تازہ ترینخبریںسپیشل رپورٹ

ہر سال دنیا کی 50 فیصد سے زیادہ آبادی کو متاثر کرنے والی بیماری کون سی ہے؟

مائیگرین ہو یا کسی تناؤ کی وجہ سے والا درد یا روایتی سردرد، لگ بھگ ہر فرد کو زندگی میں کبھی نہ کبھی اس کا سامنا ہوتا ہے۔

مگر اب جاکر پہلی بار ایک تحقیق میں علم ہوا کہ ہر سال دنیا بھر میں کتنے افراد سردرد کا شکار ہوتے ہیں اور یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔

سائنسدانوں نے سردرد پر ہونے والی 350 سے زیادہ سائنسی تحقیقی رپورٹس کے تجزیے سے دریافت کیا کہ گزشتہ سال دنیا بھر میں 50 فیصد افراد کو سردرد کا تجربہ ہوا۔

ان میں سردرد کی تمام اقسام جیسے مائیگرین اور دیگر کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

محققین نے تخمینہ لگایا کہ روزانہ دنیا بھر میں 15.8 فیصد افراد کو سردرد کی کسی قسم کا سامنا ہوتا ہے۔

محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ سردرد کی ہر قسم کی شکایت مردوں کے مقابلے میں خواتین میں زیادہ عام ہوتی ہے، بالخصوص آدھے سر کا درد میں یہ فرق (17 فیصد خواتین، 8.6 فیصد مرد) بہت نمایاں ہے۔

اسی طرح خواتین کی جانب سے سردرد کو رپورٹ کرنے کی شرح بھی مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔

تحقیق میں عندیہ ملا کہ مائیگرین یا آدھے سر کے درد کا مسئلہ تیزی سے عام ہورہا ہے۔

محققین نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ وقت کے ساتھ مائیگرین کی شرح میں اضافہ حقیقی ہے جو ممکنہ طور پر ماحولیاتی، جسمانی، رویون یا نفسیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔

تحقیق میں مختلف عناصر کا جائزہ لینے پر دریافت کیا گیا کہ دنیا بھر میں سردرد کی مختلف اقسام میں سے سب سے زیادہ سامنا مائیگرین کا ہی ہوتا ہے جس کی شرح 29.9 فیصد ہے۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر تحقیقی رپورٹس امیر ممالک کی تھیں جہاں طبی نظام اچھا ہے تو ہر ملک کے لیے اس کے نتائج کا اطلاق کرنا درست نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ متوسط اور کم آمدنی والے ممالک سے مزید ڈیٹا کو اکٹھا کرنے پر زیادہ مستند عالمی اعدادوشمار حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

یعنی عالمی سطح پر سردرد کے اعدادوشمار میں کمی بیشی ہوسکتی ہے مگر نتائج سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ یہ عام عارضہ عالمی سطح پر کتنا بڑا بوجھ ہے۔

2019 میں گلوبل برڈن آف ڈیزیز نامی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ آدھے سر کا درد معذوری کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے جبکہ 50 سال سے کم عمر خواتین میں یہ معذوری کی سرفہرست وجہ ہے۔

اب نئی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ سردرد کی مختلف اقسام کی شرح دنیا بھر میں بہت زیادہ ہے اور اس کے مختلف اثرات مرتب ہورہے ہیں۔۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے اثرات کو جاننے کے لیے ہمیں مختلف معاشروں میں سردرد کی شرح اور بوجھ کو مانیٹر کرنا ہوگا اور ہماری تحقیق سے اس حوالے سے طریقہ کار کو بہتر کرنے میں مدد مل سکے گی۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی جرنل آف ہیڈک اینڈ پین میں شائع ہوئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button