Columnمحمد مبشر انوار

آؤ مدینے چلیں محمد… مبشر انوار

محمد مبشر انوار

ماہ رمضان میں کس مسلمان کی یہ خواہش نہیں کہ سرکار دوعالمﷺکے روضہ مبارک پر حاضری نہ دے،بیت اللہ کا سفر نہ کرے، عمرہ کی سعادت حاصل نہ کرے اور ان ساعتوں سے برکات سمیٹ کر اپنے نصیب کا حصہ نہ بنائے؟لیکن کیا یہ اتنا آسان اور یقینی ہے کہ ہر شخص جو حرمین شریفین کی زیارت کرنے کی خواہش رکھتا ہو وہ با آسانی ان مقدس مقامات کی حاضری سے بہرہ ور ہو سکے یا یہ کاملا رب کریم کا خصوصی لطف و کرم ہے کہ جس کو چاہے اذن باریابی بخش دے اور جسے چاہے اس سے محروم رکھے؟بخدا یہ یقیناً ایسی ہی بات ہے کہ رب کریم جس کو چاہے اپنے اس لطف و کرم کی بارش سے سرتاپا سرشار کردے اور کرم کی اس بارش کے چند چھینٹے کسی پر پھینک دے اور کسی کو بالکل ہی محروم رکھے،کوئی اللہ رب العزت کے فیصلوں سے انکار نہیں کرسکتا۔بالخصوص جو اللہ رب العزت کے مومن بندے ہیں،ان کی سرشت میں سوائے شکرانے کے اور کوئی دوسرا لفظ پایا ہی نہیں جاتا اور مومن اللہ کریم کے ہر فیصلے کو اس کی حکمت و دانائی و بصیرت سمجھتے ہوئے ،ہر حال میںرب کریم کے سامنے سر تسلیم خم رکھتے ہیں،ان کے مزاج میں کسی قسم کا شکوہ ہوتا ہی نہیں۔اپنے مومن بندوں کو اللہ رب العزت ان کی بندگی کے عوض جو عطا فرماتا ہے،ایک دنیا دار شخص اس کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتاکہ اللہ کریم کی بندگی کرتے کرتے مومن اس دنیا کی عارضی حقیقت سے آشکار ہو جاتا ہے،کسی حد تک(اپنی بندگی ،مرتبے کی حد تک)اللہ جل شانہ ہی کی طرف سے بندے پر راز عیاں ہو جاتے ہیں اور
اسی نسبت سے بندے کی دنیا سے رغبت کم ہوتی جاتی ہے اور اس دنیا کی رنگینی سے مومن خو بخود دور ہوتا جاتا ہے۔ اس دنیا کی لالچ اس کے دل سے اٹھتی چلی جاتی ہے اور وہ کسی دوسری دنیا کے سربستہ رازوں میں کھو کر اس عارضی دنیا سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔

