Column

آئس ایک جان لیوا نشہ ……. فیاض ملک

فیاض ملک
گزشتہ دنوں شہر لاہور میں ایک ہی گھر کے 6 افراد کے قتل کا دل دہلا دینے والا واقعہ رونما ہوا تھا جس میں ناخلف بیٹے نے اندھا دھند فائرنگ کر کے والد غلام حسین ، والدہ آسیہ بی بی، بہن راحیلہ ،بھانجے ہمایوں، خالہ ساس شگفتہ اور سسر محمد اسلم کو قتل جبکہ دوافراد زخمی کر دیاتھا،پولیس نے موقع پر کارروائی کرتے ہوئے قتل وغارت کرنےوالے ملزم عابد حسین کو گرفتار کرلیا، پو لیس کی ابتدائی تحقیقات میں ہوش ربا انکشاف سامنے آیا کہ سفاک ملزم عابد آئس کے نشے کا عادی تھا جس پر اسکوگھر والے روکتے رہتے تھے مگر وہ باز نہیں آتا تھا اور اسی وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑا رہتاتھا،یوں ایک بار پھر آئس کے نشے کی لت نے ایک اور گھر برباد کردیا،
اب سوال یہ پیدا ہے کہ آ خر یہ آئس کا نشہ کیا ہے؟ اور یکایک پاکستان میں اسکے استعمال میں اضافہ کیوں ہورہا ہیں،ملک بھر میں ہیروئن۔چرس۔حشیش۔گانجا۔شراب۔کوکین۔نشہ آور گولیاں۔انجکشن اور شربت کا نشہ تو عام ہیں اور ہرسال سینکڑوں مردوخواتین نشے کی موذی لت کا شکار ہو کر موت کی وادیوں میں بھی اتر جاتے ہیں۔بہرحال جس طرح دنیا جدت کی طرف جا رہی ہے اسی طرح نشہ آور چیزیں بھی نت نئی شکل اختیار کر رہی ہیں۔ ایسا ہی ایک نشہ جس کو منشیات کی دنیا میں”آئس” کا نام دیا گیا چند سال پہلے ہی مارکیٹ میں متعارف کرایا گیا،
موجودہ دورمیں یہ نشہ انتہائی تیزی کے ساتھ نوجوانوں میں مقبول ہو رہا ہے ، لڑکے تو ایک طرف لڑکیاں بھی اسکی عادی ہو رہی ہیں، ایک اندازے کےمطابق یونیورسٹیوں اور کالجوں کے زیادہ تر طلبا، تعلیم یافتہ اور اعلی طبقے کے افراد اس نشے کی جانب راغب ہو رہے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ ’آئس‘ ‘میتھ ایمفٹامین’ نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے ،اس کو کئی اور ناموں جیسے میتھ ، گلاس اور کرسٹل میتھ سے بھی پکارا جاتا ہے۔یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر کرسٹل پاؤڈر کی شکل میں ہوتا ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس کیلئے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ منشیات کی مختلف اقسام میں آئس کسی حد تک ایک نئے قسم کا نشہ ہے جو اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے منشیات لگتا بھی نہیں ۔ اس میں کوکین، چرس، ہیروئن کی طرح بدبو بھی نہیں ہوتی،کرسٹل شکل اور بے بو خاصیت نے اس نشے کو دنیا بھر میں مقبولیت بخشی ہے خاص طور پر طلبہ وطالبات اور نوجوان ہنرمند طبقہ اس کی لپیٹ میں آگیا،
اب تو یہ موذی نشہ ،دفاتر، بازاروں، دوستوں کی محفلوں سے نکل کر اسکول، کالجز اور یونیوسٹیوں تک پہنچ کر بیشتر طلبہ و طالبات کو اپنا غلام بنا چکا ہے۔ جب اس نشے سے پیدا ہونےوالے احساسات ختم ہوتے ہیں تو اسکی علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں، جن میں آنکھوں کی پتلیوں کا بڑا ہوجانا، منہ کا خشک ہونا، بہت زیادہ پسینہ آنا، حرکت قلب میں بے ترتیبی، بلڈ پریشر اور جسمانی حرارت میں اضافہ، متلی اور قے، سانس پھولنا اور بھوک میں کمی شامل ہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے نشے کا عادی شخص دماغی خلل، چڑچڑے پن، گھبراہٹ، تھکاوٹ، ڈپریشن اور ہیجانی رویے کا شکار ہوتا ہے۔سب سے زیادہ مایوس کن کیسز وہ ہیں جن میں کم عمر افراد سمجھتے ہیں کہ آئس سے ڈپریشن میں کمی لائی جاسکتی ہے اور امتحانات میں بھی مدد مل سکتی ہے۔آئس کے مسلسل استعمال سے گھبراہٹ ،غصہ اور شک کی بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔ طبیعت میں اتار چڑھاو رہتا ہے اور فیصلے کی قوت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔
ایسا شخص اپنی نظر انتہائی خود اعتماد بن جاتا ہے اور اسی لیے کچھ بھی کر گزرنے سے دریغ نہیں کرتا یہی نہیں یہ نشہ پرتشدد طبیعت کو جنم دیتا ہے۔ویسے تو منشیات کی ساری اقسام ہی انسان کو اندر سے کھوکھلا کرکے اسکو موت کے دہانے پرپہنچا دیتی ہیں لیکن بین الاقوامی ریسرچ کے مطابق "آئس” نشہ دیگر تمام منشیات کی اقسام سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے، اسے استعمال کرنےوالے کو ابتدا میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ طاقتوراورذہین کوئی نہیں لیکن اصل میں یہ اس نشے کی وہ لالچ ہے جو اسے استعمال کرنےوالے کو مزید نشہ کرنے پرمجبورکرتی ہے اورچند دن میں ہی وہ چڑچڑے پن اورمتلون مزاج کا شکارہوجاتا ہے جس کے بعد اسکی بھوک پیاس ختم ہوجاتی ہے جواسے جسمانی طور پر کمزورکردیتی ہے اور پھر اس کا اپنے دل و دماغ پرکنٹرول نہیں رہتا۔
"آئس” نشے کا عادی ماں، بہن، بیٹی، بیوی، دوست میں تمیز کھو بیٹھتا ہے یہی وجہ ہے کہ پھر وہ جرم کی جانب مائل ہونا شروع ہوجاتا ہے اسکے اندرسماج کےخلاف نفرت بیدار ہوتی ہے جو اسے جرم کے دوران سامنے آنےوالی ہر رکاوٹ کو ختم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔کئی سال تک آئس کا نشہ کرنےوالے اکثر افراد پاگل پن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ وہ ہر قریبی شخص کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی انھیں مارنے کے لیے سازش کررہا ہے۔
اگرچہ ہر نشے کا انجام دردناک موت ہی ہوتا ہے لیکن آئس نشے کا عادی ” پاگل پن” کا شکار ہوکر اپنے خاندان و معاشرے کیلئے کسی پاگل کتے سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اس کامطلب سوائے تباہی، بربادی اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ آئس کے نشے کا جس طرح نوجوان نسل میں استعمال بڑھتا جارہا ہے اگر اس پر بروقت قابو نہیں پایا گیا تو دنیا بھرمیں یہ نوجوانوں کو وقت سے پہلے بوڑھا بنانے اور ان کی صلاحیتوں کے خاتمے کے ساتھ انھیں سنگین جرائم کا مجرم بنانے کا باعث بن سکتا ہے ،بہر حال نشہ آئس کا ہو یا کسی بھی دوسری منشیات کا۔
اس کا انجام انسانی صحت کے خاتمے کے بعد، جرم کی جانب رغبت اور پھر دردناک موت کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اس سے بچاؤ صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ اپنے اہل خانہ اور ملنے جلنے والوں پر نظر رکھیں جو بھی کسی نشے کا عادی نظر آئے اسکی دلجوئی کرتے ہوئے اسے نشے کی عادت چھوڑنے پر مجبور کریں، اسکا علاج کرائیں اور اس کی محرومیوں کو ختم کریں، اگر انفرادی طور پر سب نے مل کر اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں تو آپ کے اپنے پیارے ان جان لیوا عادتوں میں مبتلا ہوکر نہ صرف پوری نسلوں کی تباہی کا سبب بنیں گے بلکہ اپنی دردناک حالت اور موت سے خاندان کو غم و پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں دے سکیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آئس نشے کا بڑھتے ہوئے استعمال کا یقینی انجام پاگل پن اور دردناک موت ہیں۔منشیات کے استعمال کو روکنے کیلئے دنیا بھر کی حکومتی مشینریاں کام کررہی ہیں لیکن اسکے باوجود منشیات کا استعمال ہو یا ا سکی خریدوفروخت تیزی سے پھیلتی جارہی ہے جوکہ ایک لمحہ فکریہ بھی ہے جس کے بارے میں سنجیدہ اقدامات عمل میں لانے ہونگے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button