ColumnNasir Naqvi

مداخلت یاسازش؟ …. ناصر نقوی

ناصر نقوی

کتنی عجیب بات ہے کہ سب مل کر ایک آزاد قوم اور ریاست کومداخلت اور سازش کے مطلب ومعنی سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ قوم پہلے سے ہی مداخلت اور سازش کو ایک ہی بات جانتی ہے، اسے پتہ ہے کہ آزادی کبھی کسی کو پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملتی ، ہمیشہ اس کے حصول میں سر دھڑ کی بازی لگانا پڑتی ہے ۔ قائد بابائے قوم حضرت قائد اعظمؒ نے آزادی کاخواب دکھا کر مسلمانوں کو ایندھن نہیں بنایابلکہ فہم وفراست اور عقل و دانش سے دو قومی نظریہ کی جنگ لڑی اور بغیر کسی جنگ وجدل کے فرنگیوں کو اس سر زمین سے بے دخل کر دیا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان ایک مضبوط موقف اور نظریاتی برتری پر پاکستان اور بھارت بنا لیکن پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قیام پاکستان اور تقسیم ہند کے لیے مال و جان کی قربانیاں نہیں دی گئیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک آزاد اورخودمختار ریاست ہے جہاں آئین و قانون کے تحت ہر پاکستانی کو زندہ رہنے کے لیے حقوق حاصل ہیں، خواہ وہ اکثریت میں ہیں یا اقلیت میں ۔ سازش ایک انتہائی ناقابل برداشت فعل ہے لیکن مداخلت بھی کسی کا حق نہیں، پاکستان کی عسکری اور سیاسی قائدین نے ہمیشہ ایسی کوششوں کو ناکام بنایا ہے کیونکہ یہ جہاں ناکام نہیں ہو سکی وہاں سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پیش آگیا، کوئی لاکھ ہماری غیرت اورحمیت کو نشانہ بنائے ہماری فورسز نہ کمزور ہیں اور نہ ہی ہم میں حب الوطنی کی کمی ہے، تاریخ اور حقائق نے ثابت کر دیاہے کہ بنگلہ دیش کے محب وطن پاکستانیوں کو سازش کے تحت محرومیوں اور ناانصافیوں کی آگ بھڑکا کرپاکستان سے جدا کرنے کی کوشش میں بھارت کی مداخلت موجود تھی اور اگر یہ بین الاقوامی منصوبہ بندی اور سازش نہ ہوتی تو امریکی بحری بیڑہ مدد کے لیے ضرور پہنچتاجس کا امریکی دوستی کے باوجود آج تک کسی کو پتا نہیں کہ کہاں سے چلا اور کدھر گیا ؟ یہ ہے وہ حقیقت جس کی بناء پر اب تک پاکستانی قوم کا اعتماد امریکہ پر بحال نہیں ہو سکا ، لیکن ترقی پذیری کے حوالے سے ہمارے حکمرانوں نے ہر دور میں امریکہ بہادر کی نوکری اور چاکری کو مقدم سمجھا،یہی وجہ ہے کہ جب سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک کاغذ کا ٹکڑا ہوا میں لہرا کر امریکن دھمکی کا نعرہ بلند کیا تو محب وطن پاکستانی قومی سلامتی کے لیے سر پر کفن باندھ کر بطور احتجاج جلسوں میں نکل آئے لیکن صرف دو جلسوں کے بعد ہی سازشی امریکہ بہادر کی کانگریس کا وفد الہان عمر کی قیادت میں پاکستان آیا۔ صدر پاکستان اور امپورٹڈ وزیر اعظم کے علاوہ مخلص دلیر اور غلامی نہ منظور کہنے والے سابق وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملا ، غلامی کی زنجیریں توڑ دو کا نعرہ مستانہ بلند کرنے والے، نہ جھکنے والے، نہ بکنے والے خان اعظم نے نہ ملنے سے انکار کیا اور نہ ہی فوٹوسیشن سے۔ اسے کہتے ہیں یو ٹرن اور یہ خداداد صلاحیت صرف اور صرف عمران خان میں موجود ہے کسی اور دوسرے لیڈر میں نہیں ، نئے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے کان کھڑے ہو گئے ۔ان کا یہ پوچھنا ہر گز ناحق نہیں کہ دشمن اور سازشی امریکیوں کی ملاقات کو سازش کہنے والے نے خود کیوں ملاقات کی؟ ابسلیوٹلی یس کی نوبت کیوں آئی ؟ دشمنوں کے وفد سے ہنس ہنس کر باتیں کیوں کیں ؟دنیا بھر میں

