمد مسکانزئی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔ اس موقع پر فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔
دوران سماعت وکیل یو بی ایل ڈاکٹر اسلم خاکی نے دلائل میں کہا تھا کہ صدر اور اٹارنی جنرل کی ملاقات کا علم نہیں اس لیے مزید وقت دیا جائے، دیکھنا ہے بینکوں کی جو اسکیمیں چیلنج کی گئی ہیں وہ ربا کی تعریف میں آتی ہیں یا نہیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ ہمارے سامنے کوئی اسکیم چیلنج نہیں ہوئی۔
وکیل ڈاکٹر اسلم خاکی نے مزید کہا تھا کہ جو بینک لمیٹڈ ہیں ان میں پیسے رکھنا سود نہیں کیونکہ لمیٹڈ بینک نفع و نقصان میں شریک ہوتا ہے، اگر شہری قرض لیتا ہے اور اس سے سود لیا جائے تو یہ ظلم اور ربا ہے، ہمیں سود اور انڈیکسیشن میں فرق رکھنا ہوگا۔ رہنما جماعت اسلامی فرید پراچہ نے دلائل دیے کہ ہمارا ملک 50 ہزار ارب روپے کا مقروض ہے اس لیے عدالت کی ذمہ داری ہے ملک کو مشکلات سے نکالنے کا شرعی راستہ بتائے۔
گزشتہ سماعت میں وزارت داخلہ کی جانب سے کوئی بھی نمائندہ عدالت پیش نہیں ہوا تھا۔
پس منظر
وفاقی شریعت کورٹ نے 1992ء میں سود (ربا) کے کیس کا فیصلہ سنا دیا تھا لیکن اس کے بعد یہی کیس 2002ء سے اسی عدالت میں زیر التوا ہے جس کی زیادہ تر وجہ یکے بعد دیگر آنے والے حکومتوں کی ہچکچاہٹ ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ 2020-21ء کے دوران سود کی ادائیگی کا حصہ پاکستان کی مجموعی آمدنی کا 80؍ فیصد ہو چکا ہے۔ یہ کیس 24؍ جون 2002ء سے زیر التوا ہے جب یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کی جانب سے دائر کردہ سول شریعت ریویو پٹیشن نمبر 1/2000 کو سماعت کیلئے منظور کر لیا گیا تھا۔
وفاقی شریعت کورٹ کی جانب سے 14؍ نومبر 1991ء کو سنائے گئے فیصلوں میں سود کو غیر اسلامی قرار دیدیا گیا تھا اور 23؍ دسمبر 1999ء کو سپریم کورٹ میں اپیلیٹ شریعت بینچ نے فیڈرل شریعت کورٹ کے 1992ء کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے مشرف کے دور میں ان فیصلوں کو کالعدم قرار دیدیا۔ ربا کا کیس فیڈرل شریعت کورٹ کو واپس بھیج دیا گیا تاکہ اس پر چند نکات پر مزید بحث کی جا سکے۔
اس حوالے سے چار اہم نکات کی نشاندہی کی گئی تھی۔
نمبر 1۔ وفاقی شریعت کورٹ کا دائرہ اختیار (جیورسڈکشن)۔
نمبر 2۔ فیصلے پر عملدرآمد سے پیدا ہونے والے عملی مسائل، جن کا اظہار وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنے حلف نامے میں کیا تھا۔
نمبر 3 ربا کی تعریف و تشریح پر مشاہدات اور ساتھ ہی ربا کے قانونی اور اخلاقی پہلوئوں کو علیحدہ کرنا، مہنگائی اور جدید دور میں کی جانے والی انڈیکسیشن۔
نمبر 4۔ دسمبر 1999 میں سنائے گئے فیصلے کے بعد نظر آنے والی غلطیاں۔
وفاقی شریعت کورٹ میں اُن دو دہائیوں کے دوران کئی ججز آئے لیکن ربا کیس کا فیصلہ نہیں ہو پایا اور ججوں کی اکثریت نے کیس کا فیصلہ سنانے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