Editorial

معیشت کی منظر کشی اور اہداف

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ کابینہ جنگی بنیادوں پر غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور مشکلات کے خلاف کام کرے گی۔ ہمارے سامنے بہت بڑے بڑے چیلنجز ہیں، معیشت تباہ حال، ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، کارخانے بند پڑے ہیں، ڈوبتی نائو کو کنارے لگانا ہے، ہمیں متحد ہوکر چیلنجز سے نمٹنا اور مسائل کو حل کرنا ہے، سیاست وقت آنے پر کریں گے، سخت محنت سے ملک کے حالات بدلیں گے، ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا،
قوم کی پائی پائی بچانی ہے، زہریلے پروپیگنڈے کا حقائق کے ساتھ جواب دیں گے۔کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ ملکی قرضے دُگنے ہوچکے ہیں اور وفاقی کابینہ نے معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ عمران خان نے پونے 4سال میں 20 ہزار ارب روپے سے زائد قرض لیا، تحریک انصاف کے دورحکومت میں سرکاری قرضوں کاحجم 24953 ارب روپے سے بڑھ کر42745 ارب روپے جبکہ مجموعی غیرملکی قرضوں کاحجم 75.4 ارب ڈالر سے بڑھ کر102.3 ارب ڈالرہوگیا ،
تجارتی خسارہ 43 ارب ڈالرکی سطح پرہے ، بے روزگار افراد کی تعداد 35 لاکھ سے بڑھ کر95 لاکھ ہوگئی ،آئی ایم ایف سے ریلیف کے لیے بات کروں گا، پچیس ہزار روپے کم سے کم تنخواہ کے لیے سمری منظور ہوچکی ہے، پنشن میں بھی اضافہ ہوا ہے، اگلے ماہ بڑھی ہوئی پنشن ملے گی، عوام اور ترقی دوست بجٹ دیں گے ، روپیہ ڈی ویلیو نہیں ہوگا ،مہنگائی کو بھی کم کریں گے، بجلی بحران کم ہوگا ، عوام تین سے چارماہ دے دیں، وزیراعظم نے یوریا کھا دکی سمگلنگ کی تحقیقات کے لیے فوری طور پر کمیشن بنانے کی ہدایت کی ہے، اپریل میں پٹرول اور ڈیزل پر سبسڈی کی مد میں 68 ارب روپے کا خرچہ ہوا ہے، اوگرا کے مطابق مئی اور جون میں 96 ارب روپے تک کا خرچہ ہے، یہ پاکستان کی سویلین حکومت چلانے کے خرچے سے دگنا ہے، جسے ہم جاری نہیں رکھ سکتے، اس پر وزیراعظم کو فیصلہ کرنا ہوگا۔
وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف اور وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی گفتگو زیادہ تفصیل سے بیان کرنے کا مقصد درحقیقت موجودہ معاشی مسائل اور آنے والے دنوں کی متوقع منظر کشی سامنے رکھنا تھا تاکہ بغیر کسی تبصرہ کے سمجھنے میں آسانی ہو کہ موجودہ حالات جو عوام کے نزدیک انتہائی ناسازگار اور مشکل ہیں وہ حالات نئی حکومت کے لیے اُس سے بھی کہیں زیادہ مشکل ہیں اور حکومت اِن حالات کو تادیر برقرار نہیں رکھ سکتی جیسا کہ وفاقی وزیرخزانہ نے کہا کہ عمران خان بارودی سرنگ لگاکر گئے ، ڈیزل اور پیٹرول پر ٹیکس نہیں لیا،عمران خان نے شہباز شریف کی حکومت کو مشکل میں ڈالا ہے، 52روپے ڈیزل پر سبسڈی ہے اور 21 روپے پٹرول پر ہے۔ بارودی سرنگ لگانے سے اُن کی مراد وہ سبسڈی ہے جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے دور کے اختتام سے قبل دینے کا اعلان کیا اور پچھلے کئی ماہ سے دی بھی جارہی ہے۔
بجٹ خسارے پر وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف والے 5575 ارب روپے کا خسارہ چھوڑ کرگئے ہیں، نون لیگ کے دور میں
بجٹ خسارہ 1600 ارب روپے تھا، عمران خان نے 4 سال میں 20 ہزار ارب سے زائد قرض لیا، مسلم لیگ نون 2 ہزار ارب روپے قرض لیا کرتی تھی،عمران خان ساڑھے 4 ہزار ارب روپے سالانہ قرض لے رہے تھے، انہوں نی ایک ڈالر بھی واپس نہیں کیا اور بھاری قرض لینے کے باجود ایک اینٹ بھی نہیں لگائی۔ہم روئیں گے نہیں، پاکستان میں روپے کو مستحکم کریں گے، عمران خان کی حکومت میں دوسرے سال منفی فیصد شرح نمو تھی، اشیائے خورونوش میں موجودہ وقت میں مہنگائی 17.3 فیصد ہے،ٹیکس محاصل 11 فیصد سے کم ہو کر 9 فیصد پر آگئے ہیں ۔