اشاعت کے لیے فوٹو سیشن کیوں کرایا گیا ۔ یقیناً وہ نئے نئے وزیر داخلہ بنے ہیں اور ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ خبر رکھیں کہ غیر ملکی مملکت پاکستان میں کوئی نیا گل کھلانا تو نہیں چاہتے، شک کی نگاہ سے دیکھنا ان کے منصب کی ذمہ داری ہے اسی لیے رانا ثنااللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حقائق چھپائے گئے تو مجھے مجبوراً تحقیقات کرانی پڑے گی کیونکہ یہ بھی مداخلت یا سازش ہی لگتی ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان اقتدار سے چھٹی کو امریکی سازش کہہ رہے ہیں جبکہ تبدیلی سرکار کے وزیر باتدبیر چودھری فواد کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات حکومت کو لے بیٹھے، اگر تعلقات خراب نہ ہوتے تو آج بھی ان کی حکومت قائم ہوتی ، یہ بیان عمران خان کے بیانیہ کی نفی کرتا ہے، دوسری جانب ان کا کہنا ہے کہ عمران خان نہ سازشی ہیں اور نہ ہی سازش کی استعداد رکھتے ہیں اسی لیے وہ لمبی لمبی منصوبہ بندی نہیں کرتے ، میرے خیال میں وہ سیاسی بھی نہیں ہیں، انہیں سیاست کا بخار ضرور چڑھا ہوا ہے اور خوش قسمت ہیں کہ ذمہ داروں کی نظر انتخاب بھی ان پر پڑ گئی ورنہ ان کی سیاسی جدو جہد سوائے ہلہ گلہ کے کچھ نہیں ، البتہ اب وہ سیاسی تربیت کے لیے انتہائی موزوں بن چکے ہیں ، فارن فنڈنگ کیس، توشہ خانہ سے کاروبار، سیاسی جدو جہد اور احتجاجی تحریک کے لیے بھارتی اور جمائما کے بھائی کے خطیر رقم کے چندے کے حوالے سے قید و بند میں جاسکتے ہیں اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو اسے نہ کوئی مداخلت کہہ سکتا ہے نہ ہی سازش، البتہ مادر پدر آزاد یوتھیئے عدالتوں کے خلاف ہرزہ سرائی کر سکتے ہیں اور عدالت عظمیٰ یہ جانتی ہے کہ گالم گلوچ کی موجودگی میں بھی انہوں نے اپنا کام کرتے رہنا ہے جہاں تک بات عمران خان کی سیاست کی ہے تو
وہ میں نے اس لیے کی کہ اگر وہ سیاست دان ہوتے تو امریکی وفد سے کبھی نہ ملتے، خواہ درپردہ معذ رت ہی کیوں نہ کرنی پڑتی ، اس سے انہیں بھر پور فائدہ ملتا اور ان کے بیانیہ سازش اور مداخلت کو تقویت ملتی ، میں 2019 سے اس بات پر قائم تھا کہ عمران خان بھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کرپائیں گے ان کے حمایتی اور ہمارے بہت سے ساتھی میرے موقف کے خلاف تھے۔ یقیناً میں نجومی نہیں ہوں لیکن عمران خان کے ارد گرد موجود نادان دوستوں کے بیانات اور ان کی پذیرائی سے مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ کھلاڑی ابھی اناڑی ہیں ، ماضی کے گھاک ، سیاستدان وزیر اعظم بطور مدت پوری نہیں کر سکے تو اناڑی کیسے وقت پورا کرے گا؟ اپوزیشن سلیکٹیڈ کہتی رہی ، ذمہ داروں نے برا نہیں منایا لیکن جب خان اعظم نے فیصلے دوستوں کی مدد اوراپنی مرضی سے کرنے شروع کر دیئے تو ذمہ داروں کو شخصی آمریت کی بو محسوس ہوئی جونہی اس بو کو لیبارٹری ٹیسٹ میں ڈالا گیا تو نتیجہ سامنے آگیا کہ خان اعظم کے اپنے لوگ اور اتحادی ان فیصلوں پر خوش نہیں تو ہم ان کی پرورش اور کتنی کریں اسی دوران خالصتاً محکماتی فیصلے ڈی جی آئی ایس آئی پر وزیر اعظم اکڑ گئے پھر بھی ہوا وہی کچھ جو ادارے چاہتے تھے لیکن حکومت نے دودھ دیا مگر ’’میگھنیاں‘‘ڈال کر، حکومت اپنی اس اڑی کو کامیابی سمجھتی رہی اور در پردہ اپنا ریکارڈ خراب کرابیٹھی جس کی نشاندہی فواد چودھری ایک ٹی وی پروگرام میں برملا کر چکے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات نہ بگڑتے تو آج بھی ان کی حکومت ہو تی اس بیان کا اگر پوسٹ مارٹم کریں تو بلا شک و شبہ یہ بات اور راز کھل جاتا ہے کہ تبدیلی سرکار کا تحفہ قوم کو اسٹیبلشمنٹ نے دیا اور پھر خان اعظم سے اقتدار بھی ان ہی کرم فرماؤں کی ناراضگی سے اڑن چھو ہو گیا سازش کوئی نہیں؟ جنہوں نے ان دیکھی محبت میں سر پر بیٹھایا جونہی لاڈلے نے پر پرزے نکالے اور سر درد بننے کی ٹھانی، اقتدار کے حقیقی ذمہ داروں نے ہاتھ اٹھا لیاہے اب شہر شہر تماشا لگائیں،تماشائی اکٹھے کریں روزانہ کی بنیاد پر بیانیہ بدلیں اور چار سالہ حساب کتاب دینے کے لیے اپنے کھاتے سیدھے کریں جواب نہیں ہو سکیں گے آپ نے ’’میں میں‘‘بہت کی لیکن کڑے احتساب کے نام پر بھی کچھ نہیں نکال سکے اس لیے کہ مافیا نے ہر دروازے پر آپ کے لیے رکاوٹ کھڑی کی اب بقول آپ کے چوراور ڈاکو برسر اقتدار آچکے ہیں لہٰذا اپنی فکر کریں سیاسی موسمی تبدیلی کے ساتھ ساتھ گرمی کی شدت میں بھی اضافہ ایک فطری عمل ہے آئندہ الیکشن کب ہوں گے اور آپ اس میں دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کر سکیں گے کہ نہیں، یہ ضرور یاد رکھیں کہ اچھے دن جدو جہد اور ثابت قدمی سے نصیب بنتے ہیں برے دنوں کا کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کچھ خفیہ ہاتھ ایسے ہوتے ہیں جو اچھے دنوں میں بھی غلطیوں اور کوتاہیوں کی رپورٹ مرتب کرتے رہتے ہیں آپ کھلاڑی ہیں لیکن سیاست میں اناڑی نکلے اسی لیے یہ دن دیکھنے پڑے، ہم اور ہمارے جیسے کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی، دوستی اور دشمنی بھی بدلتی رہتی ہے آپ کے محبوب صدر نے نومنتخب وزیر اعظم شہباز شریف سے بیماری کے بہانے سے حلف نہیں لیا لیکن سافٹ وئیر اَپ ڈیٹ ہونے پر وزیر اعظم کو پہلو میں بیٹھا کر چار نئے وزراء سے حلف لے لیا۔ اَب اس کی بھی وضاحت کرنی پڑے گی کہ یہ مداخلت ہے کہ سازش کیونکہ آپ کی جانب سے وطن دشمن اور غدار کہلائے جانے والوں سے آپ کے منتخب صدر عارف علوی نے ملک و ملت سے وفاداری کرنے کاحلف لے لیا، تالیاں بھی بجیں اور مبارک باد بھی دی گئی۔ اَب سوچ سکتے ہیں تو ضرور سوچیں منفی انداز میں نہیں کیونکہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، بھاری مینڈیٹ والے وزیر اعظم نوازشریف کی حکومت کا بھی تختہ ہو گیا تھا اور لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button