زندگی کے 23 برس سرزمین سعودی عرب پر گذر چکے،اس دوران کئی کٹھن مراحل سے بھی گذرا، کبھی صحت کے مسائل کبھی غم روزگار،کبھی اپنوں کی جدائی کا غم تو ایسے لمحات بھی گذرے کہ جب اپنے والدین کے آخری وقت بھی ان کی خدمت کرنے سے قاصر رہا یا ان کی میتوں کو کندھا دینا بھی نصیب نہ ہوا،اسی کو زندگی کی حقیقت سمجھا اور الحمد للہ ان تمام حقائق کے باوجود اپنے رب کا شکر گذار ہوں کہ اس نے جو بھی عطا کیا ،میری اوقات سے کہیں زیادہ عطا کیا۔ 23 برس پہلے جب بسلسلہ روزگار اس سرزمین پر پہنچا تو دوسری طرف ایک شدید تڑپ حرمین کی زیارت کی تھی ،دل بے قابو ہوا جاتا تھا کہ جلد ازجلد الریاض سے مکہ و مدینہ کا سفر کروں اور بارگاہ ایزدی میں سربسجود ہو جاؤں کہ مجھ جیسے وسائل سے محروم کے لیے کیا ساماں میرے رب نے فرما دیا تھاکہ اب قدرے باآسانی بیت اللہ کی حاضری ممکن تھی۔ حب رسولﷺتھا کہ مدینے کی طرف کھنچا جاتا تھا کہ اپنے نبی اکرمﷺکے روضہ کا دیدار کب نصیب ہو گا،کب مدینہ کا سفر ہو گا،کب مجھ گنہگار سا شخص سرکار ؐکا مہمان ہو گا،کب روضے کی جالیوں کے سامنے کھڑے ہوکر سرکار ؐپر درود بھیجنے کا موقع اس گنہگار کو ملے گا،کب ریاض الجنہ میں کھڑا ہوں گا اور کب سرکارؐکے روضہ کے پہلو میں دو نفل پڑھنے کی سعادت نصیب ہو گی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بابرکت جگہ روز محشر میری موجودگی کی گواہی رب کریم کی بارگاہ میں دے گی،لیکن سعودی عرب میں ہونے والی دفتری کارروائی میں قریباً ایک ماہ کا عرصہ گذر گیا جس کے فوری بعد پہلا سفر حرمین شریفین کا کیا۔ آج بھی وہ وقت آنکھوں میں پھر رہا ہے کہ کس طرح دھڑکتے دل کے ساتھ عازم سفر ہوا ،کیسے دل کی حالت پھڑپھڑا رہی تھی،اپنی زندگی کا میزانیہ لمحوں میں آنکھوں کے سامنے سے گذر گیا اور سرتاپا لرزا گیا کہ ہمیں کیا تعلیم دی گئی اورکیا ہم نے اس تعلیم پر عمل کیا؟نظریں شرم سے جھک گئیں،گردن مزید نیچے جھکی،ندامت کے آنسو چھلک پڑے کہ کس ہستی کے سامنے،کیا ساتھ لے کر جا رہا ہوں، پھر خیال آیا کہ آپؐ رحمت اللعالمین ہیں،آپؐ نے ہی تو اپنے امتیوں کی سفارش کرکے رب ذوالجلال کے قہر سے بچانا ہے(گو کہ رب ذوالجلال کی رحمت بھی اس کے قہر سے کہیں زیادہ ہے)آپؐ ہی کی ذات مبارکہ ہے جو روزمحشر اپنے امتیوں کی بخشش کروانے تک جنت میں نہیں جائے گی،ان شاء اللہ۔

یہ کل کی بات لگتی ہے جب پہلی مرتبہ سوئے حرم کا قصد کیا،وہ تمام ماحول،گرد و نواح سب ماضی کے جھرونکوں سے عود آتاہے ،مسجد نبوی ؐکی عمارت آج کی نسبت بہت چھوٹی لگتی ہے کہ شروع شروع میں جب اذن باریابی حاصل ہوا تو قرب وجوار میں عمارتیں اتنی قریب تھیں کہ اقامت کی آواز سن کر ہوٹل سے نکل کر باآسانی مسجد میں جماعت کی سعادت حاصل ہو جاتی تھی۔ روضہ رسولؐ پر حاضری دے کر باہر نکلتے تو ایک چھوٹی سے وادی میں تنگ گلیوں سے گذر کر جنت البقیع کی زیارت کے لیے جایا کرتے، بتدریج یہ وادی منہدم ہونا شروع ہوئی اور آج یہ صورتحال ہے کہ روضہ رسولؐ سے باہر نکلتے ہی جنت البقیع کی دیوار نظر آتی ہے، درمیان میں جو چھوٹا سی وادی،بازار تھا وہ سب قصہ پارینہ ہو گیا۔ بہت اچھی طرح یاد ہے کہ مسجد نبوی ؐ کی توسیع کے دوران ،جنت البقیع سے تھوڑا ہٹ کر انڈر پاس کی تعمیر جاری تھی،اس پر تختے رکھے ہوتے تھے، جن سے گذر کر دوسری طرف ایشیائی ہوٹلوں کی بھرمار ہوتی، شنید ہے کہ انہی ہوٹلوں میں ایک عدد مرحوم حاجی البیلا کا ہوٹل بھی تھا،ضیوف ان ہو ٹلوں سے پیٹ کی بھوک مٹاتے۔

