ColumnImran Riaz

کیا پاکستان میں سول حکومت چل پائے گی؟ … عمران ریاض

عمران ریاض

عمران خان فیکٹر کے سیاست میں عمل دخل سے پاکستان کی سیاسی ہیت ہی بدل کے رہ گئی ہے۔ 30 اکتوبر 2011 کے لاہور کے جلسے کے بعد عملی طور پر عمران فیکٹر سیاست میں ایک حقیقت کا روپ دھار کر سامنے آیا، اس سے قبل اگرچہ پی ٹی آئی کا وجود 1996 میں معرض وجود میں آیا تھا لیکن اس کی نہ تو سیاسی حیثیت بن سکی تھی اور نہ ہی اہمیت ، مگریہ حیثیت اسی 30 اکتوبر کے جلسے نے15سال بعد بنوائی۔ اس جلسے کی کامیابی کے بعد اس جماعت پر اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی ہونے کا مثبت الزام لگ گیا اور ہر طرف دھوم مچ گئی کہ اس پارٹی کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے، ایسا پراپیگنڈا پاکستان میں کسی سیاسی جماعت کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی پہنچاتا ہے کیوں کہ جس پارٹی کایہ ہونے لگ جائے کہ اس پر اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے تو ایسی پارٹی میں لوگ جوک در جوک شامل ہوتے ہیں اور راتوں رات ایسی پارٹی مقبولیت کے اعلیٰ درجوں پر پہنچ جاتی ہے ،چنانچہ پی ٹی آئی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اورجب 2013 کے الیکشن آئے تو بہت سارے اچھے امیدوار بھی اس پارٹی میں شامل ہوگئے نون لیگ کی قیادت چونکہ طویل جلاوطنی کے پاکستان پہنچ چکی تھی تو پنجاب کے عوام ابھی تک اس پارٹی اور اس کے قائد نواز شریف کے سحر سے باہرنہیں نکلے تھے، لہٰذا نون لیگ الیکشن کے نتیجے میں اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئی اور مرکز،پنجاب سمیت بلوچستان میں بھی اتحادی حکومت بنالی لیکن عمران خان جو الیکشن مہم کے دوران شدید زخمی ہوگئے تھے، جیسے ہی اپنی علالت سے اُٹھے تو نواز شریف،چودھری نثار کے ساتھ بنی گالہ عمران خان سے ملنے چلے گئے اس ملاقات کے بعد دونوں اطراف سے کچھ عرصہ تک سیز فائر رہالیکن بعد ازاں عمران خان کو کسی نے خیال دلایا تو انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کا شور ڈال کر دھرنا سیاست شروع کردی اور پھر کون کون اس میں ایکسپوز ہوا، یہ سب تاریخ کا حصہ ہے، بہرحال اس دھرنے کے اختتام کے کچھ ہی عرصہ بعد پانامہ پیپر سکینڈل آگیا اور اس میں بھی کیا کچھ ہوا یہ بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ نواز شریف اور مریم جیل میں تھے جب مئی 2018 کے انتخابات کا وقت آیا عمران خان نے 2013 کے الیکشن بعد ایک بھی دن نواز شریف کو سکون سے حکومت نہیں کرنے دی، کبھی طاہر القادری کی خدمات حاصل کی گئیں تو کبھی جنرل راحیل شریف نے دونوں فریقین کے درمیان معاملات کچھ ٹھیک کرانے کی کوشش کی لیکن دونوں اطراف ٹینشن بہرحال بڑھتی گئی یہاں تک کہ 2018 کے الیکشن کے نتائج کے بعد عمران خان حکومت سنبھالنے میں کامیاب ہوگئے۔
حکومت سنبھالتے ہی پہلے دن سے ان کی توجہ مخالفیں کو دبانے،ان کے خلاف مقدمات بنانے اور انہیں جیلوں میں بند کرنے پر مرکوز رہی، وزیراعظم
بننے کے بعد سے لیکر اپنی حکومت کے خاتمے تک عمران خان کی ہر تقریر سابق حکمرانوں پر تنقید سے شروع ہوکرانہی پر ختم ہوجاتی۔ عمران خان اپنے خطابات میں اپنا ویژن دینے کی بجائے مخالفین کو چور اور ڈاکو قرار دیکر خوش ہوجاتے انہیں بعض مشیروں نے مشورے بھی دیئے کہ اب آپ کنٹینر والی سیاست چھوڑکر سٹیٹس مین والی سیاست کریں مگر مجال ہے جو عمران خان ٹس سے مس بھی ہوئے ہوں۔ سٹیٹس مین شپ تو دور کی بات وہ قائد حزب اختلاف سے ہاتھ ملانے یا کسی قومی ایشو پر ان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہ تھے۔غرور اور خود پسندی کی وجہ سے وہ اپنی پارٹی کے منتخب اراکین سے بھی دور ہوتے گئے۔ اپوزیشن جو شروع میں حکومت کے ساتھ معیشت جیسے ایشوز پر تعاون کے لیے تیار تھی، عمران خان نے اسے دیوار سے لگا کراس قدر نالاں کر لیا کہ وہ ایک پوائنٹ کے ایجنڈے پر آپس میں متفق ہوگئے کہ عمران خان کو بس کسی بھی طرح اقتدار سے نکالا جائے اور جب اپوزیشن مہم شروع ہوئی تو ان کے باہمی اختلافات سے اپوزیشن اتحاد ایک مرتبہ ٹوٹا پھر بنا یہاں تک کہ وہ عمران حکومت کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہوگئے، عمران خان جاتے جاتے آئین اور قانون کی دھجیاں اڑاتے چلے گئے، یہاں تک کہ سپریم کورٹ کو آئین پر عملدرآمد کے لیے مداخلت کرناپڑی عمران حکومت کے دوران اپوزیشن نے نظام حکومت ایک دن کے لیے بھی مفلوج نہیں کیا، عمران حکومت کی کارکردگی تو صفر تھی لہٰذا یہ یقین ہونے بعد کہ ان کی حکومت کسی صورت نہیں بچ سکتی، عمران خان نے راتوں رات