عمران خان نے سالانہ قرض 900 فیصد بڑھا دیاہے، آج ایک کروڑ 35 لاکھ بچے مفلسی میں زندگی گزار رہے ہیں، ایکسپورٹ ضرور بڑھی لیکن مہنگائی بھی بڑھ گئی ہے، ایس این جی پی ایل میں دو سو ارب سے زیادہ نقصان ہوا ہے، گیس سیکٹر کا اس سے پہلے کوئی سرکلر ڈیٹ نہیں تھا، آج 15سو ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ گیس سیکٹر میں ہے۔یوریا ایک لاکھ چالیس ہزار ٹن سمگل ہوچکا ہے، یوریا کی ایکسپورٹ کی اجازت نہیں ملنی چاہیے تھی، وزیراعظم نے فوری طور پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کی ہدایت کی ،تحقیقات کریں گے کہ اس سمگلنگ میں کون کون ملوث ہے۔تحریک انصاف کے دورحکومت میں خط غربت سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد55 سے بڑھ کر75 ملین کی سطح پرپہنچ گئی ہے۔ بلاشبہ وفاقی وزیر کے پیش کردہ اعدادو شمار اور معیشت کی منظر کشی ناقابل تردید ہے کیوں کہ ہماری معیشت کی حالت کبھی ایسی قابل تعریف یا حوصلہ افزا رہی ہی نہیں کہ متذکرہ اعدادو شمار چونکا دینے والے ہوں۔
وطن عزیز کی معیشت ہمیشہ زبوں حالی کا شکار رہی ہے اور ہر آنے والی حکومت سابقہ حکومت کو معاشی ناکامیوں کی خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے، پھر نئی حکومت نئی معاشی پالیسیاں متعارف کراتی ہے اور اِس کے بعد پھر ایک نئی حکومت آجاتی ہے جو سابقہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کی ناکامی کی گردان سے بالکل بھی مختلف نہیں ہوتی۔ کیا آئی ایم ایف کے بھاری قرضے کے بوجھ تلے دبی قوم کو کسی بھی مد میں ریلیف فراہم کیا جاسکتا ہے؟ جیسا کہ وزیر خزانہ نے بھی کہا ہے کہ عمران خان حکومت پٹرول پر سبسڈی کی شکل میں موجودہ حکومت کے لیے بارودی سرنگ بچھا کر گئی ہے، اِس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کو جس مد میں بھی ریلیف دیا جائے گا وہ حکومت کے لیے بارودی سرنگ کے مترادف ہوگا۔ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے کیوں کہ ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں کا ازالہ تنقید یا احتجاج سے ممکن نہیں، اِن غلطیوں کی تلافی میں شاید ہماری اگلی نسل بھی زندگی گزار دے ۔ حکومت عالمی منڈی سے پٹرول خرید کر عوام کو سبسڈائز قیمت پر فراہم کرتی ہے یعنی فی لیٹر پٹرول کی قیمت عالمی منڈی میں کہیں زیادہ ہے لیکن حکومت سستا فراہم کرکے بھی گنہگار ٹھہرتی ہے، چونکہ ماضی میں ڈیم بنانے کی بجائے بجلی کے کارخانے لگادیئے گئے تو جب عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوں گی تو یقیناً بجلی کی قیمتیں بھی بڑھیں گی۔
گیس بھی ہمیں باہر سے ہی درآمد کرنا پڑتی ہے ظاہر ہے جب عالمی منڈی میں گیس کی قیمت بڑھے گی تو اس کے اثرات ہم پر بھی آئیں گے اور آئی ایم ایف، جن کے پاس ہمارا بال بال بھی مقروض ہے، اُن کا صاف اور سیدھا مطالبہ ہے کہ عوام کو سبسڈی فراہم نہ کی جائے تاکہ حکومت پر قرضوں کا بوجھ نہ بڑھے، لیکن عوام کی معاشی صورت حال دیکھ کر حکومت مجبور ہے کہ وہ عوام کو ان تینوں مدات پر سبسڈی فراہم کرے حالانکہ اِس سبسڈی کے باوجود عوام سراپا احتجاج ہیں۔ معاشی مسائل کی گتھی اِتنی اُلجھ چکی ہے کہ اب ہر چیز اور ہر حل سمجھ سے بالاتر نظر آتا ہے۔ ہم آئی ایم ایف سے قرض لیکر اُس کے پرانے قرض کا کچھ حصہ اتارتے ہیں باقی سبسڈیز کی مد میں خرچ ہوجاتا ہے لیکن تب تک مزید قرض چڑھ جاتا ہے، اِس لیے ممکن ہی نہیں کہ عوام کی معاشی حالت بھی بہتر بنائی جائے اور ملک پر قرض بھی نہ چڑھے۔ اِس کا بظاہر جو قابل عمل حل ہم تجویز کرنا چاہتے ہیں وہ یہی ہے کہ اگر بجلی، گیس، پٹرول پر سبسڈی ختم کرنا آئی ایم ایف کے مطالبے پر لازماً مقصود ہے تو پھر عام شہری کا معیار زندگی بہتر بنایا جائے، تاکہ مہنگی بجلی، گیس اور پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ اُن کے لیے گراں نہ گزرے۔ سرکاری ملازمین کے ساتھ ساتھ نجی شعبے سے وابستہ افراد کی ماہانہ آمدن کو زمینی حالات سے ہم آہنگ کیا جائے ،
ٹیکس نظام میں بہتری لائی جائے اور دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ٹیکس نیٹ میں شامل ہوسکیں۔ حکومتی اخراجات میں نمایاں اور حقیقی کمی کی جائے اور فضول خرچی سے اجتناب برتا جائے۔ ہر ممکن حد تک درآمدات کم سے کم کی جائیں خصوصاً آرائشی اور نمائشی اشیا کی درآمدات پر فوراً پابندی لگائی جائے یا پھر بھاری ٹیکس وصول کیا جائے تاکہ قومی خزانے کو فائدہ ہوسکے اس کے برعکس وہ تمام آلات یا اشیا جن کا براہ راست تعلق عام آدمی سے ہے، اُن کو ٹیکس سے ہر ممکن حد تک بچایا جائے تاکہ عام آدمی پر بوجھ نہ پڑے۔ سب سے اہم اور ضروری کرنے والا کام یہ ہے کہ مہنگائی خصوصاً خود ساختہ مہنگائی اورذخیرہ اندوزی پر فوراً قابو پایا جائے اور اگر کوئی مافیا سامنے آتا ہے تو پوری طاقت کے ساتھ اُس کو کچل دیا جائے، پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں بھی ایسا ہی ہوا اور عمران خان بطور وزیراعظم کہنے پر مجبور ہوئے کہ مافیا حکومت گرانے کی دھمکیاں دیتا ہے، تو موجودہ ہر طرح کے مافیا کا خاتمہ کرے کیوں کہ سابقہ حکومت کو کمزور کرنے اور بالآخر ناکام ثابت کرنے میں اسی مافیا کا ہاتھ تھا جو اشیائے خورونوش غرضیکہ کوئی بھی عام استعمال کی چیز جب چاہتا مہنگی کردیتا یا مصنوعی قلت پیدا کرکے عوام کو حکومت کے خلاف احتجاج پر مجبور کردیتا۔
بلاشبہ کرونا وائرس اور عالمی کساد بازاری کی وجہ سے آج پوری دنیا میں مہنگائی کا طوفان بپا ہے، لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اِسی کساد بازاری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وطن عزیز میں مصنوعی مہنگائی کو عروج پر پہنچادیاگیا ہے ،سابقہ دور حکومت میں چینی، ادویات، گندم، آٹا غرضیکہ عام آدمی کے استعمال کی کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کو مافیا نے ذخیرہ اور پھر مہنگا نہ کیا ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مصنوعی مہنگائی پر پوری طاقت کے ساتھ قابو پایا جائے۔ مقامی اجناس اور مصنوعات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے اور مقامی انڈسٹری کو ہر ممکن حد تک توانائی وغیرہ کے متبادل اور سستے ذرائع پر منتقل کیا جائے تاکہ مصنوعی مہنگائی کا کوئی جواز باقی نہ رہے کیوں کہ اب حالات یہ ہے کہ توانائی کے مہنگے ذرائع کے استعمال کی وجہ سے مقامی مصنوعات مقامی منڈی میں بھی مہنگی اور عالمی منڈی میں بھی،اِس کے برعکس پڑوسی ممالک کی وہی مصنوعات یہاں اور عالمی منڈی میں انتہائی سستے داموں دستیاب ہیں کیونکہ اُن کی پیداواری لاگت ہماری پیداواری لاگت سے کہیں کم ہے۔ اِن سطور میں ہم مختصر گذارش کرنا چاہیں گے کہ موجودہ اتحادی حکومت مہنگائی، بیروزگاری اور ایسے دیگر معاشی مسائل کا خاتمہ کرنے کا نعرہ لگاکر برسراقتدار آئی ہے، اِس لیے اب غلطی اور مزید موقعے کی گنجائش قطعی نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button