انواع و اقسام کے ہوٹل، مختلف خطوں
کے پکوان اورذائقے دار کھانے، رسول اکرمؐ کے مہمانوں کی خدمت میں جتے نظر آتے۔ اسی طرح قیام کے لیے بہت سے ہوٹلز یہاں ارزاں قیمت پر میسر ہوتے،دنیا جہاں سے آئےعشاق رسولؐ روضہ رسولؐ پر حاضری دیتے، آنکھوں میں عقیدت واحترام لیے ،جذبات سے سرشارنم آنکھوں سے ،ہدیہ درود و سلام پیش کرتے باب جبرائیل کے راستے روضہ رسولؐ سے باہر نکل جاتے تا کہ باقی موجود عشاق کو بھی روضہ رسولؐ کا دیدار نصیب ہو۔کسی بھی قسم کی کوئی پابندی عاشقان رسولؐ پر نہ تھی کہ وہ باب السلام سے داخل ہوتے،سرجھکائے درود و سلام پڑھتے قدم بقدم حضور ؐکے سامنے پیش ہوتے کہ کسی قسم کی بدنظمی، بد تہذیبی یا بے جا ہنگام کی توقع ہی نہ تھی۔دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے بھی اہلکار تعینات رہتے اور ان کی دور بین نظریں انتہائی باریک بینی سے زائرین کو جانچ لیتی لہٰذا ایسا کوئی بھی سانحہ یہاں رونما نہ ہونے پاتا،البتہ چند برس پہلے ایک ایسا سانحہ رونما ہوا لیکن اس پر بھی انتہائی چابک دستی سے قابوپا لیا گیا۔کووڈ کے ہنگام گذشتہ دو برس سے یہاں کی رونقیں بہت حد تک ماند پڑ چکی تھیں لیکن الحمد للہ ثم الحمد للہ،سعودی حکومت نے اس برس حرمین کو زائرین کے لیے مکمل طور پر کھول دیا ہے اور دنیا بھر سے زائرین اس ماہ رمضان کے فیوض و برکات سمیٹنے کےلیے ارض مقدس کا سفر کر رہے ہیں، حرمین میں اب ویکسی نیشن اور فیس ماسک ضروری ہے جبکہ کووڈ کی دیگر احتیاطی تدابیر،جن میں سماجی فاصلہ یا قبل از سفر پی سی آر ٹیسٹ کی ضرورت اب باقی نہیں رہی۔