ایک جھوٹا افسانہ گھڑ کے اس کو اپنا بیانیہ بنا لیا کہ انکی حکومت کو امریکہ نے سازش کر کے گھر بھیجا ہے، ان کا یہ چورن خوب بک رہا ہے، اپنی شہرت بحال ہوتی دیکھ کر عمران خان نے عدلیہ اور فوج جیسے ریاستی اداروں پر بھی کھلم کھلا تنقید شروع کر رکھی ہے۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد وہ جلسے جلوسوں میں مصروف ہوگئے ہیں اور فوری الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں انہوں نے اسلام آباد کی طرف مارچ کی کال دے بھی دے دی ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب سے عمران فیکٹر سیاست میں آیا ہے تب سے یہ ہوا ہے، عمران خان اپوزیشن میں ہوں تو نظام مملکت چلنے نہیں دیتے، اقتدار میں تو نظام مملکت چلا نہیں پاتے تو صورتحال جس کا ملک و قوم کو نقصان ہو رہا ہے اسکا کیا کیا جائے؟
یہ ساری باتیں تو اپنی جگہ ایک حقیقت ہیں لیکن ایک اور جو نیا اور انتہائی خطرناک رحجان عمران فیکٹرکی وجہ سے ہماری سیاست میں داخل ہو چکا ہے کہ ریاستی اداروں کی بے توقیری، عمران خان فیکٹرسے قبل سیاست میں ریاستی اداروں کا زکراشاروں کنایوں میں ہوتا تھا لیکن اب غیر محتاطی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے جلسوں اور جلوسوں میں ریاستی اداروں اور ان کے سربراہان کے خلاف پوسٹر لوگوں نے ہاتھوں میں پکڑے ہوتے ہیں جن پر اداروں کے سربراہان کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی گئی ہوتی ہے اور اس رحجان میں تیزی آرہی ہے اور ان اداروں کے سربراہان اپنے خلاف چلنے والی مہمات کی وجہ سے دباؤ میں بھی آ جاتے ہیں۔ ریاستی اداروں خاص طور پر عدلیہ اور افواج پاکستان کے سربراہان نہ سیاسی ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی سیاسی تربیت ہوتی ہے، اس لیے یہ افراد اپنے خلاف ہونے والے پراپیگنڈا سے دباؤ میں آتے ہیں پی ٹی آئی کا مقصد بھی انہیں دباؤ میں لانا ہوتا ہے، اس طرح نہ صرف عمران فیکٹرجب سے سیاست میں آیا ہے انہوں نے ریاستی اداروں پر دباؤ ڈال کر ان سے اپنی مرضی کے نتائج لینے شروع کردئیے ہیں عمران فیکٹر بڑے منظم طریقے آہستہ آہستہ فسطائیت کی طرف پورے سسٹم کو لیکر جارہا ہے جس سے ہمارا ریاستی ڈھانچہ خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔
اب آتے ہیں اس مسئلے کے حل کی طرف۔ اس مسئلے کے دو حل ہیں ایک تو مسئلے کو سیاسی انداز میں حل کیا جائے مطلب عمران خان نے اپنے سارے نظریات اور بیانیے کی جھوٹ پر رکھی اس وقت کے ساتھ ساتھ یہ سارا فریب عوام پر آشکار ہوتا جائے گا اور عمران بری طرح ایکسپوز ہونے کے بعد خاموش ہوکر بیٹھ جائیں گے،دوسرا طریقہ یہ ہے کہ چونکہ عمران خان ریاستی امور میں ریڈ لائنز بار بار کراس کر رہے ہیں اور جس ریاست پاکستان کو مسلسل نقصان ہو رہا ہے تو کیوں نہ پھر ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے جیسا کہ ماضی میں ہوتا تھا۔ خود کو کسی بڑے حادثے سے دوچار کرنے سے قبل اس کی پیش بندی کر لے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی ابھی تک تو حلوہ کھانے والے سیاسی کارکن ہیں انہوں نے ابھی ریاستی اداروں کی سختیاں نہیں دیکھیں، ان میں جس کا دل چاہتا ہے، سوشل میڈیا پر بیٹھ کراپنے ملک کی فوج کے سربراہ کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیتا ہے اور جب چاہتے ہیں چیف جسٹس آف پاکستان جیسے حساس ریاستی عہدیدار پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ ان سب کو بتایا جائے کہ ریاست ہوتی کیا ہے اور اس کی طاقت کیا ہوتی ہے؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button