ColumnImran Riaz

عمران خان کا بیانیہ ….. عمران ریاض

اس بات کی داد دیئے بغیر میں نہیں رہ سکتا کہ وہ عمران خان جو اپنی حکومت کے خاتمے سے چند ہفتے قبل تک عوام میں بالکل بھی پاپولر نہیں رہے تھے، مہنگائی،بے روزگاری اور اپنے کیے گئے وعدے پورے نہ کر پانے کی وجہ سے عوام میں ان کی پسندیدگی بہت کم ہوکر رہ گئی تھی پھر جیسے ہی یکایک عمران خان نے امریکی سازش والا اپنا ٹرمپ کارڈ کھیلا تو ایک طرف جہاں ان کے لیے عوام میں مظلومیت کا عنصر آیا تو دوسری عوام کی آنکھوں سے انکی کارکردگی بالکل اوجھل ہو کر رہ گئی ہے۔ عمران بیانیہ نہ صرف لوگوں کو اپیل کر رہا ہے ،لوگ اس پر یقین کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر اپنے بھرپور ردعمل کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔
بات اگر یہیں تک رہتی اور سیاسی معاملات سیاسی انداز چلائے جاتے تو ٹھیک تھی لیکن جب عمران خان نے اپنے بیانیے میں اپوزیشن کے ساتھ ساتھ فوجی قیادت اور اعلیٰ عدلیہ پر بھی سوال کھڑے کرکے انہیں بھی اسی مبینہ امریکی سازش کے سہولت کار بنا دیا تو وہاں سے ریڈ لائن کراس ہونا شروع ہوگئی ، پھر عدلیہ کے اراکین سمیت جب آرمی کے متعلق غلیظ پروپیگنڈا شروع گیا ہر کسی کو امریکی سہولت کار کہہ کہہ کر اسے دفاعی پوزیشن پرلا کھڑا کیا،  وہ خط جو ہمارے اپنے سفیر اسد مجید نے اپنی حکومت کو لکھا اس خط کواس طرح اپنی عوام پیش کیا گیا جیسے کسی امریکی اہلکار نے براہ راست کوئی دھمکی آمیز خط ہمارے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو لکھ دیا ہو بہرحال اس خط کی اصل حقیقت اس وقت سامنے آئے گی جب اسد مجید کسی فورم پر اس خط کے متعلق جو انہوں نے اپنے محکمے دفتر خارجہ کو لکھا تھا اس کی وضاحت کریں گے۔
بلاشبہ عمران خان کی پاپولر ٹی آ ج کل پورے عروج پر ہے اور ابھی تک ان کی ساڑھے تین سالہ حکومت کی جو جواب طلبی تھی اس پر گرد اڑانے میں عمران خان کامیاب رہے ہیں۔ چلیں اپنے سیاسی مخالفین کو ٹارگٹ کرنا سیاست کا وتیرہ ہے لیکن جس قدر منفی پروپیگنڈا کی زد میں پاک فوج آئی ہے ، اس کی مثال اس سے قبل نہیں ملتی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلاشبہ واقعتاً سیاست میں فوج کی مداخلت بند کردی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی تحریک کی شکل میں اتنی بڑی سیاسی مشق ہارنے والی پارٹی تحریک انصاف کے کسی ایک رکن اسمبلی نے یہ الزام عائد نہیں کیا کہ انہیں کسی نے ماضی کی طرح کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف ووٹ دینے کا کہا ہو۔ عمران خان کی طرف سے فوج کے سربراہ پر تنقید محض اس لیے کی جارہی ہے کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ ان کی بے جا حمایت کیوں نہیںکی گئی۔ صرف بات کو بنیاد بنا کر فوج اور عوام میں دوری پیدا کرنے کی شعوری کوشش کرنا ایک قومی جرم ہے۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمےکے لیے جواقدامات اپوزیشن نے اٹھائے ان میں کوئی اقدام بھی خلاف آئین نہیں تھا، جہاں تک پی ٹی آئی کے بعض اراکین اسمبلی کے فلور کراس کرنے کا معاملہ ہے ،آئین بھی کسی کو فلور کراسنگ سے منع نہیں کرتا البتہ اس عمل کی ایک سزا بھی مقرر ہے جس کا اطلاق فلور کراسنگ کے بعد ہوتا ہے ۔ مطلب یہ کہ مجموعی طور آئین پاکستان میں دئیے طریقہ کار کے عین مطابق وزیر اعظم تبدیل کردیا لیکن اس سے یہ ہواکہ عمران خان کو اپنی وزارت عظمیٰ کے جانے کا یقین نہیں
ہو رہا یا پھر یہ انہیں کہیں سے بڑا مضبوط دلاسہ دیا گیا تھا کہ انہیں ہر صورت بچا لیا جائے گا مگر جب ایسا کچھ بھی نہ ہوا تو عمران خان نے ایسی حرکتیں شروع کیں کہ افراد سے لیکر اداروں تک سب پریشان ہوگئے کہ وزیر اعظم کو ہوکیا گیا ہے کہ بس ایک رٹ لگائے رکھی ،میں کہیں نہیں جارہا، میں ہی حکومت میں رہوں گا، یہ عدم اعتماد میرے خلاف عالمی سازش ہے جسے وہ تسلیم نہیں کریں گے۔ عمران خان نے خود تو آئین کی خلاف ورزی کی لیکن ساتھ ہی ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری سے بھی کرادی۔ سپیکر اسد قیصر پر عمران خان نے دباؤ ڈالا لیکن انھوں نے خلاف آئین اقدام اٹھانے انکار کر دیا۔ عمران خان کی رابطہ عوام مہم نے اگرچہ ان کی شہرت میں اضافہ کیا ہے لیکن جھوٹ پر مبنی جس بیانیے کو لیکر وہ چل رہے ہیں اور جس کی زد میں عدلیہ اور فوج جیسے ریاستی ادارے بھی آئے ہوئے ہیں اس وقت کو زیادہ برداشت کرنا ممکن نہیں۔ ابھی تو توشہ خانہ مالی سکینڈ سامنے آیا ہے اور کل ریاست مدینہ کا درس دینے والے عمران خان کہہ رہے ہیں کہ میرا تحفہ میری مرضی، اب کہاں گئے ریاست مدینہ کے اصول جن میں کیا گیا ہے کہ کسی حکمران کو ملنے والے تحائف ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں نہ کہ کسی حکمران کی زاتی ملکیت۔
بیرونی فنڈنگ کیس اپنے اختتام کے بہت قریب پہنچ چکا ہے اس میں جس قدر بد عنوانیوں دیکھنے کو آئیں گی یقیناً لوگوں کے منہ سے توبہ توبہ ہی نکلے گی پھر عمران خان کہیں میری فنڈنگ میری مرضی۔مختصراً عرض ہے کہ عزت اور وقار کے ساتھ اقتدار چھوڑنے کی بجائے عمران نے جو بچگانہ حرکتیں کی ہیں اور جس طرح ریاستی اداروں کو بغیر کسی قصورملوث کیا گیا یہ سب کچھ ہر پاکستانی کے لیے حیران کن ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button