دو دہائیوں میں اللہ کریم نے اتنی عنایات کی اوربے شمار مواقع فراہم کئے کہ نہ صرف اس کے گھر کی زیارت ہوئی بلکہ سرکار دوعالمﷺ کے روضہ مبارک کی بھی حاضری نصیب ہوئی۔ الریاض سے مدینہ اور مکہ کا سفر کا اچھا خاصا ہے لیکن اچھی سڑکوں اور بہترین سواریوں کی بدولت یہ سفر زیادہ تھکاوٹ نہیں دیتا البتہ بیماروں کے لیے بسا اوقات اتنی سہولیات کے باوجود بھی سفر مسائل پیدا کر دیتا ہے۔ صحت و تندرستی کی حالت میں اس سفر نے کبھی نہیں تھکایا لیکن گذشتہ دو ؍اڑھائی برس سے کمر کی شدید تکلیف نے سفر سے معذور کررکھا ہے اور اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ اتنا لمبا سفر کروں البتہ ماہ رمضان کی بابرکت ساعتوںمیں ان شاء اللہ رخت سفر باندھ چکا ہوں اور اس وقت مدینہ منورہ بارگار رسالت ﷺمیں پیش ہوں۔گذشتہ چند برسوں (قریباً 2016سے)برادرم سعید وسیم کے ساتھ عرصہ دراز کے بعد ملاقات ہوئی،سعید وسیم اپنے چند دوستوں کے ہمراہ گذشتہ بیس بائیس برس سے ماہ رمضان میں مسجد نبوی میں اعتکاف کرتے ہیں۔ کیا روح پرور منظر ہوتا تھا کہ مسجد نبوی میں عاشقان رسولؐ شمع توحید کے پروانے ماہ رمضان کی برکات سمیٹتے نظر آتے ،مسجد کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ضیوف الرحمن مسجد کے قالینوں پرچادریں بچھائے ، عبادات میں مشغول نظر آتے۔البتہ میرے جیسے گنہگار ایک عرصہ تک معاش کی خاطر سعودیہ میں مقیم رہنے کے باوجود ،ماہ رمضان میں حرمین حاضری دینے کے باوجود ،اعتکاف کی نیت و خواہش رکھنے کے باوجود ،در نبیؐ پر اس سعادت سے محروم رہے کہ چھٹی کے ایام یہی خواہش اور کوشش ہوتی کہ پاکستان کا رخت سفر باندھا جائے اور گھر والوں کے ساتھ وقت گذارا جائے،لیکن گذشتہ چند برسوں میں چند قانونی مسائل کے باعث پاکستان کا سفر ممکن نہ ہو سکا اور 2016میں برادرم سعید وسیم کے ساتھ یہ سعادت بھی اس ناچیز کو نصیب ہوئی کہ ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں درنبیؐ پر ٹوٹی پھوٹی عبادت اور ندامت کے آنسو لیے پڑے رہے

اپنے لیے ،عزیز و اقارب، امت مسلمہ اور بالخصوص وطن عزیز کے لیے دعائیں کرتے رہے۔ اللہ رب العزت نے یہ خواہش بھی پوری کی گو کہ یہ ایسی خواہش ہے کہ اس کی تشنگی بھرنے میں نہیں آتی اور دل چاہتا ہے کہ اگر ممکن ہو تو ہمیشہ کے لیے در نبیؐ پر پڑا رہوں ،وہیں اس امید پر یہ جان،جان آفرین کے سپرد کروں کہ محبوب خداکے درپر نکلی جان پر اللہ کریم کی رحمتیں ضرور ہوں گی ،جو خامیاں بندگی میں رہ گئی ہونگی،اللہ کریم ان سے درگذر فرمائے گااور ان شاء اللہ جنت میں داخل فرمائے گا۔یہ خواہش و تمنا تو ہر مسلمان کے دل میں ہے اور اللہ کریم قادرمطلق ہے،جو چاہے کرسکتا ہے اوراگر چاہے تو مجھ جیسے گنہگار کو اپنے اس گمان کے مطابق موت عطا کر سکتا ہے کہ اس کا فرمان جلیل ہے کہ میرا بندہ مجھ سے جو گمان رکھتا ہے،میں اس کو اسی طرح نوازتا ہوں،بخدا میرا یہ گمان او رایمان ہے کہ اللہ رب العزت اپنی رحمت سے اس بندہ ناچیز کی بخشش فرما کر اپنی قربتوں کے سائے میں رکھے گا،ان شا ء اللہ،خواہ میں دنیا کے کسی بھی کونے میں اس دنیائے فانی سے رخصت ہوں۔

