ColumnZameer Afaqi

حمزہ شہباز،تعارف اورترجیحات … ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

پنجاب کےقریباً گیارہ کروڑ سے زائد زمام اقتدار اب ایک نوجوان سیاستدان حمزہ شہباز کے ہاتھوں میں ہیں۔محمد حمزہ شہباز کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کو یہی پتہ ہے کہ وہ ایک معروف صنعتی و تاجر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ خاندان گزشتہ تین دہایوں سے سیاسی میدان میں ہے ، اسی ناطے سے وہ خود بھی صنعت کار، سیاست دان اور سابقہ رکن قومی اسمبلی پاکستان ہیں۔ موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز 6 ستمبر 1974ء کو لاہور میں میاں شہباز شریف کے گھر پیدا ہوئے، ان کے والد اس وقت وزیر اعظم پاکستان ہیں جبکہ ان کی وزارت اعلیٰ کے دور کو پنجاب کی تعمیر اور ترقی کے حوالے سے بہترین دور کہا جاتا ہے۔ حمزہ شہبازنے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن اور لندن سکول آف اکنامکس سے ایل ایل بی کیا۔ ان کے تایا میاں محمد نواز شریف دو مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں اور مریم نواز ان کی کزن ہیں۔
حمزہ شہبازنے اپنی چھوٹی عمرمیں نامسائد حالات کا سامنا کیا ان کو کالج کے زمانے میں جیل میں ڈالا گیا اورپھر وہ 1999 میں سیاست میں آ گئے، قومی سیاست میں ان کا نام اس وقت نمایاں ہوا جب جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں شریف خاندان کو سعودی عرب جلا وطن کیا گیا۔ شریف خاندان کے لیے وہ وقت یقیناً مشکل تھا لیکن حمزہ شہباز کے لیے زیادہ مشکل تھا کیوں کہ پاکستان میں وہ تن تنہا تھے اور وہ بھی جنرل پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹر کی حکومت میں، جو اس خاندان کی سیاست اور کاروبار دونوں کا خاتمہ کرنے کے درپے تھے۔ ان مشکل دنوں میں انہوں نے کاروبار اور جائیداد کی نگرانی بھی کی اور جیل بھی کاٹی۔مشرف دور سے انہیں قید و بند اور یرغمال بنانے کے عوامل نے ان کی خوب سیاسی تربیت کی۔ جب شریف خاندان کو جلاوطن کیا گیا تو پرویزمشرف نے نوجوان حمزہ شہباز کو یہ کہہ کر پاکستان روک لیا تھا کہ شریف خاندان کے گارنٹرکے طور پر حمزہ شہباز یہیں رہیں گے۔
حمزہ شہباز2008 اور 2013ء کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، 2018کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی اور رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے، مگر قومی اسمبلی کی رکنیت شاہد خاقان عباسی کے لیے چھوڑ کر خود صوبائی اسمبلی کی
سیٹ اپنے پاس رکھی اور قائد حزب اختلاف (پنجاب اسمبلی) مقرر کیے گئے ۔ ان کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ سیاست میں اپنے تایا سابق وزیراعظم نواز شریف کو فالو کرتے ہیں اور ان کی سیاست سے متاثر بھی ہیںانہوں نے صوبائی دارالحکومت اور صوبے میں بلکہ  ہر سطح پر پارٹی کو فعال کیا۔2018 میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی بیک وقت رکن منتخب ہوئے لیکن صوبائی اسمبلی کی سیٹ پی پی 146 کی نشست کو جاری رکھا اور اپوزیشن لیڈر کے طور پر نامزد ہوئے۔اسی دوران 2019 مئی میں حمزہ شہباز پارٹی کے مرکزی نائب صدر بھی بنے، 16 اپریل 2022 کو ہونے والے قائد ایوان کے انتخاب میں متحدہ اپوزیشن کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے 197 ووٹ لیکر21 ویں وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔

حمزہ شہباز کے بارے میں واقفین حال کا کہنا ہے کہ وہ ایک بہترین منتظم ہیں ،فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھتے ہیں اور موسیقی سے انہیں شغف ہے۔ ایسے افراد نہ صرف درد دل رکھنے والے ہوتے ہیں بلکہ فنون لطیفہ کی ترویج کے لیے بھی کام کرتے ہیں، اگر دیکھا جاے تو اس وقت ہمیں ضرورت بھی ایسے حکمرانوں کی ہے جو فنون لطیفہ کی تمام اقسام کو معاشرے میں نہ صرف فروغ دیں بلکہ اس کی ترقی کے لیے کام کریں، ہم فنون لطیفہ کے اوصاف کا حامل معاشرہ بن جائیں تو ہم انتہا پسندی جیسی لعنت سے بچ سکتے ہیں۔
صوبہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا صوبہ ہے اور اس کے مسائل بھی بڑے ہیں،گزشتہ چار سالہ دور حکومت میں جو کچھ اس صوبے کے اور جاری ترقیاتی کاموں کے ساتھ ہوا ،اس نے صوبے کی ترقی کے عمل کو روکے رکھا، جو ان کے والد کے دور سے شروع ہوا تھا، اس لیے سب سے پہلے تو ترقیاتی کاموں کا جائزہ لینا ہوگا، خصوصاً تعلیم اور صحت کے شعبے تو فوری توجہ چاہتے ہیں، ان کا جو حال ہے، اس کے لیے صرف اتنی گزارش ہے کسی ہسپتال اور کسی سرکاری سکول کا ایک سرپرائز وزٹ کریں خود اندازہ ہوجائے گا کہ کتنی خستہ صورت حال ہے۔ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ اس وقت سنگین صورت حال اختیار کر چکا ہے ، خصوصاً بڑے شہروں میں ہونے والے ٹریفک حادثات کی بنیادی وجہ ٹریفک کے مسائل ہیں جنہیں حل کئے بنا ہم قیمتی جانوں کا ضیاع نہیں روک سکتے۔ میاںشہبازشریف کے دور حکومت میںجو ٹرانسپورٹ چل رہی تھی۔ گرین بس منصوبہ ایل ٹی سی کی بسیں کہاں گئیں اور شہر سے کیسے غائب ہوئیں اس پر بھی انکوائری کی ضرورت ہے۔ اس منصوبے کی بندش اور بسوں کے غائب ہونے کے نتیجے میں پورے لاہور میں چنگ چی رکشوں کی بھر مار ہو چکی ہے، جس سے حادثات میں اضافے کے ساتھ عوام کی جیبوں پر کرائے کی مد میں بہت زیادہ بوجھ پڑا ہے جبکہ ٹریفک کے مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اس چار سال کے عرصے میں مکھی اور مچھر مار سپرے نہیں ہوا جس سے ڈینگی نے دوبارہ سر اٹھا لیا ہے، شہروں میں کتوں کی بھر مار ہے اور ان کے کاٹنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہو چکا ہے اور شنید ہے کہ ہسپتالوں میں ویکسی نیشن بھی نہیں ہے۔ یوں ہیں تو یہ چھوٹے چھوٹے مسائل مگر یہی جب انبار بنتے ہیں تو حکومتیں گر جاتی ہیں۔ ہم جیسے اس زمین اور اس کے عوام سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے عوامی مسائل کو اپنے کالموں ا ور ٹی وی پرگراموںمیں اجاگر کرتے ہیں گزشتہ دور حکومت میں تو اس طرح کی باتیں لکھنے اور چینلز پر بولنے کو حکومت کے خلاف سمجھا جاتا تھا اور آج اس حکومت کا انجام سب کے سامنے ہے۔ آپ اگر اپنے اس ڈیڑھ سالہ دور میں عوام کی خدمت میں کوئی مثال قائم کر گئے اور قانون کی حاکمیت قائم کر دی تو یہ عوام آپ کو آئندہ پانچ سال کے لیے دوبارہ بھی وزیر اعلیٰ بنانے میں ممدواور معاون ہو گی اب کارکردگی ہی فیصلے کرے گی۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button