البتہ درنبیؐ پر رہنے والے مسلمانوں پر رشک آتا ہے کہ کیا خوش نصیب لوگ ہیں،ان کی محبت سرکار دوعالمؐ سے کس قدر زیادہ ہے یاآقائے نامدارؐ،ان احباب سے کتنے خوش ہیں کہ انہیں اپنے در پر رکھا ہوا ہے،نہ ان احباب کو سرکارؐ سے دوری برداشت ہے اور نہ سرکارؐان سے دوری برداشت کرتے ہیں۔ان میں سے کئی ایک احباب کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو دہائیوں سے در نبیؐ پر قیام پذیر ہیں اور تجلیات سے بہرہ ور ہوتے ہیں،سرکارؐ کی قربت سے محظوظ ہوتے ہیں۔ کووڈ سے پہلے مسجد نبوی ؐ کے اندرونی حصہ میں افطار کا الگ ہی سماں رہتا تھا کہ مدینہ کی مخصوص افطاری سے دسترخوان بھرے ہوتے اور زائرین کی ایک بڑی تعداد ان دسترخوانوں پر اپنے میزبانوں کے سامنے بیٹھی نظر آتی،انتظامی امور کے باعث اب اندرونی حصہ میں افطار کا انتظام بدل چکا ہے اور اب افطار ڈبوں میں بند زائرین کو مہیا کی جا رہی ہے۔ البتہ انصار مدینہ کی مہمان نوازی آج بھی روز اول کی طرح قائم ہے اور چھوٹے بچے آج بھی کسی اجنبی کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھتے ہیں،اسے اپنے دسترخوان پر افطار کی دعوت دیتے ہیں،اسے اپنے نرم ہاتھوں میں پکڑ کر،یا عم یا عمی پکارتے ، اپنے دسترخوان کی طرف کھینچتے ہیں کہ افطاری ہمارے ساتھ کرو۔کوئی اجنبی جب ان بچوں کی پکار پر ان کے ساتھ ہو لیتا ہے تو مسرت کے دیپ ان معصوموں کی آنکھوں میں جلتے صاف دکھائی دیتے ہیں،جیسے انہوں نے کوئی معرکہ سر کر لیا ہو ،

ہفت اقلیم انہیں مل گئی ہو۔ علاوہ ازیں! اہل مدینہ کی سخاوت کہیں،اعلیٰ ظرفی کہیں یا مہمان نوازی کہیں،یہ ساری دنیا میں مسلمہ ہے کہ اگر کسی کو نہ بھی جانتے ہوں تب بھی جو بن پڑتا ہے،کھلے فیاض دل سے کرتے نظر آتے ہیں،اس کا مشاہدہ میں بذات خود کر چکا ہوں کہ گذشتہ کسی رمضان میں ،مسجد نبوی میں چلتا ہوا اپنی مخصوص جگہ کی طرف جا رہا تھا کہ راستے میں ایک سعودی کو اس کے عمال کے ساتھ محور گفتگو پایا،عمال غالباً مصری تھااور اپنے سعودی (مدینہ کا رہنے والا)کفیل کو عطر ایک چھوٹی سی شیشی ہدیہ کر نا چاہ رہا تھا جبکہ سعودی اس سے انکار کر رہا تھا،میں نے پاس سے گذرتے گذرتے ازراہ تفنن ٹوٹی پھوٹی عربی میں کہا کہ اگر آپ نہیں قبول کرنا چاہتے تو مجھے عنایت کر دیں۔ میری یہ بات سن کر پہلے تو سعودی مسکرایا اور پھر دفعتاً اپنے عمال سے وہ عطر کی شیشی پکڑی اور مجھے ’’محمد‘‘ کی آواز(کہ مدینہ میں کسی بھی انجان کو محمد کہہ کر پکارنا ایک روایت ہے)دے کر بلایا اور وہ عطر مجھے اسی وقت ہدیہ کر دیا۔ میں حیران پریشان اس سعودی کی طرف دیکھنے لگا کہ کہاں تو یہ شخص اپنے عمال سے وہ ہدیہ قبول نہیں کر رہا تھا اور کہاں یکلخت اس کا دل بھی رکھا اور میری پکار(خواہ مذاقاً ہی سہی)کو رد نہ کیا،ایسی فیاضی،ایسی سخاوت مدینہ میں ہی نظر آتی ہے،بہت کم سعودی عرب کے دوسرے شہروں میں یہ رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

کووڈ کے دوسال حرمین کی رونقیں ماند رہی لیکن اب چونکہ دنیا بھر سے زائرین کو حرمین کاقصد کرنے کی اجازت مل چکی ہے،اس لیے ساری دنیا سے زائرین جوق درجوق حرمین کی زیارت کے لیے امڈے آ رہے ہیں۔ برادرم سعید بھی رخت سفر باندھ چکا ہے اور الحمد للہ اپنی بیماری کے باجود،اللہ رب العزت کا شکرگذار ہوں کہ اس نے اس ناچیز کی حاضری بھی حرمین میں قبول کر لی ہے،اذن مل چکا ہے اور کل ان شاء اللہ مدینہ کی تیاری ہے۔ مسجد نبوی ؐمیں پاکستان سے بھی احباب تشریف لا رہے ہیں،کچھ حاضر ہو چکے ہیں اور آنے سے قبل بذریعہ واٹس ایپ نہ صرف مطلع کر چکے ہیں بلکہ ملنے کے خواہش کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ دوسری طرف مدینہ میں ڈاکٹر اسامہ محی الدین کی زندگی سے بھرپور شخصیت موجود ہے،جن سے ملاقات کا اپنا ہی لطف ہے کہ دین و دنیا کے علم سے لبریز شخصیت ہیںاور مسجد نبوی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک احباب کی خیریت دریافت کرتے نظر آتے ہیں،جو بن پڑتا ہے،احباب کی خدمت کرنے میں تامل سے کام نہیں لیتے۔ برادر محترم محمد سجاد ہیں،جو مانچسٹر سے ہر سال تشریف لاتے ہیں،گذشتہ دوبرسوں کی تشنگی ختم کرنے کے لیے سال کے اوائل میں بھی تشریف لائے لیکن اپنی بیماری کے باعث ان سے ملاقات نہ ہوسکی،جس کا شکوہ وہ ہرٹیلیفونک گفتگو میں کرتے ہیں۔

باغ و بہار قسم کی شخصیت اور ہر وقت متحرک رہتے ہیں،ان کی کمپنی کاایک اپنا مزہ ہے،اسی طرح برادرم نعمان مکہ سے ہمرکاب ہوتے ہیںجو محفل کو کشت زعفران بنانے میں ملکہ رکھتے ہیں،خاموش طبع علی احمد بھی اس محفل کا حصہ ہوتے ہیں۔ان سب سے بڑھ کر آخری عشرے میں ہونے والی شبینہ میں عبادت کا اپنا مزہ ہے کہ جہاں امام مسجد نبوی ؐکی رقت آمیز آواز میں قرآت سے آنکھیں نم ہوئی جاتی ہیں۔مانگی جانے والی دعاؤں میں امام کی گریہ زاری مقتدیوں کے دل کھینچ لیتی ہے،مقتدی امام کے ساتھ ہی گڑگڑاتے ہوئے،رب ذوالجلال کے حضور امت مسلمہ اور انفرادی بخشش کی دعائیں کرتے نظر آتے ہیں۔یہاں ایک بات برمحل ہے کہ اللہ رب العزت کے حضور صرف دعائیں کافی نہیں کہ اس کے لیے عمل بھی درکار ہے،ہمیں انفرادی و اجتماعی حیثیت میں سوچنا ہو گا کہ آخر ایسے مقدس مقامات پرمانگی جانے والی دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتی؟ ہمیں اپنے اعمال کی تصحیح انفرادی حیثیت میں کرنا ہو گی تا کہ اجتماعی طور پر ہماری نجات و بخشش ہو سکے،ہمیں ہماری کھوئی ہوئی عزت و وقار نصیب ہو سکے،جس کے لیے ہمیں احکام الٰہی کی پابندی کرنا ہو گی،اس کے بغیر ہماری عزت،ہمارا وقار ہمیں واپس نہیں مل سکتا خواہ ہم ساری زندگی سفر مدینہ میں محو رہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button